0
Tuesday 6 Feb 2018 08:41
بھارت کی موجودہ حکومت کے پاس کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے

کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جسے ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا، غلام بنی آزاد

کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جسے ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا، غلام بنی آزاد
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے غلام نبی آزاد ایک مشہور بھارتی سیاستدان ہیں، جو کانگریس پارٹی سے منسلک ہیں۔ وہ کئی شعبوں کے وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ حال میں انکا عہدہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کا ہے۔ منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں 27 اکتوبر 2005ء تک وزیر امور پارلیمان رہے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر مسلسل نو مرتبہ فائز رہے اور 18 سال کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ مرکزی وزیر اور کانگریس پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کئی مرتبہ نوکانفیڈنس موشنز میں حکومت کو کامیابی دلوائی۔ 1980ء میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے، جو اقلیت سے منتخب ہوئے۔ غلام نبی آزاد کانگریس کے مرکزی لیڈر ہیں، وہ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلٰی بھی رہ چکے ہیں، غلام نبی آزاد بھارتی پارلیمنٹ میں ممبر کی حیثیت سے کانگریس کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے آپکی جماعت اور نریندر مودی کی حکومت کے لائحہ عمل یا بھارت کی پالیسی کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
غلام نبی آزاد:
جموں و کشمیر ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ ہے، جسے ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کا موقف رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے، جس کے حل میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ مسئلہ حل ہونے تک چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا اور لوگ متاثر ہوتے رہیں گے۔ یو پی اے حکومت نے مسئلے کو ستر فیصد تک حل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ افسوس کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی موجودہ این ڈی اے حکومت کے پاس کوئی کشمیر اور پاکستان پالیسی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پی ڈی پی کا بھاجپا کیساتھ الحاق اور اس الحاق کے منفی اثرات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
غلام نبی آزاد:
مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلٰی محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بہت پہلے بی جے پی میں مدغم ہوچکی ہے۔ پی ڈی پی نے جس دن بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا، اس نے اسی دن اپنا منڈیٹ کھو دیا۔ پی ڈی پی بہت پہلے بی جے پی میں مدغم ہوچکی ہے۔ پی ڈی پی اس دن ختم ہوگئی، جس دن اس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا۔ پی ڈی پی کو کسی الگ چیز کے لئے منڈیٹ ملا تھا۔ جس دن پی ڈی پی نے لوگوں سے کیا ہوا وعدہ توڑا، پی ڈی پی اسی دن ختم ہوگئی۔ ہر سیاسی جماعت کو کسی مخصوص ایشو کے لئے منڈیٹ ملتا ہے، اگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ پارٹی اپنا ٹریک بدلتی ہے تو وہ سیاسی جماعت اپنا منڈیٹ کھود دیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر کی سرحدی آبادی مختلف مسائل و مصائب کی شکار ہے، اس پر آپکی جماعت کیا کیا موقف ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
ہم سرحدی آبادی کو درپیش مشکلات کو آنے والے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔ ہم نے سرحدی آبادی کے لئے محفوظ مقامات پر رہائشی اراضی کی فراہمی، خصوصی بھرتی مہم اور خصوصی ایجوکیشنل سکیم کا مطالبہ کیا۔ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ کشمیر کی سیاست اور سکیورٹی پر وزیراعظم بننے والے نریندر مودی انٹرنیشنل ہوگئے ہیں اور مصائب کے شکار ملکی عوام کو بھول گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کانگریس پارٹی کا موقف اور برنامہ کیا ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ کشمیر کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ سب اس مسئلہ کو جانتے ہیں۔ ہم اس کو باہمی طور پر حل کرنا چاہتے تھے۔ کانگریس نے کبھی نہیں چاہا ہے کہ اس مسئلے کے بہت سے ثالث ہوں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ پاکستان اور ہمارے درمیان ایک دو طرفہ مسئلہ ہے۔ ہم کسی تھرڈ پارٹی سے کوئی مداخلت نہیں چاہتے تھے۔ ایک دو طرفہ ایشو کو ایک دن میں حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے اسے حل کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ راؤنڈ ٹیبل کانفرنسوں کا انعقاد اور مذاکراتکاروں کی تعیناتی اس عمل کا حصہ تھا۔ مذاکراتکاروں کی رپورٹس کو عملی جامہ پہناننے کے لئے باضابطہ ٹیمیں چنی گئی تھیں۔ آپ کو شروع کرنا ہوتا ہے، ہم نے عمل شروع کیا تھا، ہم نے ستر فیصد کامیابی حاصل کی تھی۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ کانگریس بھی مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر حل کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
غلام نبی آزاد:
ہاں یہ کسی حد تک سچ ہے کہ ہم سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کر پائے، لیکن ہم نے عمارت کھڑی کی تھی۔ ہم نے ستر فیصد کام کیا تھا اور بھاجپا حکومت کو چاہیے تھا کہ بقیہ تیس فیصد انجام دے، لیکن وہ مکمل ناکام ثابت ہوئی۔ مسئلہ حل ہونے تک چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا اور لوگ متاثر ہوتے رہیں گے۔ جب تک یہ مسئلے حل نہیں ہوگا، تب تک چوہے بلی کا کھیل جاری رہے گا۔ پاکستان کی طرف سے فائرنگ آتی رہے گی۔ ہمارے لوگ مرتے اور زخمی ہوتے رہیں گے۔ یو پی اے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہم نے پاکستان کے ساتھ وزرائے خارجہ اور وزرائے اعظم کی سطح پر بات چیت کی۔ ہم نے کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی بات چیت کی۔ تین راؤنڈ ٹیبل کانفرنسیں ہوئیں۔ ان کی قیادت خود بھارتی وزیراعظم نے کی تھی۔ وہ ایک بڑا اقدام تھا۔ حریت کانفرنس کے بغیر انتیس سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے ان کانفرنسوں میں شرکت کی تھی۔ یہ ایک مثبت کام تھا، جو ہم نے کیا تھا۔

اسلام ٹائمز: بھارتیہ جنتا پارٹی کیوں مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالے ہوئے ہے، کیوں وہ اس حوالے سے کسی مذاکراتی عمل پر گامزن نہیں ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
بھاجپا حکومت کشمیر کی سیاست اور سکیورٹی کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کشمیر کی سیاست اور سکیورٹی پر ہی بنی ہے۔ جب وہ الیکشن سے چھ ماہ قبل بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار بنائے گئے تو قومی سکیورٹی کو بالعموم اور کشمیر کی سیاست کو بالخصوص انہوں نے اپنا ایشو بنایا۔ اگر آپ کو یاد ہو، ہر میٹنگ میں چاہے اس کا انعقاد آسام، تامل ناڈو، بنگال، یو پی یا بہار میں کرتے تھے، وہ دو چیزیں ضرور بولتے تھے کہ پاکستان کے فوجی ہمارے ایک سپاہی کا سر کاٹ کر لے گئے اور منموہن سنگھ جی کی قیادت والی کانگریس حکومت دیکھتی رہی۔ نریندر مودی نے کئی بار کہا کہ بھارت کی حکومت چلانے والوں شرم کرو، ڈوب جاؤ، ڈوب جاؤ، ڈوب جاؤ۔ تم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماشہ دیکھ رہے ہو اور پاکستان سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ بھاجپا کے پاس جو ابھی پارلیمانی سیٹیں ہیں، ان میں سے اسی فیصد انہوں نے کشمیر کی سکیورٹی اور ہندوستان و پاکستان کے نام پر جیتی ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو محفوظ کشمیر اور محفوظ بھارت کے خواب دکھائے تھے۔ نریندر مودی نے کہا تھا کہ ہماری طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ ہمارے دور حکومت میں دس سال میں 350 مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ مودی کی قیادت والی حکومت میں اب تک اڑھائی ہزار مرتبہ اس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور سب سے زیادہ لوگ اسی دور حکومت میں مرے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا حکومت کی غفلت کے کشمیر پر منفی اثرات کو آپ کن الفاظ میں بیان کرینگے۔؟
غلام نبی آزاد:
جموں و کشمیر میں لوگ مر رہے ہیں، سرحدی آبادی غیر محفوظ ہے۔ جموں کے پانچ سرحدی اضلاع میں لوگ سو نہیں پاتے ہیں۔ بچے اسکول نہیں جا پاتے ہیں۔ ان کا علاج نہیں ہو پا رہا ہے۔ جنہوں نے بھارت کو چلانے کے نام پر ووٹ لئے تھے، وہ انٹرنیشنل ہوگئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نریندر مودی کی حکومت پہلے ملک کے نظام کو چلائے۔ ہمیں دنیا کو چلانے کا منڈیٹ نہیں ملا ہے۔ این ڈی اے کو ملک چلانے کا منڈیٹ ملا ہے، دنیا نہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت کے پاس کوئی کشمیر اور پاکستان پالیسی نہیں ہے۔ ہمیں ایک پالیسی کی ضرورت ہے۔ بھارتی حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت یا کسی دوسرے طریقے سے حل کرے گی۔ ان کو کوئی ٹھوس کشمیر اور پاکستان پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ پاکستان سے بات چیت شروع کرنے کا فیصلہ حکومت کو لینا چاہیے۔ این ڈی اے حکومت کے پاس منڈیٹ ہے۔ مودی پاکستان کو ایشو بناکر وزیراعظم بن گئے ہیں اور آج آپ ان سے کہہ رہے ہیں کہ غریبی ہٹاؤ۔ پہلے اپنے دیش میں غریبی ہٹاؤ۔ وہ اپنی غریبی ہٹانے کی طاقت رکھتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا درد سر ہے۔ وزیراعظم مودی کو اپنے ملک کا کام کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ بھی مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلٰی رہے ہیں، آپ نے اپنے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر یا لائن آف کنٹرول کے مسائل کے حوالے سے کیا اقدام اٹھائے تھے۔؟
غلام نبی آزاد:
جب میں کشمیر کا وزیراعلٰی تھا، تب اس طریقے کے مسئلے درپیش نہیں تھے۔ ہم نے فیصلہ لیا تھا کہ فائرنگ رینج سے باہر لوگوں کو پانچ پانچ مرلہ زمین دیں گے، جہاں وہ محفوظ طریقے سے رہیں گے۔ اس کے لئے تھوڑی بہت زمین حاصل بھی کی گئی، لیکن بعد میں زمین حاصل کرنے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ہم انہیں محفوظ مقامات پر پانچ مرلہ زمین فراہم کرنے کے حق میں ہیں۔ جموں کے پانچ سرحدی اضلاع میں خصوصی بھرتی مہم کی ضرورت ہے۔ کئی گھر والے ہم نے ایسے بھی دیکھے جہاں کمانے والے ہی مر گئے ہیں۔ ہم زیرو پوائنٹ پر بھی گئے۔ سرحدی فائرنگ سے متاثرہ لوگوں کے لئے خصوصی ایجوکیشن پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہم ان مطالبات کی لڑائی ہر ایک پلیٹ فارم پر لڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 702536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش