0
Friday 2 Mar 2018 00:13
ہماری پالیسی حکومت سے ٹکراؤ یا دھرنا گھیراؤ کی بالکل نہیں ہے

ردالفساد کے اثرات کا ڈی آئی خان میں نظر نہ آنا باعث تشویش ہے، علامہ حمید حسین امامی

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ڈیرہ سے بے حسی اور مجرمانہ غفلت برت رہی ہے
ردالفساد کے اثرات کا ڈی آئی خان میں نظر نہ آنا باعث تشویش ہے، علامہ حمید حسین امامی
علامہ حمید حسین امامی کا تعلق پارا چنار سے ہے۔ وہ شیعہ علماء کونسل اور اسلامی تحریک خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر ہیں، وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کیبعد علامہ شہید عارف حسین الحسینی کے مدرسہ جعفریہ میں دینی تعلیم کے حصول کیلئے گئے اور 6 سال تک علامہ عارف حسین الحسینی اور سید عابد حسینی کی شاگردی اختیار کرنیکے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ایران کے شہر قم المقدسہ کا رخ کیا اور 14 سال تک وہاں تعلیم حاصل کی، اس دوران انہیں آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ جوادی آملی کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری قم سے حاصل کی، 1996ء کے اواخر میں وطن واپس آئے اور اسلامی تحریک کیساتھ وابستہ ہوگئے، 2 سال سے ایس یو سی خیبر پختونوا کے صوبائی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خیبر پختونخوا بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں امن و امان اور انکی جماعت کی پالیسی کے متعلق گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: 11 مارچ 2018ء کو شیعہ علماء کونسل ڈی آئی خان میں شہداء کے چہلم کے سلسلہ میں جلسے کا انعقاد کر رہی ہے، قوم کو تحفظ کیلئے کوئی لائحہ عمل بھی دیا جائیگا۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ تو وقت بتائے گا کہ ہم کیا لائحہ عمل دیتے ہیں اور کب دیتے ہیں۔ طویل عرصے سے ڈی آئی خان مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے۔ تمام تر تحفظات اور خدشات کے اظہار کے باوجود ڈیرہ میں شیعہ کلنگ کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ ہم نے اپنی طرف سے اس کلنگ کو روکنے کیلئے تمام پرامن اقدامات اور کوششیں کرکے دیکھ لیں ہیں، مگر حکومت اور انتظامیہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ انتظامیہ سے ملاقاتوں کے دوران جب ٹارگٹ کلنگ کی وجوہات پہ بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ڈی آئی خان، جنوبی وزیرستان کے قریب واقع ہے۔ اس لئے یہ کلنگ ہو رہی ہے۔ میرا تو سوال ہے کہ جنوبی
وزیرستان کے قریب موجود علاقے کو تحفظ نہیں دیا جار ہا ہے جبکہ خیبر ایجنسی، میرانشاہ وغیرہ کے نزدیکی علاقوں میں اتنی بدامنی نہیں ہے، جتنی پہلے تھی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ میں شیعہ کلنگ کی بنیادی وجہ کیا ہے اور اسکے ذمہ دار کون ہیں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کے خلاف یہ انتہائی گندی سازش ہے، جس کے تحت یہ ظلم جاری ہے۔ شہید مطیع اللہ نے یا شہید حسن علی نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ اس بیچارے دودھ فروش کا کیا قصور تھا کہ اسے شہید کیا گیا۔ میرے نزدیک اس کی بڑی اور بنیادی وجہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی ناکامی اور جانبداری ہے۔ وزیراعلٰی قصوروار ہیں، صوبائی وزیر داخلہ قصوروار ہیں۔ ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ مقامی انتظامیہ کو کہاں سے ایسی ہدایات ملتی ہیں کہ شیعہ کلنگ پہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ گرچہ دونوں پائیدار قیام امن کے دعویدار ہیں، مگر ان کے یہ دعوے محض زبانی کلامی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈی آئی خان میں حکومتی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان، وزیراعلٰی، خیبر پختونخوا حکومت ذمہ دار ہے۔ ڈیرہ کا امن صوبائی حکومت کی ترجیح ہے اور نہ ہی اس کا رویہ معذرت خواہانہ ہے۔

اسلام ٹائمز: طویل عرصے سے شیعہ کلنگ جاری ہے، شیعہ علماء کونسل کے پاس تحفظ کے حوالے سے کیا پروگرام ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
ہمارے قائد محترم جناب سید ساجد علی نقوی کی پالیسی حکومت سے ٹکراؤ یا دھرنا، گھیراؤ کی بالکل نہیں ہے۔ وہ ایسے کسی بھی احتجاج کے حق میں نہیں، جو کہ ثمر آور ہونے کے بجائے باعث زحمت ہو۔ ہمیں حکومت سے قطعاً کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ڈی آئی خان، پارا چنار یا دیگر علاقوں میں اہل تشیع کے تحفظ کیلئے کوئی اقدامات کرے گی، البتہ پاک فوج اس میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ ملک بھر میں ضرب عضب اور ردالفساد جاری ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں بالخصوص
فاٹا، بلوچستان، میں تو ردالفساد کے کچھ نہ کچھ اثرات دکھائی دیتے ہیں، مگر حیرت کی بات ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ردالفساد کے اثرات بھی ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے، جو کہ باعث تشویش ہے، جبکہ تیراہ، اورکزئی، میرانشاہ جو کہ زیادہ بدامنی کا شکار تھے، وہاں فوجی مداخلت کے اثرات واضح ہیں جبکہ ڈی آئی خان تاحال مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل ایم ایم اے کا حصہ ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) سمیت کسی جماعت نے ڈیرہ میں شیعہ کلنگ کی مذمت تک نہیں کی۔؟ ایسا کیوں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
یہ مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ میرے نزدیک ایم ایم اے کا مطمع نظر فقط 2018ء کے انتخابات نہیں ہونے چاہیئے۔ انسانی بنیادوں پہ ان مسائل پہ آواز اٹھانی چاہیئے ،جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان تو مولانا فضل الرحمن کا آبائی حلقہ ہے۔ وہ اس علاقے کی انتہائی بااثر شخصیت ہیں۔ ان کی جانب سے اس ٹارگٹ کلنگ کے مسئلہ میں عدم مداخلت بھی ایک سوال ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ ڈی آئی خان میں پائیدار قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف جب اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دیا جاتا ہے تو ان قبائلیوں سے، ان متاثرین سے اظہار یک جہتی کیلئے کئی سیاسی رہنما وہاں گئے اور ان سے یک جہتی کا اظہار کیا، اس قتل کی مذمت بھی کی۔ ڈیرہ سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں تشیع شناخت کا جو قتل عام جاری ہے۔ اس کے خلاف سیاسی جماعتیں آواز بھی نہیں اٹھاتی، حتیٰ کہ کھل کر اس کی مذمت بھی نہیں کرتیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کی خبر چیف جسٹس کو بھی ہو جاتی ہے، وہ اس کا سوموٹو ایکشن بھی لیتے ہیں، اس کی خبر عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماوں کو بھی ہو جاتی ہے۔ وہ ان واقعات کی مذمت میں اوپر تلے بیانات داغتے ہیں، مگر ڈیرہ میں بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ امام بارگاہ کے
معصوم سے جھاڑو بردار کو اس کے دروازے پہ قتل کیا جا رہا ہے۔ غریب دودھ فروش کو اس کی دکان پہ گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے، اس پہ کوئی سوموٹو نہیں لیتا۔ اس پہ کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتا۔ میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ ڈیرہ کے حالات سے عمران خان لاعلم ہیں، پرویز خٹک لاعلم۔ ان کے علم میں ہے۔ وہاں ہونے والا ظلم یہ بہت اچھی طرح اور بخوبی جانتے ہیں، مگر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوکر خاموش ہیں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اور پرویز خٹک ڈیرہ کے حالات سے لاعلم ہیں مگر اکوڑہ خٹک کے حالات سے آگاہ ہیں اور کروڑوں روپے کے فنڈ جاری کر رہے ہیں، کیا یہ عمل متعصبانہ نہیں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
پی ٹی آئی کو، عمران خان کو، وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کو اکوڑہ خٹک سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ کہیں پہ دھرنوں کو کامیاب کرنے کیلئے افرادی قوت فراہم کریں گے تو کبھی ٹھیک غلط میں ان کا ساتھ دیں۔ ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں کہ عمران خان مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو سات کے بجائے ستر کروڑ روپے دے۔ ہمیں ان کی امداد پہ اعتراض نہیں بلکہ ہمیں اعتراض ڈیرہ میں بہنے والے خون سے بے حسی برتنے پہ ہے۔ چاہے جسے مرضی چاہیں نوٹ بانٹیں مگر اپنی ذمہ داریاں سے آگاہ بھی رہیں اور ان کو پوری کرنے کی کوشش بھی کریں۔ تاہم سامنے کی بات ہے کہ صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی چیئرمین ڈیرہ سے بے حسی اور مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔ جس کے باعث حالات زیادہ گھمبیر ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: تشیع کے حوالے سے کیا خیبر پختونخوا حکومت کی پالیسی جانبدارانہ اور متعصبانہ ہے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
پانچ سال گزر گئے، ان کے پاس کوئی پالیسی سرے سے ہے ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کی پالیسی صرف دھرنا ہے۔ دھرنوں کے علاوہ ان کے پاس مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے سڑکیں نہیں مانگیں، ہسپتال، ٹرینیں، بسیں نہیں مانگی تھیں۔ یہاں کے عوام نے صرف اور
صرف تحفظ مانگا تھا۔ جان کا تحفظ، مال کا تحفظ، عزت و وقار کا تحفظ۔ مگر صوبائی حکومت کی ترجیحات میں باقی ساری چیزیں شامل رہیں ماسوائے عوام کے تحفظ کے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آئے روز ہم لاشیں اٹھانے پہ مجبور ہیں۔ فروغ امن کیلئے کوئی بھی پالیسی بنے ہم اس کا خیر مقدم کریں گے، تاہم کوئی اقدام ہو تو سہی نا۔ اگر یہ حکومتیں اور ادارے ہمیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو ہمیں اپنا تحفظ کرنے کی آزادی دے دیں۔ درمیان سے ہٹ جائیں، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں کون یوں گلیوں، بازاروں اور شاہراوں پہ قتل کرتا ہے۔ کون ہمارے خون کی ہولی کھیلتا ہے۔ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری سمجھا جاتا ہے جبکہ ہم کمزور نہیں ہیں۔ ہمیں اپنا ملک بھی عزیز ہے اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ اس کی اس قتل و غارتگری کے مقابلے میں ہم بھی یہی رویہ اپنائیں۔ تاہم ہم ہر اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں کہ جو ملک و قوم کے مفاد کے منافی ہو۔

اسلام ٹائمز: شیعہ کلنگ پہ اسطرح خاموشی کے باوجود بھی کیا ایم ایم اے کو انتخابات میں سپورٹ کرینگے۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
متحدہ مجلس عمل میں شیعہ علماء کونسل شامل ہے اور لازمی بات ہے کہ آئندہ انتخابات میں ہم ایم ایم اے کی حمایت کریں گے۔ البتہ یہ امر کوئی قابل ستائش نہیں کہ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پہ سیاسی جماعتیں یوں چپ سادھ لیں۔ سب کو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے آواز بھی اٹھانی چاہیئے اور ہونے والے قتل عام کی مذمت کرکے پائیدار قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کوٹلی امام حسین (ع) کا مسئلہ پرانا ہے، صوبائی حکومت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے، اسکے خلاف بھی شیعہ علماء کونسل کی کوئی نتیجہ خیز کوششیں دکھائی نہیں دیتی۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
میں یہ سمجھتا ہوں، ظلم تو ظلم ہے چاہے کوئی بھی کرے۔ ہم ہر ظلم کے خلاف، غاصبانہ قبضے کیخلاف ہیں۔ ہم
نے آئی جی سے لیکر ہوم سیکرٹری تک اور ایم پی اے سے لیکر وزیراعلٰی تک سب کو اس اہم مسئلہ کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔ انہیں بتایا ہے کہ اوقاف اور صوبائی حکومت ہمارے ساتھ شدید زیادتی کر رہی ہے۔ وقف امام حسین (ع) زمین پہ جبری قبضے کی گنجائش نہ ہی قانون میں ہے اور نہ ہی شرعی طور پر اس کی راہ ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ امام حسین (ع) کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ یہ زیادتی امام حسین (ع) کے ساتھ ہے۔ جب ایک زمین وقف ہے تو حکومت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اسے اپنے قبضے میں رکھے۔ قرآن مجید میں واضح احکام ہیں۔ ایک دوسرے کے حق غاصب نہ کرو۔ تعلیمات محمد و آل محمد (ص) بھی اس پہ اصرار کرتی ہیں۔ ہمارا اصولی موقف یہی ہے کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی پوری زمین اسی طرح وقف امام حسین (ع) بحال کی جائے اور اس سے ناجائز قبضہ ختم کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت نے یہ تجویز دی کہ تین سو سات کنال میں سے ایک سو نو کنال اہل تشیع کو دی جائے جبکہ باقی ضلعی انتظامیہ کو دی جائے، شیعہ علماء کونسل کے ایک رہنماء نے اس تجویز سے اتفاق کیا ہے۔ ایسا کیوں۔؟
علامہ حمید حسین امامی:
دیکھیں کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین کے وارث تو خود امام حسین (ع) ہیں۔ نہ ہی اس کا وارث میں بن سکتا ہوں، نہ ہی قائد محترم علامہ ساجد اس کے وارث بن سکتے ہیں اور نہ ہی علامہ رمضان توقیر اس کے وارث بن سکتے ہیں۔ تو ایسی کوئی بھی تجویز کہ جس میں انتظامیہ یا حکومت کہے اچھا آدھا تم رکھو اور آدھا ہم، تو یہ غصب ہوگا، امام حسین (ع) کی زمین کا غصب، جو کہ قابل مذمت ہے۔ ہم کوٹلی امام حسین (ع) کی زمین کے مسئلہ پہ اپنے اصولی موقف اور حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور پہلے کی طرح آج بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وقف امام حسین (ع) پوری زمین پرانی حیثیت میں بحال کی جائے، اس کے علاوہ کسی بھی ایسے کمپرومائز کی مذمت کرتے ہیں کہ جس میں آدھا تمہارا اور آدھا ہمارے والی بات ہو۔
خبر کا کوڈ : 708210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش