2
0
Thursday 22 Mar 2018 01:08

سی پیک کیلئے مختص 56 ارب ڈالر میں گلگت بلتستان کو ایک روپیہ نہیں ملا، انجینئر شبیر حسین

سی پیک کیلئے مختص 56 ارب ڈالر میں گلگت بلتستان کو ایک روپیہ نہیں ملا، انجینئر شبیر حسین
انجینئر شبیر حسین کا تعلق کھرمنگ اسکردو سے ہے۔ وہ متحرک سماجی شخصیت ہونے کیساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ دور طالب علمی سے ہی طلباء کی قیادت کرتے اور طلباء کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرتے تھے۔ جی بی میں عوامی حقوق کیلئے اٹھنے والی تحریکوں میں بنیادی کردار رہا ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ فعال سیاسی شخصیت ہونے کا اعزاز انکو حاصل ہے۔ اسکے علاوہ وہ حالات و واقعات پر تجزیہ و تحلیل کی بھی خوب مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ایک نوجوان سیاسی قیادت اور فعال سماجی شخصیت کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان سے اسلام ٹائمز نے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات میں کیا آپ باقاعدہ حصہ لینے جا رہے ہیں اور کس پلیٹ فارم سے الیکشن لڑینگے، نیز بعض جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ جی بی میں بھی انتخابات پاکستان کے عام انتخابات کیساتھ کرائے جائیں، اس سلسلے میں آپکی کیا رائے ہے۔؟
انجینئر شبیر حسین:
سب سے پہلے اسلام ٹائمز کا شکریہ کہ آپ نے مجھے گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ جہاں تک میرے الیکشن لڑنے کا تعلق  ہے اس حوالے  میں اپنے قریبی رفقاء سے مشاورت کر رہا ہوں اور اس حوالے سے جلد ہی کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس وقت گلگت بلتستان  میں مخلص اور ویژنری قیادت کی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے۔ حالیہ نام نہاد سیاسی قیادت گلی محلے کی سیاست اور اے ڈی پی میں ملنے والے فنڈز کی تقسیم تک محدود ہے۔ ایسے میں میں سمجھتا ہوں کہ عوامی درد رکھنے والوں کو آگے آنا چاہئے تاکہ عوام کے حقوق کا تحفط ممکن بنایا جاسکے۔ کسی پارٹی میں شامل ہونے کے حوالے سے بھی مشاورت جاری ہے، البتہ فیصلہ جو بھی ہوگا وہ عوامی امنگوں کے عین مطابق ہوگا۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک ایسی پارٹی سے الیکشن لڑوں جو سیاسی، سماجی، دینی اور علاقائی معاملات میں میرے موقف کے قریب ترین ہو۔ گلگت بلتستان مین الیکشنز کا وفاق کے ساتھ کرانے کے مطالبے میں کافی وزن ہے۔ دراصل یہ مطالبات اس لیے اب شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ 2009ء کے گورننس آرڈر کے نتیجے میں ملنے والے سیٹ اپ کے بعد وفاقی حکومتیں ہمارے ہاں الیکشنز جیت کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دراصل یہاں کے الیکشنز وفاق کے الیکشن کے دو سال بعد منعقد ہوتے ہیں، تب تک وفاقی حکومت کا بھرکس نکلا ہوا ہوتا ہے اور حکومت اپنی ساکھ بچانے کیلئے یہاں کی عوام کا مینڈیٹ چرا کر من مانے  امیدواروں کو ہر طرح کے حربے استعمال کرکے جتا دیتی ہے۔ وفاق کے ساتھ الیکشنز ہونے کی صورت میں عوامی مینڈیٹ چرانے کا سلسلہ کم ہو سکتا ہے، جس  سے جی بی کی حقیقی قیادت کے سامنے آنے کا امکان بڑھ جائے گا۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، بالخصوص جی بی میں امن کے قیام کا کریڈیٹ کسے جاتا ہے۔؟
انجینئر شبیر حسین:
گلگت بلتستان کی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سابقہ حکومت کی نسبت موجودہ حکومت کی گورننس کچھ حد تک بہتر ہے۔ مگر کارکردگی بینادی طور پر یہ نہیں ہوا کرتی کہ اپ نے اے ڈی پی کا سارا فنڈ خرچ کر ڈالا۔ میں حکومت کی کارکردگی کو عوامی حقوق کے تحفظ کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔  اس حوالے سے اگر  دیکھیں تو ہمیں موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام نظر آ رہی ہے۔ عوامی زمینوں کی  بندر بانٹ، سی پیک میں مناسب حصہ حاصل کرنے میں ناکامی، عوام کو صحت تعلیم جیسے بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہے۔ وزیر پانی و بجلی کے حلقے میں بجلی کی ابتر صورتحال سے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کیسی ہے۔ موجودہ حکومت کو ہم یہاں گلگت بلتستان میں امن قائم کرنے کا کریڈت لیتے بھی دیکھا  ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ جی بی مین امن کے قیام کے کئی عوامل ہیں، جن میں سے ایک سی پیک کا یہاں ہمارے علاقے سے گزرنا سب سے اہم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چائینیز حکومت نے سخت الفاط میں وفاقی حکومت کو جی بی مین امن قائم کرنے کا پیغام دیا ہے۔ دوسرے عوامل میں 2013ء سے اب تک مختلف عوامی ایشوز پر پورے جی بی کے عوام کا اکھٹا ہونا اور اس کے نتیجے میں مخلتف مسالک کے عوام کا قریب آنا بھی ہے۔ اس حوالے سے  علماء کرام خصوصاََ آغا علی رضوی اور سلطان رئیس جیسی قیادت کا بھی کافی کردار نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت اور مختلف اداروں کا دعویٰ ہے کہ جی بی کو سی پیک میں بھرپور حصہ ملا ہے، بالخصوص ڈپٹی سپیکر جعفراللہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سی پیک کیوجہ سے جی بی کی تقدیر بدل رہی ہے، واقعی آپکو خطے کی تقدیر بدلتی نظر آرہی ہے۔؟
انجینئر شبیر حسین:
گلگت بلتستان حکومت کا سی پیک کے حوالے سے دعوے جھوٹ کا پلندہ ہے۔  سی پیک کیلیے مختص رقم 56 ارب ڈالر میں جی بی کو ایک روپیہ نہیں ملا۔ یہ میں نہیں حکومت پاکستان کا اپنا اعداد و شمار بتا رہا ہے۔ سی پیک کے گیٹ وے کی حیثیت سے گلگت بلتستان کو بہت کچھ ملنا چاہیے تھا، مگر وفاقی حکومت نہ صرف یہ کہ کچھ نہ دینے کی پالیسی پر قائم ہے بلکہ جو کچھ ہے وہ بھی چھیننے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سوسٹ ڈرائی پورٹ کا ہزارہ منتقل ہو جانے  سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ اب ہزارہ میں چائینیز کنٹینر کا کسٹم کلئیر ہوگا، جس سے گلگت بلتستان میں چائینیز مال کی قیمت بھی بڑھ  جائے گی۔ اس لیے کہ اب چائینہ سے ہزارہ تک جانے اور پھر واپس جی بی جانے کا کرایہ بھی اضافی پڑھ جائے گا۔  دوسری طرف سی پیک سے گزرنے والی ہزاروں کنٹینرز کی وجہ سے بھی  گلگت بلتستان کا بہترین ماحول آلودہ ہوجائے گا، ساتھ میں ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے اثرات کی وجہ سے گلشئیرز پگلنا شروع ہو جائیں گے جس سے خطے کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت جی بی کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے سی پیک میں ہمیں تیسرا فریق تسلیم کرے اور باقاعدہ سی پیک کی تمام تر آمدنی سے ہمیں پورا پورا حق حاصل کرنے کیلئے کردار ادا کرے۔ ابتدائی طور پر سی پیک کی رقم 44 ارب مختص کی گئی تھی جسے وزیراعلٰی پرویز خٹک کے احتجاج پر کہ ان کے صوبے کو مناسب حصہ نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں بڑھا کر 56 ارب تک پہنچا دیا گیا، مگر ایک روپیہ حصہ تک نہ دئیے جانے کے باوجود ہماری حکومت نے اپنا حق لینے کی کسی طرح کی بھی کوشش نہیں کی۔ جس سے ان کے تمام دعووں کی نفی ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف آپ لوگ حب الوطنی کے دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف ریاست کو زمین کی ضرورت پڑتی ہے اور صدیوں سے لاگو قانون خالصہ سرکار کیمطابق قبضہ کیا جاتا ہے تو آپ لوگ شور مچاتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔؟
انجینئر شبیر حسین:
گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ اس کی پاکستان سے محبت کا انتہائی ناجائز فائد اٹھایا گیا ہے۔ ہماری عوام اگر پاکستان سے محبت کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت خالصہ سرکار کے نام پر ہم سے ہماری زمینیں چھیں لیں اور ہمیں بے گھر کرنے پر تل جائیں۔ جی بی کی عوام نے پاکستان کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ 70 سال تک کسی اور قوم کو اس طرح حقوق سے محروم رکھا جاتا تو اب تک کم از کم آزادی کی آواز اٹھ ہی چکی ہوتی، مگر گلگت بلتستان کی پرعزم اور وفادار ملت نے آج تک شکایت تک زبان پر نہیں لائی۔ لیکن اب اس صابر و شاکر اور بہادر قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب خالصہ سرکار کے نام پر زمینوں پر قبضے، حقوق کے بغیر ٹیکس کے نام پر جیبیں کاٹنے، سی پیک میں ہمارے حصے غصب کرنے  جیسے اقدامات سے یہاں کی عوام اور نوجوانوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں جس طرح جی بی کے نوجوانوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار ہوا ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب مزید اس قوم کا استحصال جاری نہیں رکھ پائے گی۔

اسلام ٹائمز: کھرمنگ ڈسٹرک کا مسئلہ ابھی ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا، آپ اسکا حتمی حل کیا سمجھتے ہیں اور کیا اس معاملے کے پیچھے کوئی بدخواہ طاقتیں کارفرما ہیں یا کچھ اور ہے۔؟
انجینئر شبیر حسین:
کھرمنگ ڈسٹرکٹ کا معاملہ بہت گھمبیر ہوگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کے معاملے کو جان بوجھ کر خراب کر دیا گیا ہے، جس کی ذمہ دار حکومت خود ہے۔ کھرمنگ سے رکن اسمبلی اور وزیر پلاننگ اقبال حسن کی طرف سے کھرمنگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کیلئے مختص گہوری تھنگ کو خالصہ سرکار قرار دینا اور حکومت کی طرف سے اس عوام اراضی کو مفت ہتھیانے کی کوششوں نے ڈسٹرکٹ کھرمنگ کے معاملے کو مسئلہ کشمیر بنا دیا ہے۔ کھرمنگ عوام کی سو فیصد آبادی گہوری تھنگ پر متفق ہے مگر حکومت کی بندنیتی کی وجہ سے اب تک  ہیڈکوارٹر کا قیام ممکن نہیں ہو سکا۔ یہی رہا تو مجھے کھرمنگ ڈسٹرکٹ کا مستقبل تاریک نطر آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض افراد کا کہنا ہے کہ حفیظ الرحمان بلتستان سے خصوصی عداوت رکھتے ہیں، اس میں کس حد تک صداقت آپکو نظر آتی ہے، ثبوت کیساتھ بیان کیجئے۔؟
انجینئر شبیر حسین:
حفیظ الرحمٰن کی بلتستان سے عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ انہوں نے خود کئی بار اپنی زبان سے کھل کر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں بلتستان کی کتنی عداوت ہے۔ بلتستان اور استور کا متنازعہ قرار دیکر الگ کرنے اور سی پیک کو قانونی راستہ فراہم کرنے والا بیان ہو یا  ٹیکس مخالف تحریک کو بلتستان کے اکثریتی فرقے کی حکومت مخالف تحریک قرار دینا ہو  انہوں نے کھل کر بلتستان دشمنی کا اظہار کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈی ایچ کیو اسکردو کو پنجاب حکومت اس شرط پر فنڈنگ کیلئے تیار تھی یہ ہسپتال کی فنڈنگ ریکویسٹ حکومت گلگت کی طرف سے آئے، مگر حفیط الرحمٰن نے پنجاب حکومت سے فنڈنگ ریکویسٹ سے مکمل طور پر انکار کر دیا، جس کی وجہ سے ہسپتال کی فنڈنگ ممکن نہیں ہو سکی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حفیظ الرحمٰن نے کھل کر بلتستان دشمنی کا اظہار کئی مواقع پر کیا ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 713095
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ghulam murtaza
South Africa
Engineer Shabbir is great leader I like him because he always be aware the problems raising in our society we should support him because we need educate person for our society
قاسم رضوی
United States
شبیر بھاٸی دردمند مفکر ہیں، اگر غیر متنازع ہو کر قوم کی خدمت کے لئے میدان میں آئے تو انقلاب لاسکتے ہیں۔
ہماری پیشکش