0
Monday 9 Jul 2018 18:08
آج کیطرح پچھلی مرتبہ بھی مرکز اپنی غیرجانبداری کا فیصلہ کرتا تو مرکز کی قدر میں مزید اضافہ ہوجاتا

منتخب ہوکر قوم کے ہر فرد کی بلا تفریق اور بے لوث خدمت کرونگا، اقبال سید میاں

ہم نے مرکز کی مخالفت نہیں،بلکہ مرکز میں موجود بعض مفاد پرستوں کے مشورے پر ہماری مخالفت کی گئی
منتخب ہوکر قوم کے ہر فرد کی بلا تفریق اور بے لوث خدمت کرونگا، اقبال سید میاں
اقبال سید میاں کرم ایجنسی کے معروف میاں خاندان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں۔ 11 اپریل 1981ء کو پاراچنار کے نواحی علاقے غربینہ میں پیدا ہوئے۔ بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم بی اے کیا ہوا ہے، نہایت ملنسار اور منکسر المزاج شخصیت کے مالک ہیں۔ 2013ء میں الیکشن لڑا اور تقریباً 24 ہزار ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ کرم ایجنسی کے حلقہ این اے 46 سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کی کوشش ہے کہ کرم کے ہر امیدوار کیساتھ انٹرویو کرکے اسکا موقف جانے، اسی سلسلے میں میاں صاحب کیساتھ ملاقات کرکے انتخابات کے حوالے سے ایک دلچسپ انٹرویو کیا گیا، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: میاں صاحب! آپ اس سے پہلے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں، بار بار الیکشن لڑنا لوگوں کی نظر میں کچھ معیوب سا سمجھا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ سنا ہے کہ الیکشن میں آپکے میاں خاندان کی اپنی اپنی باری ہوا کرتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ کہنا پسند کرینگے۔؟ 
اقبال سید میاں:
اس دفعہ میرا الیکشن کا ارادہ نہیں تھا۔ اپنے خاندان کے اہم افراد کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، انہیں خود الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا اور اپنے تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی، تاہم انہوں نے معذرت کر لی اور مجھے الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا۔ باقی بار بار الیکشن لڑنے کے حوالے سے آپکی بات سے میں متفق نہیں ہوں۔ قوم کی خدمت کے جذبے سے ہر شخص کو الیکشن لڑنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے میاں خاندان سے دوسری نامور شخصیات بھی اس انتخابات میں کھڑی ہوئی ہیں، جس سے آپکے ووٹرز تقسیم ہوئے ہیں، اسکے حل کیلئے آپکے پاس کوئی لائحہ عمل موجود ہے۔؟
اقبال سید میاں:
آپکو پتہ ہے، یہ میرا دوسرا الیکشن ہے جو میں لڑ رہا ہوں، الیکشن لڑنا کوئی آسان کام نہیں، دوست و احباب اور اپنے خاندان کی حمایت کے بغیر الیکشن لڑنا پاگل پن ہوگا۔ میں کوئی سرمایہ دار نہیں ہوں، انتخابات میں کافی زیادہ خرچہ ہوتا ہے، چنانچہ میں اپنے خاندان کی مشاورت اور مالی معاونت کے سہارے ہی کھڑا ہوں۔ شاید آپکے علم میں ہو کہ اس بار انتخابی میدان میں آنے میں، میں نے تاخیر کی۔ پتہ ہے، کیوں؟ وجہ یہ تھی کہ الیکشن لڑنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، جس طرح پہلے کہہ دیا کہ میں نے اپنے دوسرے چچازاد بھائیوں کے لئے میدان خالی چھوڑا تھا۔ لیکن خاندان کے اصرار پر میں ایک بار پھر میدان میں آگیا۔ باقی ہمارے خاندان سے اب بھی ایک امیدوار میدان میں ہیں۔ تاہم انکے ساتھ میرے ذاتی بھی مراسم ہیں۔ اب بھی میں ان کے پاس سے ہی آرہا ہوں۔ انکے ساتھ میرے مشورے ہوتے رہے ہیں۔ ہم دونوں باہم مشورہ کرکے ایک ہونے کی کوشش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: لوگ یہ کہتے ہیں، کہ امیدوار صرف انتخابات کے ایام میں نظر آتے ہیں، جبکہ انتخابات سے پہلے اور بعد، حلقے کے لوگوں سے کٹے اور انکے مسائل سے لاتعلق بلکہ بے خبر رہتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے۔؟
اقبال سید میاں
:
آپکی بات ایک حد تک صحیح ہے۔ دراصل الیکشن کو لوگوں نے ایک طرح سے کاروبار بنا لیا ہے، الیکشن میں خاصی رقم لگا کر ووٹ خریدتے ہوئے لوگوں کی امیدوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ مگر ہماری سوچ کچھ اور طرح کی ہے۔ ان شاء اللہ اس سوچ کو ہم بدلیں گے۔ ہماری سیاست عملی ہوگی۔ جیت کر بھی ہر مصیبت میں قوم کے ساتھ رہا کرونگا۔ ہار کر بھی قوم کے اندر اور قوم کے ساتھ رہ کر ہر طرح سے خدمت کرتا رہوں گا۔

اسلام ٹائمز: الیکشن لڑنے سے پہلے اکثر امیدوار حضرات اپنی ماضی کی خدمات پیش کرکے لوگوں کو کنوینس کرتے ہیں، جنہیں دیکھ کر ہی عوام کنوینس ہو جاتے ہیں، ماضی میں آپکی ایسی کیا خدمات ہیں۔؟ 
اقبال سید میاں
:
اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص کا حکومت میں آنے کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ حکومتی وسائل ہاتھ میں آئیں اور انہی وسائل سے قوم کی خدمت کرے، جبکہ میں اس سے پہلے کسی سیاسی عہدے پر کبھی رہ چکا ہوں، نہ ہی کسی سرکاری پوسٹ پر۔ تاہم میرے پاس جب بھی کوئی ضرورت مند آیا ہے، میں نے حسب استطاعت اسکے ساتھ تعاون کیا ہے۔ میرے پاس اکثر اساتذہ اور طلباء ہی آتے ہیں، چونکہ بیت المال میں میرے اچھے تعلقات ہیں، چنانچہ طلباء کے لئے اس اداراے سے سکالرشپ کروائے ہیں۔ اسکے علاوہ اڑھائی سو یتیم بچوں کو سکالرشپ پر اسلام آباد کے بہترین اور اعلیٰ اداروں میں داخلے دلوائے ہیں۔ کافی غریب اور بیمار لوگوں کے مفت علاج کروائے ہیں۔ یہ کام میں نے کوئی عہدہ رکھے بغیر اپنے ہی وسائل اور تعلقات سے کئے ہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ گذشتہ انتخابات کی نسبت اس سال کچھ زیادہ لوگ میرے ساتھ ہیں، جبکہ منتخب ہوکر عوام کی انکے توقع سے بڑھکر خدمت کرونگا۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ ضلع کرم کے اتحاد کو سیاست کے ذریعے آپ، سید ارشاد حسین اور سابق ایم این اے ساجد طوری نے خراب کیا ہے۔ اس حوالے سے آپکی کیا رائے ہے۔؟
اقبال سید میاں:
بیشک کچھ لوگ کہتے ہونگے، تاہم اکثر عوام کو تمام تر سازشوں اور سازشیوں کا علم ہوچکا ہے۔ میری پرانی ویڈیو اب بھی موجود ہیں، اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میں نے اتحاد کیلئے کتنا کام کیا۔ میں نے ہمیشہ عوام کو یہ تلقین کی ہے کہ قوم کے اتحاد کا خاص خیال رکھیں، نفرت پھیلانے سے ہم دور ہیں، سید قیصر اور سید ارشاد جو میرے رشتے دار ہیں، ان کو میں جانتا ہوں، انہوں نے بھی کبھی بھی نفرت نہیں پھیلائی ہے۔ وہ انتہائی نیک اور صالح لوگ ہیں۔ جنہوں نے نفرت پھیلائی ہے اور جنہوں نے قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے، سب انہیں جانتے ہیں۔ اسی گندی سیاست اور فرقہ و خیل کی بنیاد پر ووٹ بٹور کر منتخب ہوئے، اس بار عوام بیدار ہوچکے ہیں، گندی سیاست ناکام ہوچکی ہے۔ اس بار دیکھا جائیگا کہ وہ کتنے ووٹ لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ خبر سوشل میڈیا پر ہے کہ قلعہ بالا حصار میں جو فیصلہ ہوا ہے، اس پر آپکے بھی دستخط ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے۔؟
اقبال سید میاں:
دیکھیں، اس وقت کرم کے حالات دگرگوں تھے، جس پر حکومت نے ایک فیصلہ کیا، یہ حکومتی فیصلہ تھا، فیصلہ ہم نے نہیں کیا بلکہ وہ فیصلہ پہلے سے ہوچکا تھا۔ وہاں پر ہمیں بلا کر سنایا گیا،  یہ سب کو پتہ ہے کہ وہاں کس نے ردعمل دکھایا۔ الیکشن میں ہماری بھرپور مخالفت کے باوجود ہم نے قوم کا شیرازہ برقرار رکھنے کی خاطر تہذیب اور اخلاق کی لائن کراس نہیں کی، جبکہ جن لوگوں پر آغا صاحب نے قربانی دی تھی۔ انہوں نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا۔

اسلام ٹائمز: مرکز یعنی انجمن حسینیہ وغیرہ کیساتھ آپکے اختلافات کیوجہ کیا تھی۔؟َ
اقبال سید میاں:
دیکھیں مرکز کسی ایک قبیلے یا بندے کا نہیں، اس زمانے میں بعض ایسے لوگ مرکز میں جمع ہوگئے تھے، جنہوں نے آغا صاحب کو غلط مشورہ دے کر ہمارے خلاف اکسایا، ہم نے مرکز کی مخالفت نہیں کی۔ مرکز کو استعمال کرکے ہماری مخالفت کی گئی، ہم امیدواروں کے درمیان سیاسی اختلاف تھا، دو مدمقابل امیدواروں کے مابین سیاسی اختلاف کا پایا جانا فطری بات ہے، تاہم اس وقت کی مرکزی انجمن بالخصوص علماء کی جانب سے کھل کر ہماری مخالفت کی گئی، جبکہ مرکز کی جانب سے کسی ایک امیدوار کے لئے مہم چلانا اور دوسرے کی مخالفت کرنا اخلاقی لحاظ سے بھی مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ اختلاف ہماری جانب سے نہیں بلکہ انکی طرف سے کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کیلئے آپکا منشور کیا ہے۔؟
اقبال سید میاں:
اس علاقے کی تین چیزوں پر میری توجہ ہے، ایک ہے بنجر زمین کیلئے پانی کا بندوبست کرنا، جتنے بھی صحراء یعنی بنجر زمینیں ہیں، ان کیلئے چھوٹے ڈیم بنانا اور دریائے کرم سے پانی ان صحراوں کو نکالنا اور سائنسی طریقے سے ٹیوب ویلز لگانا میرے منشور میں شامل ہیں، جن سے صحراوں میں باغات لگا کر آباد کرانا ہے۔ سوات کی آب و ہوا سے پاراچنار کی آب و ہوا بہت بہتر ہے۔ میرا ایک دوست ہے جسکا تعلق سوات سے ہے، 20 جریب اراضی پر ٹیوب ویل لگا کر آباد کرکے آڑو کا باغ لگایا ہے۔ جس سے وہ سالانہ 50 سے 60 لاکھ روپے کماتا ہے تو اسی طرح پاراچنار میں بھی حکومتی سطح پر اور این جی اوز کے تعاون سے جدید سائنسی طریقوں سے ٹیوب ویلز لگاکر صحراوں اور بنجر زمینوں کو پانی مہیا کرکے آباد کرائیں گے۔ جس سے پاراچنار کے 80 فیصد غریب لوگوں زندگی سنور جائے گی۔ دوسری چیز جو ہے، جس میں میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ہمارے چاروں طرف قدرتی خزانوں اور معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں، جس کیلئے حکومتی پالیسی کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف پاراچنار کے عوام کو فائدہ ہوگا بلکہ حکومت کیلئے بھی اربوں کا فائدہ ہوگا۔ چنانچہ اس پر بھی کام کرنا میرے منشور کا حصہ ہیں۔ 

تیسری چیز یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سیاحت کا شوقین ہیں، اسلئے وہ پاکستان کے بہت سے علاقوں کو سیاحت کے لحاظ ترقی دلانا چاہتے ہیں، پاراچنار بھی اس لحاظ سے کم نہیں ہے۔ یہاں حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے، جبکہ مری اور سوات جہاں سیاحت کے ذریعے اربوں روپے کا کاروبار اور دیگر آمدنی ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر پاراچنار کے خوبصورت علاقوں میں حکومت کیطرف سے اچھے ہوٹل بنائے جائیں، تو یہ بھی مری اور سوات سے کم نہیں۔ اسکے علاوہ ایک اور اہم چیز ایجوکیشن ہے۔ یہاں اگر کوئی اور یونیورسٹی وغیرہ بنانے کا ارادہ کرے تو یہ ناممکن ہے، البتہ امید ہے کہ اس بار بھی خیبر پی کے بلکہ مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت آئے گی۔ عمران خان قبائل سے محبت رکھتے ہیں، جس کا اندازہ پاراچنار کے مشکل ترین وقت میں دھرنے میں آنے سے لگایا جاتا ہے۔

اگر میں ایم این اے بن گیا تو عمران خان کو ہر سال پاراچنار لائیں گے۔ جسکی وجہ سے پاراچنار میں یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کا قیام ممکن ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ ضلع کرم کیلئے ایک ٹھوس تعلیمی منصوبہ بھی میرے پاس موجود ہے۔ میرے پاس ماہرین تعلیم، دانشور اور ڈاکٹرز کی ایک ٹیم موجود ہیں، چنانچہ تعلیمی ریفارم منصوبہ میرے ذہن میں ہے، اگر میں منتخب ہوگیا تو اس منصوبے کا آغاز پاراچنار سے کرکے پھر اسے پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ ہمارے ہاں سکولوں میں تعلیم اور کتاب سے محبت کا ماحول نہیں، اس منصوبے میں ہم اپنے علاقے کے سکولوں میں تعلیم اور کتاب سے محبت کا ماحول بنائیں گے۔ اس میں ٹیچرز ٹریننگ کا بندوبست کرنا ہے۔ سکول بلڈنگز میں صفائی کا انتظام کرنا ہے۔ اسکے علاوہ میں اپنے پانچ سالوں میں پاراچنار کے عوام کو میڈیکل کالج کا تحفہ دونگا۔ پاراچنار کے اتنے سپشلسٹ ڈاکٹرز ہیں، جو یہاں آکر ایک تو اس کالج کو سنبھالیں گے۔ باقی یہاں سپیشلسٹ کی موجودگی کیوجہ سے صحت کے بہت سے مسائل سلجھ جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: قومی مسائل کیلئے آپکی پالیسی کیا ہوگی۔؟
اقبال سید میاں:
ہماری پارٹی کا نام ہے تحریک انصاف، ہم قومی مسائل کو انصاف پر مبنی فیصلوں کی بنیاد پر حل کرائیں گے، کیونکہ قومی مسائل سے علاقے کا امن خراب ہوسکتا ہے اور اس علاقے کے امن کیلئے ہر وقت کوشش کرتا رہوں گا۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کے وقت اکثر نفرتیں پھیلتی ہیں، اس الیکشن میں اپنی پالیسی اور پیغام بیان کریں۔؟
اقبال سید میاں:
ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم شخصیت کی بات نہیں کرتے، ہم کسی مخصوص گروہ کی بات نہیں کرتے بلکہ ہم منشور کی بات کرتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں، کہ ہمارے منشور کو دیکھ کر اور ہمارے منصوبے کو دیکھ کر ووٹ دیں، لیکن بدقسمتی سے یہاں نامناسب نعروں کی بنیاد پر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے منشور میں یہ نہیں کہ ہم ووٹ کے ذریعے نفرتیں پھیلائیں، بلکہ ہر اس شخص کیلئے جو اس علاقے کی سالمیت کیلئے سوچتا ہے، میرے دروازے ہر وقت اسکے لئے کھلے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 735482
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش