0
Saturday 28 Jul 2018 21:25
خالی دھمکیاں ہیں، امریکہ میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ایران پر حملہ کرسکے

عمران خان کی نظریاتی آئیڈیالوجی ایران ہے، مولانا افضل حیدری

امریکہ کیساتھ اب تعلقات برابری کی سطح پر ہونگے، ڈالروں کی دلالی کا وقت بیت گیا
عمران خان کی نظریاتی آئیڈیالوجی ایران ہے، مولانا افضل حیدری
مولانا افضل حیدری کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پنجاب (علماء ونگ) کے صدر ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور سے فارغ التحصیل ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد لاہور کے ایک نجی کالج میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ 2002ء سے پاکستان تحریک انصاف کیساتھ وابستہ ہیں۔ مذہبی و لسانی منافرت کیخلاف ہیں، تکفیری سوچ کی ہمیشہ مذمت کرتے ہیں۔ مذہبی رواداری کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ وحدت اسلامی کیلئے سرگرم ہیں۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء سے رابطے میں اور اتحاد کیلئے زمینہ سازی میں مصروف ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘نے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپکو ’’نئے پاکستان‘‘ کی مبارکباد پیش کرتے ہیں، حالیہ الیکشن میں کچھ کالعدم جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوئے، کیا نئے پاکستان میں بھی ایسے دہشتگردوں کی گنجائش ہوگی۔؟
مولانا افضل حیدری:
خیر مبارک، جزاک اللہ، آپ کا بہت شکریہ آپ تشریف لائے، پاکستان میں جہاں تک کالعدم جماعتوں کی بات ہے تو اس حوالے سے گزارش ہے کہ یہ پرانے پاکستان میں تھیں، نئے پاکستان میں کالعدم جماعتوں، دہشتگردوں، فرقہ پرستوں اور جرائم پیشہ عناصر کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہاں جو اپنے ماضی کے جرائم سے تائب ہو کر اپنے اوپر لگے الزامات سے بری ہو کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کا احترام کریں گے۔ اگر وہ جیو اور جینے دو اور اپنا مسلک چھوڑو نہیں، دوسرے کا چھیڑو نہیں‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو انہیں نئے پاکستان میں جگہ مل سکتی ہے بصورت دیگر نہیں۔ اب پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے، پوری دنیا ادراک کرچکی ہے کہ پی ٹی آئی نے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کی ہے، اب کالعدم جماعتیں بھی ادراک کرلیں کہ نئے پاکستان میں کسی کی جان سے وہ نہیں کھیل سکیں گی۔

کسی کے مذہب اور عقیدہ کیساتھ کھلواڑ نہیں کرسکیں گی، کسی کیخلاف فتوے بازی نہیں کرسکیں گی، کسی کو کافر کافر  کہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسلام میں مقدس ہستیوں کو جو احترام ہے وہ مشترکات میں سے ہے، مقدس ہستیوں نے بھی ایک دوسرے کو برداشت کیا، تو ہم جو ان کے پیروکار ہیں، ہم کیوں نہیں ایک دوسرے کو برداشت کرتے، ماضی میں اس منافرت کے پیچھے حکومتوں کا ہاتھ ہوتا تھا، لیکن نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوگی، قانون کی اطاعت ہوگی تو انسانیت کا احترام ہوگا، ملک قانون پر عمل سے ہی ترقی کرتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پہلے دو طرح کے قانون تھے، امیر کیلئے اور قانون، غریب کیلئے اور، کوئی غریب چوری کرتا تو اسے اور اس کے پورے خاندان کو جیل میں ڈال دیا جاتا، امیر چوری کرتا تو پولیس خاموشی اختیار کر لیتی، حتیٰ عدالتیں بھی آنکھیں موند لیتیں اور وہ عدالتوں سے بھی باعزت بری ہو جاتے، مگر نیا پاکستان قانون کی حکمرانی پر قائم ہوگا۔ یہاں اب کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی، ہم ملک میں ریاست مدینہ کا قانون نافذ کریں گے۔ جہاں اقلتیں بھی محفوظ ہوں گی اور اکثریت بھی۔ کوئی امیر جرم کرے گا تو وہ بھی پکڑا جائے گا، غریب کرے گا تو وہ بھی گرفت میں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، نئے پاکستان میں انکا مستقبل کیا ہوگا۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
ان کا مستقبل ان کی کارکردگی سے وابستہ ہے، یہ حلف اٹھانے کی بجائے اب اپنے ضمیر کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ یہ قزاقوں کے سربراہ تھے۔ جنہوں نے جمہوریت کے نام پر ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا، یہ اپنا حصہ وصول کرکے خاموش تھے۔ اب آپ مولانا فضل الرحمان کی ہی مثال لے لیں، جنہوں نے مسلم لیگ (ن) سے بھاری پیسے لیکر سوات میں انکی حمایت کی اور لاہور میں بھی ان کی جماعت نے مسلم لیگ (ن) کو ہی سپورٹ کیا ہے۔ تو ایسے دوہرے معیار کے حامل نام نہاد علماء اب اس الیکشن میں بے نقاب ہوگئے ہیں۔ یہ بہروپیے تھے، جو کرپٹ حکمرانوں کے دست و بازو بنے ہوئے تھے، اب ان کے چہروں سے عمران خان نے نقاب الٹ دی ہے۔ عوام اب باشعور ہوچکے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ عوام نے اپنے نمائندوں کے گریبان پکڑے ہیں کہ وہ 5 سال کہاں رہے، جو اب ووٹ مانگنے آگئے ہیں۔ عوام کو یہ حوصلہ تحریک انصاف نے دیا اور اسی حوصلے کی بدولت ہی یہ مذہبی رہنما بے نقاب ہوئے۔ ہاں نئے پاکستان میں انہوں نے اگر سیاست کرنی ہے تو انہیں دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا، عوام کی خدمت کرنا ہوگی۔ ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی۔ ذاتیات کی سیاست کرنیوالوں کا وجود نئے پاکستان میں نہیں رہے گا۔ حالیہ انتخابات کے نتائج ان کیلئے سبق ہیں۔ یہ اس سے سیکھیں اور اپنی زندگی کے مقصد کو تبدیل کریں۔ انہوں نے اب مخلصانہ سیاست نہ کی تو عوام کالعدم جماعتوں کی طرح انہیں بھی مسترد کر دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی، بالخصوص ایران اور سعودی عرب کیساتھ تعلقات کیسے ہونگے۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں ہی ان دونوں اہم ترین ممالک کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کر دیا تھا۔ جس میں ان دونوں ممالک کے احترام کا اشارہ موجود تھا۔ یہ ہمارے پڑوسی ہیں، مسلمان ہونے کے ناطے دونوں ہمارے بھائی ہیں۔ ان کی اہمیت سے کوئی بھی حکومت قطع نظر نہیں کرسکتی۔ ایران ایک منظم اور بھرپور مذہبی طاقت ہے اور کفار کے سامنے بڑی جرات سے ڈٹا ہوا ہے۔ سعودی عرب میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ہیں، جن کے باعث سعودی عرب کا بھی احترام پاکستانی عوام کرتے ہیں۔ ان کیساتھ بھی بہترین تعلقات قائم کریں گے۔ آپ نے جیسے کہ دیکھا کہ سعودی سفیر نے عمران خان سے ملاقات کی ہے اور شاہ کا پیغام پہنچایا ہے۔ سعودی عرب نے عمران خان حکومت کیساتھ اچھے تعلقات کا عندیہ دیا ہے، جو حوصلہ افزاء ہے۔ ہمیں امید ہے کہ عمران خان عرب ممالک کیلئے اہم کردار ادا کریں گے۔ ایران کو عمران خان نے ہمیشہ مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہم دونوں ممالک کیساتھ باہمی تعلقات کو فروغ دیں گے۔ عمران خان کی نظریاتی آئیڈیالوجی ایران ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ و ایران کے درمیان دھمکیوں کا تبادلہ جاری ہے، اگر خدانخواستہ جنگ ہوتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایران نے ہمیشہ جرات مندانہ موقف اختیار کیا ہے اور ہمیں امید ہے امریکہ ایران کیساتھ جنگ کی حماقت نہیں کرے گا۔ ہاں اگر ٹرمپ ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان ایران کیساتھ کھڑا ہوگا، کیونکہ ایران نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے، اس کے برعکس امریکہ نے ہر بار ہمیں دھوکہ دیا۔ ایران کیساتھ ہمارے ثقافتی، مذہبی اور سیاسی تعلقات ہیں جبکہ امریکہ نے ہمیشہ ہمیں استعمال کیا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں چلے گا، بلکہ امریکہ کیساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر ہوں گے۔ اب ایڈ نہیں ٹریڈ ہوگی اور پاکستان اپنے وقار کیساتھ امریکہ سے بات کرے گا۔ اب ڈالروں کی دلالی کے دن گزر چکے، اب امریکیوں کو واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان میں اب ان کے غلاموں کی حکومت نہیں بلکہ ایک آزاد اور خود مختار منتخب حکومت ہے، جو عوام کے مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی ہے۔ اب ڈو مور کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر روزِ اول سے ہی پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا باعث رہا ہے، اس حوالے سے عمران خان کی پالیسی کیا ہوگی۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
عمران خان نے واضح کہا ہے کہ ہم بھارت کیساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، وہ بہتری کی جانب ایک قدم چلیں گے تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ برصغیر کے امن کیلئے پاک بھارت تعلقات میں بہتری بہت ضروری ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ فوج یا بندوق کے زور پر حل نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی مسئلہ کا بہترین اور موثر حل مذاکرات کی میز ہے۔ اس لئے ہم کشمیر کے مسئلہ کو مذاکرات کی میز پر حل کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔ کشمیریوں کو ان کا حق مل گیا تو خطے میں امن قائم ہو جائے گا، بھارت کشمیر میں بھاری سرمایہ لگا رہا ہے، اگر وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرتا ہے تو اس کی کشمیر میں خرچ ہونیوالی بھاری رقم انڈیا میں غربت کے خاتمے پر خرچ ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن کیا عمران خان انڈیا کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائینگے، جبکہ بھارت نے ہر موقع پر پاکستان کو دھوکہ دیا ہے۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
اصل میں پاکستان میں بھی اور بھارت میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان امن چاہتے ہیں۔ ایک مخصوص لابی ہے، دونوں ممالک میں، پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے سے انڈیا میں موجود امن پسندوں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔ بہت سے انڈینز نے بھی عمران خان کے اقتدار میں آنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ وہ لوگ بھی جانتے ہیں، عمران خان کے آنے سے دونون ممالک کے درمیان امن کی فضا بہتر ہوگی۔ اس لئے بھارتی اب دھوکہ نہیں کریں گے، کیونکہ انڈیا کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، انڈیا کے عوام بھی امن کے طلب گار ہیں، وہ اپنی حکومت کو مجبور کریں گے کہ وہ پاکستان سے مثبت مذاکرات کرے اور کشمیر سمیت تمام ایشوز حل کرے اور ان شاء اللہ عمران خان ہی مسئلہ کشمیر کو حل کریں گے، کیونکہ اب کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نہیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: پنجاب اہم صوبہ ہے، مسلم لیگ (ن) دعویٰ کر رہی ہے کہ وزیراعلیٰ وہ بنائیگی جبکہ پی ٹی آئی اپنی حکومت بنانیکا دعویٰ کرتی ہے، کس کو وزیراعلیٰ بنایا جا رہا ہے۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
پنجاب میں اکثریت ہماری ہے، ہم ہی حکومت بنائیں گے۔ اسے چوروں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ وزارت اعلیٰ کا فیصلہ آئندہ 24 گھنٹوں میں ہو جائے گا۔ اس وقت بنی گالا میں عمران خان کی زیرصدارت اجلاس جاری ہے، جس میں وزیراعلیٰ کیلئے ناموں پر غور ہو رہا ہے، جلد ہی فیصلہ کرکے اعلان کر دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے کن کن شخصیات کے نام زیر غور ہیں۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
اس حوالے سے 5 نام سامنے آئے ہیں۔ عبدالعلیم خان، میاں محمودالرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت مزید 2 رہنماؤں کے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔ قوی امکان ہے کہ عبدالعلیم خان یا ڈاکٹر یاسمین راشد کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے، تاہم یہ حتمی رائے نہیں، میرا اندازہ ہے۔ کسی اور کو بھی وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان حتمی فیصلہ کریں گے، جو سب کیلئے قابل قبول ہوگا اور اس حوالے سے باضابطہ اعلان بھی وہی کریں گے۔ جس کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت ہوگی، جہاں تک نون لیگ والوں کی بات ہے تو وہ خواب دیکھ رہے ہیں، دیکھتے رہ جائیں گے۔ اب چوروں لیٹروں کو اقتدار نہیں ملے گا بلکہ عوام کے متنخب کردہ ارکان ہی اقتدار سنبھالیں گے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں پاکستان مذہبی منافرت کا شکار رہا ہے، کیا تحریک انصاف رواداری کے فروغ کیلئے کوئی پالیسی رکھتی ہے۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
پاکستان تحریک انصاف نے باقاعدہ ایک مذہبی ونگ تشکیل دیا ہے، جو علماء کی سرپرستی میں ہے اور اس میں شامل بھی علماء ہی ہیں۔ پنجاب میں اس ونگ کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر ہے۔ الحمداللہ، ہم نے اس پر کافی کام کیا ہے، تکفیریوں کو چھوڑ کر معتدل علماء کو ہم نے اپنے ساتھ ملایا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء ہمارے ساتھ ہیں اور ہم مذہبی رواداری کیلئے فروغ کیلئے مصروف عمل ہیں۔ 80ء اور 90ء کی دہائی والے علماء اب نہیں رہے۔ علماء بھی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ملک کی ترقی امن سے ہے۔ امن ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔ جب ملک میں قانون مضبوط ہو تو ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے۔ ملک میں پائی جانیوالی منافرت کی جڑ لاقانونیت ہے۔ ان شاء اللہ قانون کی حکمرانی سے معاشرے میں رواداری کو فروغ ملے گا۔ معاشرے سے مساوات آئے گی۔ مذہبی منافرت کو دیس نکالا دے دیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: ماضی کی حکومتوں پر الزام ہے کہ وہ دہشتگردوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں، جبکہ پنجاب کے ایک وزیر تو باقاعدہ ’’وزیر دہشتگردی‘‘ کہلاتے تھے۔، اب کوئی وزیر ایسا نکل آیا کو عمران خان کیا کرینگے۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
بلاشبہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کا طرز حکومت ایسا ہی رہا ہے، وہ اسی طرح کی سیاست کرتے تھے، لڑاؤ اور تقسیم کرو ان کی پالیسی تھی۔ وہ منافرت بالخصوص مذہبی منافرت پھیلا کر اپنے اقتدار کو طول دیتے تھے۔ کوئی مذہبی جماعت مضبوط ہوتی تو چور دروازے سے اس کیساتھ تعلقات بنا لیتے تھے اور خفیہ ہمدردیاں حاصل کرتے تھے۔ پھر انہیں تھانوں اور کچہریوں سے ریلیف دلاتے تھے، ماضی کے حکمران کسی بھی طریقے سے اقتدار چاہتے تھے، اس لئے مذہبی قائدین بھی استعمال ہوتے رہے، جبکہ نئے پاکستان میں اس عمل کو معاشرتی کرپشن تصور کیا جائے گا، کیوںکہ معاشرے میں امن سب سے زیادہ اہم ہے۔ لہذا ایسے کسی وزیر کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی کا دہشتگردوں کیساتھ تعلق کا شائبہ بھی ہوا تو فوری تحقیقات ہوں گی اور موقع پر سزا دی جائے گی۔ عمران خان نے واضح کہہ دیا ہے کہ مجرم کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا، خواہ کسی بھی اہم عہدے پر ہو۔ پی ٹی آئی والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ حکومت میں ہیں، اس لئے ان پر قانون موثر نہیں بلکہ قانون سب کیلئے ہوگا اور سب مجرموں کو سزا ملے گی۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں بہت سے افراد لاپتہ ہوئے، کئی ابھی تک لاپتہ ہیں، کہا جاتا ہے وہ سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں، کیا یہ ماورائے قانون اقدام نہیں۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
بلاشبہ یہ انسانیت کا المیہ ہے۔ اپنے سیاسی دشمنوں یا مذہبی مخالفین کو خفیہ اداروں کے ذریعے غائب کرانا جمہوری عمل کے منافی اور انسانی حقوق کیخلاف ہے۔ عدالتوں پر عدم اعتماد اور اپنے ہی قانون کا مذاق ہے۔ قانون مضبوط ہو تو مجرموں کو عدالتیں سزائیں دیتی ہیں، کسی کو غائب کرنا یا کسی کی جان لینے کا حق کسی کو نہیں۔ قانون کی بالادستی میں مجرم کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے گی۔ خفیہ اداروں کو بھی پابند کیا جائے گا کہ اگر کسی بندے پر کوئی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام ہے تو اسے عدالت میں لائیں۔ اس کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس طرح اوپن ٹرائل سے سب پر واضح ہو جائے گا کہ اس بندے کو اگر اٹھایا گیا ہے تو اس کا یہ جرم ہے۔ مجرم کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا، لیکن کسی مظلوم کیساتھ ظلم ہو تو سب ساتھ دیتے ہیں۔ نئے پاکستان میں خفیہ اداروں کو قانون کا پابند کیا جائے گا۔ مجرموں کو کوئی معافی نہیں ملے گی اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے بھی قانون کی حد میں رہیں گے۔ کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عدلیہ آزاد ہوگی، پولیس سیاسی دباؤ سے مبرا ہوگی۔ ان تمام اقدامات سے معاشرے میں امن قائم ہوگا اور ایک مثالی معاشرے تشکیل پائے گا۔

اسلام ٹائمز: داعش کا فتنہ پاکستان میں داخل ہوچکا ہے، ہمسایہ ممالک نے بھی اس حوالے سے خبردار کیا ہے، اس فتنے سے نمٹنے کیلئے کیا پالیسی ہوگی۔؟؟
مولانا افضل حیدری:
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ قانون کی حکمرانی ہوگی، تو جو بھی دہشتگرد خواہ وہ داعش کا رکن ہوگا یا طالبان کا، اس کا تعلق لشکر جھنگوی سے ہوگا یا القاعدہ سے، کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔ دہشتگرد، دہشتگرد ہوتا ہے۔ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، اس لئے قانون مضبوط ہوگا، قانون جب پھانسیوں پر لٹکائے گا تو باقی بھی سدھر جائیں گے۔ یہاں کسی کیلئے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ دہشتگردوں نے جتنا کھل کھیلنا تھا، وہ کھیل چکے، اب نہیں، اب انہیں سزائیں ملیں گی۔ ان کی سرگرمیوں کا حساب لیا جائے گا۔ ماضی میں حکومت کی جانب سے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں اس انداز میں تعاون نہیں کیا گیا، جس طرح حکومت کو کرنا چاہیئے تھا، مگر اب دہشتگرد یاد رکھیں یہ کوئی نون لیگ کی حکومت نہیں، بلکہ عمران خان کی حکومت ہے، جس میں قانون ہی طاقتور ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اور ادارے اپنی اپنی حدود میں مضبوط ہیں۔ یہاں کسی کیساتھ اس لئے رعایت نہیں ہوگی کہ وہ نون لیگ کا سپورٹر ہے۔ مجرم کو مجرم کی طرح ٹریٹ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ہم ایران اور افغانستان کیساتھ مل کر پالیسی بنائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں داعش کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔
خبر کا کوڈ : 740843
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش