0
Sunday 25 Feb 2018 23:25
پاکستان کیلئے پہلی بار ایک خوش آئند بات ہے کہ ملکی عدالتیں جاگ رہی ہیں اور ملکی بہتری کیلئے آزادانہ فیصلے کر رہی ہیں

عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، 3 سالہ ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کے علاوہ کوئی حل نہیں، سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا

نواز شریف اور زرداری کرپشن کی ماں ہیں، کرپشن کی ابتدا اور انتہا ان دونوں پر ہی ختم ہوتی ہیں
عام انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے، 3 سالہ ٹیکنوکریٹ حکومت بننے کے علاوہ کوئی حل نہیں، سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا
مشہور و معروف دانشور، تجزیہ کار و کالم نگار نصرت مرزا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انکا پورا نام مرزا نصرت جاہ بیگ ہے، انہوں نے 1969ء میں پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، وہ ٹیلی کام انجینئر بھی ہیں۔ وہ چودہ کتابوں کے مصنف، ماہنامہ ”زاویہ نگاہ“ اور ماہنامہ Interaction کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ میڈیا ریسورس سینٹر، رابطہ فورم انٹرنیشنل کے صدر اور ملک کی متعدد اعلٰی سطحی تنظیموں کے رکن بھی ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی سے عملی سیاست میں سرگرم رہے، مہاجر رابطہ کونسل کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ 93-1992ء میں سندھ حکومت کے مشیر برائے محنت اور 2000-1998ء میں وفاقی وزارت اطلاعات و فروغ ابلاغ کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل آپ روزنامہ جنگ کیلئے کالم لکھ بھی رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مشہور و معروف دانشور، تجزیہ کار و کالم نگار نصرت مرزا کیساتھ ملکی سیاسی صورتحال کی مناسبت سے انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سابق وزیراعظم نواز شریف کو وزارت عظمٰی سے نااہلی کے بعد اب پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل قرار دیدیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
نصرت مرزا:
سپریم کورٹ کا نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے فیصلہ بالکل درست ہے، کیونکہ جس نے کرپشن کی ہو، جو خائن ہو، جو صادق و امین نہ رہا ہو، وہ کیسے ایک سیاسی جماعت کی سربراہی کرسکتا ہے، جو ملک پر حکمرانی کرتی ہو، وہ کیسے وزیراعظم کو نامزد کرسکتا ہے، کیسے وہ پارلیمنٹیرین کو نامزد کرسکتا ہے، جو خود بے ایمان و کرپٹ ہے، لہٰذا یہ فیصلہ پاکستان کیلئے پہلی بار ایک خوش آئند بات ہے کہ ملکی عدالتیں جاگ رہی ہیں اور ملکی بہتری کیلئے آزادانہ فیصلے کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: سابق وزیراعظم نواز شریف کے حامی کہتے ہیں کہ نواز شریف کیخلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس لئے انکو پانامہ کرپشن کیس کی بجائے اقامہ کی بنیاد پر نااہل کیا گیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
نصرت مرزا:
اقامہ کے معنی ہی کرپشن ہیں، کیا ضرورت تھی وزیراعظم کو دبئی کا اقامہ لینے کی، ایک وزیراعظم کیلئے بذات خود یہ ایک نااہلی کی بات ہے، اقامہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہاں دبئی میں بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، پیسے کہیں بھی ٹرانسفر کرسکتے ہیں، پاکستانی وزیراعظم کو دبئی کا اقامہ لینے کی کیا ضرورت پڑی ہے، آپ کو شرم و حیا نہیں آتی، آپ نے دبئی میں بینک اکاؤنٹ کھولے ہوئے ہیں، آپ یہاں سے پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں، آپ نے دبئی کو اپنا مرکز بنایا ہوا ہے، دنیا کے تمام ممالک میں پیسے ٹرانسفر کرنے کیلئے، آپ پاکستان سے بیگوں میں بھر کر، جہازوں کے ذریعے پیسہ بھر بھر کر دبئی لے جاتے ہیں، پھر اقامہ کے ذریعے انہوں نے دبئی میں اپنا راستہ بنایا ہوا ہے، جس کے ذریعے سے آپ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت دنیا بھر میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔ لہٰذا اقامہ کا مطلب ہے کرپشن۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملکی عدلیہ کرپشن کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اقدام کر رہی ہے۔؟
نصرت مرزا:
برطانوی وزیراعظم چرچل نے ایک زمانے میں جب جرمنی پر حملہ کر دیا تھا، تو صرف یہ پوچھا تھا اپنے لوگوں سے کہ کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں، لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں، تو لوگوں نے کہا کہ ہاں ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں، تو چرچل نے کہا کہ پھر ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، اللہ کے ہاں بھی عدل ہے، دنیا کا نظام بھی عدل پر قائم ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ دور کرپشن ہے، اس دور کرپشن میں اگر آپ نے حکمرانوں کو پکڑ لیا، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ چند سالوں کے اندر ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے، یعنی حکمراں کرپشن کی ماں ہیں۔ نواز شریف اور زرداری کرپشن کی ماں ہیں، دونوں سوتیلی ماں، لیکن کرپشن کی ماں ہیں۔ کرپشن کی ابتدا اور انتہا ان دونوں پر ہی ختم ہوتی ہیں، لہٰذا اگر یہ دونوں گھیرے میں آجاتے ہیں، انصاف کے دائرے میں آجاتے ہیں، تو میں سمجھا ہوں کہ یہ کرپشن کے خاتمے کیلئے ایک انتہائی درست اقدام ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے، جس کے اندر انصاف ہوگا، حق و سچ کا بول بالا ہوگا، کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ کرپشن ہر چیز کو توڑ دیتی ہے، سارے نظام کو تباہ کر دیتی ہے، کرپشن کی وجہ سے ملک میں اقدار ختم ہوگئی ہیں، یہ تباہی بربادی کی علامت ہے، پورے نظام کو کرپشن کی دیمک لگ گئی ہے، جسے عدلیہ اکھاڑ رہی ہے۔ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں، مثال کے طور پر ایک بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہو، تو وہ بھی برداشت کیا جا سکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل کیا نظر آ رہا ہے۔؟
نصرت مرزا:
ان کی کچن کیبنٹ ساری کی ساری اقامہ ہولڈر ہے، جو مال بنا رہی ہے، یہ ایک نہ ایک دن پکڑی جائے گی اور سب جیلوں میں ہونگے۔ نواز شریف کا بہت برا حال ہونے والا ہے، ان کی بڑی درگت بننے والی ہے، اگر نواز شریف موجود نہیں ہوتے ہیں تو انکی مسلم لیگ ویسے ہی بکھر جائے گی۔ اگر آپ شہباز شریف کی بات کرینگے تو وہ بھی قانون کے گھیرے میں آرہے ہیں، ان پر 14 آدمیوں کے قتل کا مقدمہ ہے، جب بھی وہ کیس کھلے گا، یہ سب گھیرے میں آئیں گے۔ ان کے درمیان ٹوٹ پھوٹ بھی ہوگی۔ آپ کیا ملک میں بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہو، یہ تمہارے باپ کا ملک ہے کہ یہاں محل بنا کر بیٹھے ہو، ہندوستان کے جاتی امرا گاؤں میں رہتے تھے، ان کا دادا ہندو کے ہاں کام کرتا تھا، اب یہ اپنے ہندوستانی گاؤں کے نام پر یہاں پاکستان میں جاتی امرا نامی محل بنا کر بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی بادشاہت پر مبنی حکومت اور مارشل لاء میں کیا فرق رہ جاتا ہے، یہ نواز شریف کا سول مارشل لاء ہے، ایک آدمی کا حکم چلتا ہے، جیسے الطاف کا حکم چلتا تھا، جیسے زرداری کا حکم چلتا ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے، یہ تو تماشہ ہے، زرداری کے پیچھے اس کا بیٹا بلاول بیٹھا ہے، نواز شریف کے پیچھے اس کی بیٹی مریم بیٹھی ہے، اسکا بھائی بیٹھا ہے، یہ کیسی اور کہاں کی جمہوریت ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم سے مائنس الطاف حسین اور اب مسلم لیگ سے مائنس نواز شریف، کیا اسکے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔؟
نصرت مرزا:
ہمیں بتایا جائے کہ اسکے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کہاں ہے، اس میں تو ججز ہیں، میں تو خود نواز شریف کا میڈیا ایڈوائزر رہ چکا ہوں، لیکن وہ میں ایم کیو ایم کی وجہ سے تھا، مجھے ایم کیو ایم کی مخالفت کرنی تھی یہاں کراچی میں، جب حکیم محمد سعید کو شہید کیا گیا۔ الطاف حسین کو تو مائنس ہونا ہی تھا، جو وہ فرعون بنا پھرتا تھا، اس ظالم کو کب تک برداشت کیا جاتا، الطاف حسین کو تو 1988ء میں ہی مائنس کر دینا چاہیئے تھا، اس زمانے میں تو آئی ایس آئی الطاف حسین کو سپورٹ کر رہی تھی، ہم تو اس وقت ہی مخالفت کر رہے تھے، 1988ء میں مجھ سے الطاف حسین نے خود کہا تھا کہ علیحدہ ملک چاہیئے، اس وقت میں مہاجر رابطہ کونسل کا صدر تھا، الطاف حسین پہلے ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس رہا، پھر برطانوی ایم آئی سکس سے جڑ گیا، اب سی آئی اے سے جڑا ہوا ہے، بھارت سے تعلقات ہیں، لہٰذا کہیں نہ کہیں تو اس کا بھانڈا پھوٹنا تھا، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ اسے توڑنا چاہیئے، لہٰذا اس کی جماعت کو توڑ اور اب اسکے مزید ٹکڑے کر رہے ہیں، تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے، کوئی ایسی غلط بات نہیں ہے، یہ اسٹیبلشمنٹ کرے یا کوئی اور کرے۔ 9 جون 1988ء سے الطاف حسین کے خلاف میں نے شور مچانا شروع کیا تھا، غالباً 1987ء کی بات ہے کہ میں اس وقت کے ڈی جی آئی آئی جنرل حمید گل کے پاس ٹرنک روڈ پر واقع ان کے گھر چلا گیا، اس کی میز پر مکا مار کر کہا تھا کہ یہ تو ہمارا آدمی نہیں ہے، بشریٰ زیدی قتل کے بعد اسی آدمی روزانہ کراچی میں قتل ہوتے تھے، اس وقت جا کر میں حمید گل سے لڑا، حمید گل بھی چیخا، اس نے برا مانا مگر اتنا زیادہ برا نہیں مانا، بعد میں ہم بہت اچھے دوست بھی بن گئے، میں نے اس کی میز پر گھونسا مار کر کہا کہ اپنی بے بی ایم کیو ایم کو کنٹرول کرو۔ وہ بھی چیخا کہ ایم کیو ایم میری بے بی نہیں ہے، ہماری اتنی تلخ کلامی ہوئی کہ اسکے مسلح محافظ کمرے میں آگئے، لیکن حمید گل نے انہیں واپس باہر بھیج دیا اور پھر نرمی سے کہنے لگا کہ کہ دیکھو ایم کیو ایم ہماری نہیں ہے، لیکن ہم انہیں اپنی طرف موڑ رہے ہیں۔

بہرحال الطاف حسین بھارتی ایجنٹ تھا، بعد میں ثابت بھی ہوگیا، اس وقت جئے سندھ کی موومنٹ چل رہی تھی تو انہیں الطاف حسین کی ضرورت تھی، دونوں متضاد قوتوں کو لڑا کر اپنا کام نکالنا چاہتے تھے، جنرل آصف نواز جب آرمی چیف بنے، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ پر اسٹیبلشمنٹ راضی نہیں ہے، اس لئے کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ جھگڑوں میں نہیں پڑینگے کہ میں کیوں لڑوں سندھیوں سے۔ لیکن آج جو ججز کر رہے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر نہیں کر رہے ہیں، موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار صاحب تو خود نواز شریف کے ساتھ رہے ہیں، لیکن، نواز شریف کے سارت کرتوت انہیں معلوم ہیں اور یہ بات تو ہمیں بہت پہلے معلوم ہوگئی تھی کہ جب کہا گیا کہ اب تو یہ پنجاب کے ہاتھ میں سارا کا سارا آگیا ہے، ثاقب نثار بھی ان کا آگیا ہے، اب تو ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا، لیکن پھر کہا گیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، ثاقب نثار بہت صاف آدمی ہے، گورنمنٹ کالج لاہور کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے ایک آدمی نے مجھے بتایا کہ جسٹس ثاقب نثار نے مصمم ارادہ کر رکھا ہے کہ میں انصاف کروں گا، ایسا کیوں ہے کہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا کے لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں، لیکن پنجاب کے لوگوں کو سزا نہیں دی جاتی، وہ کیا دودھ کے دھلے ہوئے ہیں کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ لہٰذا اب چیف جسٹس ثاقب نثار انہیں سزا کے مرحلے سے گزار رہے ہیں۔ بہرحال آپ جو سوال کر رہے ہیں، اب اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ اس حد تک نہیں گئی ہے، وہ ہوشیار ہوگئے ہیں، اپنے آپ کو دور رکھا ہوا ہے۔ نواز شریف کرپٹ تو ہیں نا، اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے، اب اس کی پکڑ کے حوالے سے کوئی فیصلہ اللہ کی طرف سے ہو رہا ہے، تو اس میں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اور فرض کریں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ بھی کر رہی ہو تو اسے کرنا چاہیئے، اگر نہیں کر رہے تو بے وقوف ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا مائنس زرداری کی باری بھی آئیگی۔؟
نصرت مرزا:
زرداری نے بھی یہاں سے کشتیوں کے ذریعے پیسہ باہر بھجوایا ہے، جب یہ عورتیں ختم ہوگئیں کہ جن کے ذریعے زرداری ملک سے لوٹا ہوا پیسہ باہر بھجواتا تھا، جن میں سے ایک پکڑی بھی گئی، تو اس نے کشتی کے ذریعے پیسہ باہر بھجوانا شروع کر دیا، لیکن پھر فوجیوں کے ہاتھوں کشتی بھی پکڑی گئی، لیکن پھر بھی وہ پیسہ باہر بھجوا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک وقت میں سارے سیاستدانوں سے تو نہیں لڑا جا سکتا، وہ ایک ایک کو لے رہے ہیں، جو بھی پکڑ میں آرہا ہے، اس کو ٹھوک رہے ہیں، ابھی نواز لیگ کے لوگوں کی باری ہے، نہال گیا ہے، طلال، دانیال جائیں گے، یہ سب لوگ جیل میں جائیں گے، ان کے درمیان ٹوٹ پھوٹ بھی ہوگی۔ اس کے بعد زرداری صاحب بھی آجائیں گے ایک دن گھیرے میں۔

اسلام ٹائمز: عام انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں یا پھر کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔؟
نصرت مرزا:
ویسے تو مجھے عام انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے، ابھی تو نواز شریف والوں کی اچھی خاصی پٹائی ہونا باقی ہے، یہ لوگ ہنگامہ کرنے کی بھی کوشش کرینگے۔ یہ جو آپ نے ٹیکنوکریٹ حکومت کی بات کی ہے، ٹیکنوکریٹ حکومت کی تھیوری کسی اور کی نہیں، میری پیش کردہ تھیوری ہے، جو میں نے جنوری 2009ء میں اپنی لکھی ہوئی کتاب Pakistan Most Bullied Nation But Resilient میں دی تھی، کیونکہ یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ اس ملک کو چلا سکیں، یہاں پر ملک بھر سے اہل، ایماندار، بیدار، اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر افراد، دانشوروں پر مشتمل ایسی تین سالہ ٹیکنوکریٹ حکومت آئے، جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں کام کرے اور ہر ادارے سے کرپٹ اور سیاسی جماعتوں کے مسلط لوگوں کو فارغ کرے، کرپٹ بیوروکریسی کی جگہ ایک صاف ستھری بیوروکریسی لے کر آئے، یہ بہت ضروری ہے۔ تین سال کیلئے ٹیکنوکریٹ حکومت بنے، تین سال میں وہ اداروں کو کرپٹ افراد سے پاک کرے، اصلاحات کرے، نئے سرے سے منصفانہ اور شفاف الیکشن کرائے۔ ہمیں جمہوریت کے نام پر بادشاہت نہیں چاہییے کہ جہاں ایک آدمی کا حکم چلتا ہو۔ امریکہ، برطانیہ سمیت دنیا بھر کے بدمعاش پاکستان میں این جی اوز کی آڑ میں کام کر رہے ہیں، ان کی روک تھام نواز شریف اور زرداری کی بادشاہت طرز کی حکومتیں نہیں کرسکتیں، بلکہ قومی مفاد میں کام کرنے والی ٹیکنوکریٹ حکومت ہی کرسکتی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ٹیکنوکریٹ حکومت بنے گی یا نہیں، لیکن ٹیکنوکریٹ حکومت کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے، بنتی تو مجھ سے بھی کچھ لوگ آکر بات کرتے، لیکن مجھ سے اب تک کسی نے بات نہیں کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی آیا، تو وہ سیدھا سیدھا مارشل لاء آجائے گا اور وہ اس کرپٹ حکومت کو چلتا کرے گا اور پھر اپنی پسند کے لوگوں پر مشتمل حکومت لے آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 707549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش