0
Thursday 6 Jul 2017 13:25
اسلام میں تشدد کی کوئی گنجائش ہرگز نہیں ہے

جس قوم و ملت کے اندر انتہا پسندی آجاتی ہے، وہ نیست و نابود ہو جاتی ہے، مولانا غلام رسول حامی

نام نہاد اسلامی اتحادوں کے فیصلے وائٹ ہاوس وغیرہ سے طے پاتے ہیں
جس قوم و ملت کے اندر انتہا پسندی آجاتی ہے، وہ نیست و نابود ہو جاتی ہے، مولانا غلام رسول حامی
مولانا غلام رسول حامی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، وہ جموں و کشمیر کے فعال ترین ادارے کاروان اسلامی کے سربراہ ہیں، اولیاء کرام اور صوفیان دین الٰہی کے مشن کی تبلیغ و ترویج میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، کاروان اسلامی جموں و کشمیر کے زیر اہتمام سال بھر میں نیشنل اور انٹرنیشنل دینی کانفرنسز کا انعقاد بھی ہوتا ہے، جموں و کشمیر کے شہر و گام میں مولانا غلام رسول حامی اپنی تبلیغی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، وہ جموں و کشمیر میں علماء احناف و اعتقاد کی سربراہی کر رہے ہیں، چند ایک دارالعلوم انہی کے زیر نظارت فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے عالم اسلام میں موجودہ سنگین صورتحال اور اتحاد اسلامی کی اہمیت پر ان سے ایک نشست کے دوران تفصیلی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کی موجودہ صورتحال اور سعودی عرب کی سربراہی والے نام نہاد اتحاد کے بارے میں آپکے تاثرات جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
دراصل ایک دہائی سے مسلم ممالک کے سربراہان ایک اہم سازش کا شکار ہوگئے ہیں، جن کے بارے میں متعدد علماء و دانشوروں نے ان حکمرانوں کے نام خط لکھ کر انہیں آگاہ بھی کیا، لیکن بدقسمتی سے ان خطوط کو پڑھنے و سمجھنے سے قاصر رہے، کیونکہ عالم اسلام کے نام نہاد حکمرانوں پر صیہونی لابی کا بڑا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔ وہ سربراہان اب حق شناسی و حق بات سننے سے کیوں قاصر ہوچکے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئے روز نام نہاد اتحاد سامنے آتے ہیں، یہ اتحاد ہمیشہ مبہم رہے ہیں، ان اتحادوں کے واضح اصول کبھی نہ تھے، ان اتحادوں کا طریقہ کار صیہونی لابی مرتب کرتی ہے، ان اتحادوں کے فیصلے وائٹ ہاوس وغیرہ سے طے پاتے ہیں، پھر ایک مہرے کے طور پر عالم اسلام میں اسے نافذ کیا جاتا ہے۔ ان نام نہاد اتحادوں کا مقصد عالم اسلام کو تقسیم کرنا ہوتا ہے، عالم اسلام کو صیہونیت کی اصل سازش کو سمجھنا چاہیئے، جس چیز کو نہ جانا جائے، نہ سمجھا جائے اور نہ پرکھا جائے تو اس اتحاد پر دستخط کرنا عالم اسلام کے لئے کہاں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ غور و خوض اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو یہ بات پتہ ہے کہ اگر ہم نے استعمار و استکبار کی سازشوں کا مقاملہ کرنے کا سوچا تو پہلی فرصت میں ہماری عیش پرستیاں، شہنشاہت و بادشاہت خطرے میں پڑ جائے گی۔ وہ جانتے ہیں کہ انکی عیش پرستی تب تک ہی باقی ہے، جب تک صیہونیت ان سے راضی ہے۔ میرے خیال سے ان نام نہاد اتحادوں سے امت مسلمہ کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ امت مسلمہ کو مزید تقسیم کرنے کی ایک گہری سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ ماہ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب اور اسکی جانب سے نام نہاد اسلامی ممالک کے اتحاد کی حوصلہ افزائی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ حکومت پہلے سے ہی اسلام دشمن پالیسی کا اعلان کرچکی تھی، جس پالیسی کے نتیجہ میں ہی وہ برسر اقتدار آیا۔ انکا طریقہ کار سراسر اسلام دشمنی پر مبنی تھا۔ پھر انہوں نے انتخابات کے فوراً بعد چند ایک مسلم ممالک پر امریکہ داخلے پر پابندی بھی عائد کی، جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف انکی پالیسی کا اظہار تھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن نے ہمیشہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے سے ہی اپنے منصوبوں کو عملانے کی روش اختیار کی ہے اور اب امریکی صدر کا سعودی عرب دورہ بھی اسی روش و پالیسی کا حصہ تھا۔ امریکہ و اسرائیل کی آلہ کاری کا بہترین میدان ہمیشہ سعودی عرب رہا ہے، وہاں مکمل طور پر ابھی اسلام مخالف ماحول جڑ پکڑ رہا ہے، سعودی عرب میں آج بھی اسلام مخالف ماحول عروج پر ہے، لیکن وہاں کے حکمرانوں نے اسلامی لبادھا اوڑھا ہوا ہے اور جس دن یہ اسلامی لبادھا ان کے چہروں سے اتر گیا، پوری امت مسلمہ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار تھے، جس غلط فہمی کی وجہ سے عالم اسلام کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کی مثال روشن ہے کہ آج بھی اگر آپ سعودی عرب جاتے ہیں، ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہیں اور اگر آپ کے چہرے پر داڑھی ہے، آپ نے اسلامی تعلیمات کا پاس و لحاظ کیا ہوا ہے تو آپ کی کوئی قدر نہیں کی جائے گی، آپ کو تحقیر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا، اس کے برعکس اگر آپ امریکہ، اسرائیل یا دیگر یورپین ممالک کا پاسپورٹ رکھتے ہیں اور آپ مسلمان نہیں ہیں تو آپ کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہوگی، آپ کا انتہائی احترام ہوگا۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ اپنی عیاشی اور بادشاہت کو قائم رکھا جائے، اس عیش و عشرت کے لئے اگر انہیں اسلام کو قربان کرنا پڑے تو کریں گے، مکہ و مدینہ اور کعبہ کو انہیں قربان کرنا پڑے تو یہ تیار بیٹھے ہیں، انکے لئے ٹرمپ معنٰی رکھتا ہے، صیہونی لابی، امریکہ و اسرائیل معنٰی رکھتے ہیں، اسلام اور مسلمان انکے لئے کوئی وقار، قدر و قیمت نہیں رکھتے ہیں، وہ اپنا اقتدار و کرسی بچانے کے لئے تمام چیزیں داؤ پر لگا بیٹھے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی پر آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
دیکھئے، بدقسمتی سے جسے ہم عالم اسلام کہتے ہیں، وہ دراصل عالم اسلام نہ رہا، آپسی انتشار و مسلم حکمرانوں کی مَن مانیوں کو نتیجے میں ان ممالک نے اسلامی تشخص پامال کیا۔ انتشار و خلفشاری و تنزلی کے نتیجے میں عالم اسلام آخری سانس لے رہا ہے۔ اسلامی برتری اور اقدار کو ختم کرنے کے لئے نام نہاد مسلم حکمرانوں نے ہی مہم چھیڑ رکھی ہے، بدقسمتی سے مسلمان یہ چیزیں نہیں سمجھ رہے ہیں، ہم اس امید سے صبح اٹھتے ہیں کہ آج کچھ نیا ہوگا، کوئی امید کی کرن دکھائی دے گی، لیکن ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے۔ نام نہاد مسلم حکمرانوں کے اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی مثبت پیشرفت کی امید نہیں کی جاسکتی ہے، ہمیں اسلام ناب کی ترویج کے لئے اپنے طور پر کوشش کرنی چاہیے، ہم سے نتیجہ نہیں مانگا گیا بلکہ جدوجہد و سعی ہم سے طلب کی گئی ہے، متحد ہوکر ہی ہم اپنے مشترکات کو حاصل کرسکتے ہیں، فلسطین جیسے مسائل کا تاحال التوا میں پڑا رکھنا ہماری ہی کوتاہی ہے، منتشر ملت اپنے مقاصد کو نہیں پا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ کو متحد ہوکر فلسطین جیسے مسائل کے حل کے لئے کوششیں کرنی چاہیے، اس اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہے، جس کی روح پر آج ہزارہا تیر پیوست ہوچکے ہیں، علماء کرام اس حوالے سے فعال کردار ادا کرسکتے ہیں، تاکہ اسلام ناب ہم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ اتحاد اسلامی کے بغیر مشترکہ مسائل تک رسائی ممکن نہیں ہے، اس بات کی وضاحت چاہیں گے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
دیکھئے، رسول نازنین (ص) کی ذات گرامی کی کاوشوں کے نتیجے میں امت مسلمہ عروج پر پہنچ چکی تھی، مسلمانوں کے درمیان رشتہ اخوت قائم ہوچکا تھا، تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی قرار پائے تھے، دشمنوں کے ساتھ جنگ و جدال کے ایام میں مسلم حکمران آپس میں مشاورت کرتے تھے، وہ ایک دوسرے کے قریب تر تھے، جس کا اثر رعایا اور عام مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتا تھا، آج ایسا معاشرہ کیوں نہیں ملتا، جب سعودی شہزادہ یورپ میں جاکر کرسمس مناتا ہے اور واپس آکر کہتا ہے کہ رسول اکرم (ص) کے ولادت باسعادت کے دن کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تو ایسا انتشار پایا جانا فطری ہے۔ کیوں بارہ ربیع الاول کو ہماری اخوت و ہمارا اسلامی شعور معطل ہو جاتا ہے، کیوں مسلمانوں کے جذبات کی کوئی قدر و قیمت نہیں سمجھی جاتی ہے، تب مسلم حکمرانوں اور عام لوگوں کے درمیان ایک اسلامی رشتہ قائم تھا، اسلامی اصولوں اور احکامات کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا، اب ہمارے نام نہاد حکمرانوں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں سمجھتے، اس چیز کے ہوتے ہوئے ملت کو اور بھی تقسیم ہونا ہوتا ہے، جب تک اس نظام کو بدلا نہیں جاتا ہے، جب تک مسلمان اپنی اسلامی اقدار کو بحال نہیں کرتے، اسلام کی ترویج کے لئے جدوجہد نہیں کرتے، مسلمان سربلندی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے، ہمیں میدان میں آگے آنا چاہیے، اگر ایسا ہوا کہ مسلمانوں کا صرف بارہ فیصد متحد ہو جاتا ہے تو قبلہ اول کی آزادی ایک دن میں ممکن ہے۔ باقی اگر ہم خدا نخواستہ منتشر رہے تو ہمارا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہی انتشار وجہ ہے کہ عالم اسلام میں ہر چہار سمت قتل و غارتگری عروج پر ہے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
عالم اسلام کے بارے میں تمام ذی حس افراد کا ماننا ہے کہ وہ آپسی انتشار کی وجہ سے تذلیل کا شکار ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کے سربراہان عیش و عشرت کی زندگی کے دوام کے لئے ملت کو آپس میں لڑوا رہے ہیں، صہیونیت کی رضا ان کے لئے اللہ کی مرضی سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے، وہ نام نہاد حکمران عالم اسلام کے بارے میں سوچنا پسند نہیں کرتے ہیں، دنیا کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں کے خلاف سوچ رکھتے ہیں، دوسری طرف عالم اسلام کے نام نہاد حکمران بھی صہیونیت کو راضی و خوش کرنے میں مصروف ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کے دور میں مسلمان سکون و امن کی سانس لے سکیں، قتل و غارتگری کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ اسلامی انقلاب دنیا میں برپا ہو جائے، ایسے آلہ کار حکمرانوں کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم ہوسکے، اب چاہیے بحرین ہو، یمن ہو، فسلطین ہو یا قطر کو الگ تھلگ کرنے کی سازش ہو، اس کا واحد مقصد مسلمانوں کے درمیان خلفشاری و تفرقہ پیدا کرنا ہے، حکومتی سطح پر مسلمانوں کے درمیان کشت و خون کا بازار گرم کیا جائے، مسلمانوں کو کمزور و برباد کرنا ہی ان کا مقصد ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات کے تناظر میں دنیا کیلئے بہترین نظام حیات کیا ہوسکتا ہے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
دیکھئے، انسان کے بنائے گئے قوانین اور نظام کے اندر اتنی توانائی، جامعیت و وسعت ہرگز نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے تمام مسائل کو ایڈریس کرسکیں اور دائم و قائم رہ سکیں، الٰہی نظام کے علاوہ تمام نظام باطل و ناقص ہیں، اسلامی قوانین کو لاگو کرنے کے لئے اسلامی حکومت کا پایا جانا ضروری ہے، جمہوری نظام ہو یا دیگر ازم ہوں، تمام انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، ان میں کمی و نقص کا پایا جانا لازمی امر ہے، یہ قوانین ایسے انسانوں کے بنائے گئے قوانین ہیں، جن کے اندر ہزارہا خامیاں اور ہزارہا تعصب پائے جاتے ہیں، تو اس انسان کا پیش کردہ قانون کیسے خالص و مکمل ہوسکتا ہے، اسی لئے ہمیں اللہ تعالٰی کے قوانین و احکامات کو سمجھنا ہوگا اور انہیں نافذ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کی ضرورت آن پڑتی ہے، اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کے لئے داعش جیسے تکفیری دہشتگردوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان قوانین کو کیسے نافذ کیا جائے، اس کے لئے الٰہی قیادت یعنی روحانی قیادت کا پایا جانا ناگزیر ہوتا ہے، اس لئے جب ہم اسلامی تعلیمات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں رسول نازنین (ص) کی حیات پاک کو دیکھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ آج کو دور میں ہر چہار سمت قتل و غارتگری کا موحول دیکھ کر ایسی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ حقیقی اسلامی نطام کو قائم کیا جائے، اگر حقیقی اسلامی نظام دنیا کے دس فیصد حصے میں بھی رائج ہوتا ہے تو لوگ دیکھیں گے کہ اسلام کو ایک منفرد مقام حاصل ہے اور یہی اسلام مکمل نظام حیات ہے۔

اسلام ٹائمز: نریندر مودی کے اسرائیل دورے اور وہاں اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کیساتھ ملاقات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
دیکھئے، بھارت کا سیاسی نظام کبھی بھی مسلمانوں کے حوالے سے مثبت و مفید نہیں رہا ہے۔ بھارت کا سیاسی نظام مکمل طو پر مسلمانوں کو زیر کرنے کے لئے انجام دیا گیا ہے، ہمارا ہمیشہ مشورہ یہ رہا ہے کہ بھارت کو اپنا دل اپنے شہریوں کے لئے بڑا کرنے کی ضرورت ہے، بھارت کو اپنا سیاسی نظریہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ابھی گاؤ رکھشک بھی مسلمانوں کے خلاف کھلی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں، یہ کارروائیاں نہ صرف بھارتی مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ یہاں رہ رہی تمام اقلیتوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی سالمیت کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں پر جو مظالم و تشدد ہو رہا ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان کے تئیں جذبہ و محبت موجود ہے، یہ سمجھ کر ان پر تشدد روا رکھا جا رہا ہے، اسی لئے دیگر اقلیتوں پر اتنا ظلم نہیں ہو رہا، جتنا بھارتی مسلمانوں پر ہو رہا ہے، لیکن ایک مثبت نتیجہ جو ان مظالم کے نتیجے میں سامنے آرہا ہے، وہ یہ کہ عام ہندوستانیوں کے دلوں میں مسلمانوں کی ہمدردی بڑھتی جا رہی ہے، ابھی اترپردیش کا میں نے دورہ کیا، وہاں دلتوں کی پوری بستیاں مسلمان ہوتی جا رہی ہیں، سینکڑوں لوگ اس نعرے کے ساتھ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، میرا ماننا ہے کہ جس قوم و ملت کے اندر انتہا پسندی آجاتی ہے وہ نیست و نابود ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں رہنے والے باشعور افراد پر مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کا ردعمل کیا ہے۔؟
مولانا غلام رسول حامی:
بھارت میں اچھے و باشعور لوگ بھی رہ رہے ہیں، لیکن وہ حق بات کہنے میں ڈر محسوس کرتے ہیں، وہ حکومتی آلہ کاروں سے خوف کھا چکے ہیں، بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہندو انتہا پسند انجام دے رہے ہیں، یہ دہشتگردی کی بدترین مثال ہے، جھوٹے الزامات عائد کرکے مسلمانوں کو حراساں کرنے اور انہیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جانا کس جمہوریت کا حصہ ہے، ٹرینوں میں مسلمانوں کے لئے سفر کرنا دشوار ہوگیا ہے، مسلم لڑکیوں کے ساتھ ٹرینوں میں اور انکے گھروں میں گھس کر زیادتیاں کی جاتی ہیں، مسلمانوں کی مذہبی آزادی ان سے سلب کی جاتی ہے، واقعاً یہ دہشتگردی کی انتہا ہے۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ پورے بھارت میں مسلمان متحد ہو رہے ہیں، جس کے نتائج اسلام اور مسلمانوں کے لئے سودمند ثابت ہونگے۔ مسلمان اگر طاقت میں آجاتے ہیں تو تمام مذاہب کے لئے یہ اچھی بات ہے، کیونکہ اسلامی تفکر اور اسلامی نظام حکومت میں تمام مذاہب کے لئے یکساں اور مساوی حقوق موجود ہیں اور اسلام میں تشدد کی کوئی گنجائش ہرگز نہیں ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا علمبردار ہے، کشمیر اس کی بہترین مثال ہے کہ یہ مسلم اکثریتی ریاست ہے، لیکن یہاں کبھی بھی کسی اقلیت کے حقوق کا مکمل خیال رکھا گیا ہے، کسی اقلیتی مذہب کو اکثریت سے کبھی کوئی شکوہ و گلہ نہیں تھا۔ آج بھی یہاں ہندؤوں کی آخری رسومات میں مسلمان برابر شریک ہوتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کا واضح نمونہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 651035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش