0
Monday 17 Sep 2018 22:35
مسئلہ کشمیر اب بھی پہلی ترجیح ہے، مولانا فضل الرحمان فقط اپنی شکست کا رونا رو رہے ہیں

تحریک انصاف کرپشن کو دیس نکالا دینے کے بعد نئے خوشحال اور مستحکم پاکستان کی بنیادیں مضبوط کریگی، جویریہ ظفر آہیر

امریکہ سی پیک کیلئے سرمایہ کاری لائے، گھبرائے نہیں
تحریک انصاف کرپشن کو دیس نکالا دینے کے بعد نئے خوشحال اور مستحکم پاکستان کی بنیادیں مضبوط کریگی، جویریہ ظفر آہیر
ممبر قومی اسمبلی، پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی رہنماء، جویریہ ظفر آہیر خوشاب کے معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ گرین پاکستان انیشیٹو ادارے کی بانی چیئرمین ہیں۔ نئے پاکستان میں پارٹی قیادت کیساتھ سرگرم اور فعال ہیں۔ موجودہ ملکی صورتحال اور حکومت کو درپیش صورتحال سے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اسوقت سب سے زیادہ زیر گردش سوال تو یہی ہے کہ ڈیم جیسا میگا پروجیکٹ فقط چندہ مہم کے ذریعے مکمل ہوسکتا ہے، کیا یہ سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے حکومتی حربہ تو نہیں۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کی شروع کی گئی ڈیم بنائو تحریک، اب بلاشبہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن چکی ہے۔ ڈیم بنانے کیلئے ایک متمول صنعتکار سے لیکر دیہاڑی دار مزدور تک ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہا ہے، جو ناصرف خوش آئند بات ہے، بلکہ سوچ اور رویوں میں تبدیلی کا آغاز بھی ہے۔ چیف جسٹس کے ویژن کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بھی عوام بالخصوص دیار ِغیر میں بسنے والے پاکستانیوں سے پر زور اپیل کی ہے کہ وہ ڈالرز ڈیم فنڈ میں منتقل کرکے ایک روشن، توانا اور سر سبز پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ گو کہ 14 سو ارب روپے لاگت کا مطلوبہ ہدف ایک پہاڑ کی مانند دکھائی دیتا ہے، مگر جوش و جنون اور سچی لگن و کمٹمنٹ کے آگے ہیچ معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں وہی قومیں تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں، جو مسلسل محنت و جدوجہد اور کفایت و سادگی کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں۔ بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے ہمیں کام، کام اور بس کام کی تلقین کرکے ابدی ترقی و کامیابی کا راز بھی بتلا دیا۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ارض وطن کی خدمت کیلئے کتنی لگن اور خلوص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نئی حکومت کے سو روزہ پلان میں عوامی ترقی اور فلاح و بہبود کے یوں تو بے شمار پروجیکٹس شامل ہیں، مگر بلین ٹری منصوبہ اور ڈیم کی تعمیر کیلئے ٹھوس اقدامات و جامع منصوبہ بندی سب اہم ہیں۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں مداخلت کی پالیسی مذہبی احساسات کو بنیاد بنا کر شروع کی گئی تھی، کیا تبدیلی کیساتھ پاک افغان تعلقات اور خطے کے ممالک کیساتھ نئے دور کا آغاز ہوگا۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
 موجودہ عرصے میں افغانستان کے حالات نے پاکستان کو بہت متاثر کیا ہے، بہتری کیلئے بہت زیادہ کام کرنیکی ضرورت ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے دورے سے دونوں ملکوں میں کئی سال کی جمی ہوئی برف پگھلنے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ دونوں کو کئی حوالوں سے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ افغانستان کو دنیا کے ساتھ تجارتی روابط کے لئے بڑی حد تک پاکستان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سالانہ تین ارب ڈالر کے قریب افغان تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے۔ ہمسایہ ہونے کے ناتے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصے داری پاکستان کی خواہشات اور ترجیحات کا حصہ رہی ہے۔ دونوں جانب دوستی اور بھائی چارے کے امکانات کو ٹھیس اس وقت پہنچتی ہے، جب تیسرا فریق دخل اندازی کرتا ہے۔ مگر دونوں جانب ہی قربت کی سوچ موجود ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب مذہب، زبان اور ثقافت کے اشتراک کے علاوہ پاکستان ڈیڑھ ملین کے قریب افغان پناہ گزینوں کا گھر بھی ہے۔ کسی بھی ملک میں پناہ گزینوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

افغانستان کی سرحدیں یوں تو ایران، ترکمانستان، تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ بھی ملتی ہیں، مگر افغانون کے لئے پاکستان کا ایثار اور پیار کسی بھی ہمسائے سے بڑھ کر ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ افغانستان کی اہم ترین ضرورت ہے، اس لئے اس میں تعاون اور سہولت بڑھا کر افغانستان کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان ابھی تعمیر نو کے مراحل میں ہے، صنعت کا ڈھانچہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں، اس لئے مکانی اور زبانی قرب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی صنعتکار افغانستان میں متعدد مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔ مگر غلط فہمیوں کے نتیجے میں خراب تعلقات کے باعث پاکستان اور افغانستان کی ٹریڈ اڑھائی ارب ڈالر سے گر کر 500 ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے، حالانکہ چند سال پہلے دونوں حکومتیں اسے پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم ظاہر کرتی تھیں۔ افغانستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی ہے، اس حوالے سے پاکستان کی جانب سے افغان پولیس کے دستوں کو پاکستان میں تربیت دینے کی پیشکش اچھا اقدام ہے، مگر اس قسم کے فیصلوں پر عملدرآمد دو طرفہ اعتماد کی بحالی کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ مجموعی طور پر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور گرمجوشی دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ہے، موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ ان قریب ترین ہمسایہ اور برادر ممالک میں تعلقات کی صورتحال تبدیل نہ ہوسکے بلکہ اس میں بہتری ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق متعدد اور متضاد اطلاعات زیر گردش ہیں، پی ٹی آئی نے بھی منصوبے کی شفافیت پر انگلی اٹھائی تھی، اب آپ حکومت میں ہیں، سارے ابہام دور کئے جائیں، سی پیک کا مستقبل کیا ہوگا۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
سی پیک پاکستان کا معاشی مستقبل ہے، اس پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے جس دو ٹوک انداز میں بات کی ہے، اس سے پچھلے چند ہفتوں میں پیدا ہونے والے یا جانتے بوجھتے ہوئے پیدا کئے گئے بہت سے ابہام دور ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف اب حکومت کیساتھ عوام اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں، آرمی چیف کے بیانات سے بھی یہ واضح ہوگیا ہے کہ گزرے کل کی طرح پاک فوج آج بھی سی پیک کو پاکستان کے مستحکم معاشی مستقبل کے لئے ناگزیر سمجھتی ہے اور اپنے اس عزم اور ارادے پر بھی اسی طرح قائم ہے کہ اس کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں، حکومت کی بھی یہی سوچ ہے اور وہ بھی اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے میں پاک فوج ہی کی طرح پُرعزم ہے۔ پاکستان نے چین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تکمیل تحریکِ انصاف کی حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی جلد از جلد تکمیل ہماری اولین ترجیح ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے اہم ہے۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ بات متعدد بار اور پچھلے کچھ عرصے میں تسلسل کے ساتھ مشاہدے میں آرہی ہے کہ ہمارے ملک میں اہم ایشوز کے بارے میں وقفے وقفے سے افواہیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں، جس سے ابہام جنم لیتے ہیں، جبکہ ابہام معاشرے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، جس سے سماجی مسائل کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں یوں تو کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن فی الوقت سی پیک ہی کو لیتے ہیں۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ وہ سی پیک منصوبے پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے اور بھی ایسی ہی بے پر کی اڑائی جاتی رہیں، جس کے باعث سی پیک کے ضمنی شعبوں میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی میں مصروف افراد اور ادارے سوچ میں پڑ گئے کہ وہ اس سلسلے میں آگے بڑھیں یا نہیں۔ ایسی افواہیں گذشتہ دورِ میں بھی عوامی حلقوں میں گردش کرتی رہیں، یہ کسی حد تک درست بھی تھیں، بار بار ایسا ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ سابق حکومت کی جانب سے اتنے بڑے منصوبوں کے بارے میں عوام کو بروقت اور مناسب طور پر مطلع اور آگاہ نہیں کیا جاتا رہا۔ انہیں ان معاملات میں اعتماد میں نہیں لیا جاتا تو یہ ابہام پیدا ہی نہ ہوتے۔

اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سی پیک منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز ہوئے کئی برس ہوچکے، لیکن ہمارے عوام اب تک لا علم ہیں کہ چین اس منصوبے پر کل کتنی سرمایہ کاری کر رہا ہے؟ ان رقوم میں سے کتنی امداد کے طور پر ہیں اور کتنی بطور قرض فراہم کی جا رہی ہیں اور یہ کہ قرض کے طور پر فراہم کئے گئے فنڈز کتنے فیصد سود پر ہیں۔ پھر یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا اصل منصوبہ کتنا بڑا ہے؟ اور سی پیک اس منصوبے کے کتنے فیصد حصے پر مشتمل ہے؟ یہ بھی پوری طرح واضح نہیں کہ سابق حکومت نے کن شرائط پر یہ منصوبہ منظور کیا اور اس سے پاکستان کو مستقبل قریب یا بعید میں کیا اور کتنا مالی اور معاشی فائدہ ہوسکتا ہے؟ بہت سے لوگ اس بات سے بھی نا آگاہ ہیں کہ اس منصوبے کے لئے ورک فورس پاکستان کی استعمال کی جائے گی یا یہ بھی چین سے درآمد کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ تزویراتی اہمیت و افادیت کے حامل معاملات کو بھی سامنے لایا جائے، لیکن جتنا ضروری ہے، اتنا تو عوام کو علم ہونا چاہئے۔

اس ملک کا شہری ہونے کے ناتے یہ ان کا حق ہے۔ یہ ساری باتیں اگر بروقت کھول کر بیان کر دی جائیں تو ناصرف اس منصوبے پر عمل درآمد کے آغاز میں، بلکہ اب افواہوں کے پھیلنے یا پھیلائے جانے کے اس سلسلے کا سدِباب کیا جا سکتا تھا۔ ان شاء اللہ اس منصوبے کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں گئیں، تاکہ وہ اس کی افادیت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ عوام اگر حقائق سے آگاہ ہوں گے تو افواہیں ابہام کا باعث نہیں بنیں گی اور عوام پر منفی تاثر نہیں چھوڑیں گی۔ بہرحال جیسا کہ آرمی چیف نے واضح کیا اس منصوبے کی تکمیل پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے ضروری ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت اور فوج، دونوں اس منصوبے کی تکمیل کے عزم و ارادے پر قائم ہیں۔ عوام کی بھی یہی خواہش ہے، لیکن ضروری ہے کہ انہیں اس کے ہر مرحلے سے با خبر رکھا جائے، تاکہ ابہامات سے بچا جا سکے۔ چینی سفیر نے بھی چینی وزیر خارجہ کے کامیاب دورے اور سی پیک کے لئے پاکستان کی حمایت کو سراہا ہے۔ سی پیک پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہت بڑا ذریعہ ہے، امریکہ ہو یا چین جو بھی پاکستان آتا ہے، اپنے دورے سے مطمئن ہے، ہماری حکومت نے امریکہ سے کہا ہے کہ آپ اپنی سرمایہ کاری لائیں، سی پیک سے نہ گھبرائیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے اعتراض کیا ہے کہ وزیراعظم نے کہیں کشمیر کا تذکرہ نہیں کیا، کیا جہادی گروپوں کا خاتمہ کرکے بھارت کیساتھ مذاکرات کیلئے تھرڈ آپشن کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔؟
جویریہ طفر آہیر:
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر دیرینہ مسئلہ ہے اور اسی کی وجہ سے خطے کا امن بھی داو پر لگا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو سرفہرست رکھا، جو اب بھی پہلے نمبر پر ہے، لیکن اب نام نہاد کشمیر کمیٹی کو مسئلہ کشمیر سرد خانے میں ڈالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر مذاکرات کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان نے دونوں بازو پھیلا کر اپنے ہمسائے کو امن سے رہنے کی دعوت دی ہے، ہمسایہ ایسا کم ظرف نکلا کہ بجائے مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کے کشمیریوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے خطے کے بہت سارے مسائل خود بخود سدھر جائینگے، خطے کا امن کشمیر کے امن سے وابستہ ہے، کیونکہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تین ایٹمی طاقتوں، چین پاکستان اور بھارت کیلئے اہم ہے۔ اسکی فوجی، سیاسی اہمیت کے پیش نظر بھارت کشمیر پر سے قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔

فرنگی جاتے جاتے ایسا مسئلہ چھوڑ گیا، جو کبھی بھی پاکستان اور بھارت کو چین سے نہیں رہنے دے گا۔ اس مسئلے کی وجہ سے ہی دونوں ممالک میں اسلحے کی دوڑ ہے۔ بھارت کیلئے ساٹھ کی دہائی سے پہلے کشمیر کبھی اٹوٹ انگ نہیں رہا بلکہ خود اس کو متنازعہ سمجھ کر عالمی فورم پر لے آیا اور اسی فورم کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا وعدہ کیا، تاہم جوں جوں کشمیریوں کی آزادی کا سفر طویل ہوتا گیا، بھارت بھی اپنے وعدے سے مکرتا گیا، پھر ایسا دور آیا کہ کشمیر کو آہستہ آہستہ اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ کشمیر اس وقت پاکستان اور بھارت کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ پہلے دہشت گردی اور دوسرے مسائل کے بارے میں بات کرو، اس کے بعد کشمیر کا معاملہ دیکھا جائیگا، کیونکہ کشمیر کو وہ متنازعہ علاقہ تسلیم ہی نہیں کرتا، حالانکہ بھارتی حکومت 1948ء میں خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھاکر کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کرچکی ہے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد بھارتی اٹوٹ انگ کے دعوے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ بھارت کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی کوششوں کو بھی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہاں برسر پیکار تنظیمیں دہشت گرد ہیں۔ اگر مان لیا جائے کہ یہ دہشت گرد ہیں، تو اس کی وجہ بھی تو خود بھارت ہی ہے، جس کی میں نہ مانوں، کی پالیسی نے کشمیری نوجوانوں کو اسلحہ اٹھانے پر مجبور کیا ہوا ہے۔ جہاں تک جہادی عناصر کے متعلق پاکستان کی داخلی پالیسی کا تعلق ہے، وہ واضح ہے کہ ایسی کسی طاقت کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ملک کیلئے نقصان دہ ہے، اس حوالے سے امریکہ اور بھارت پاکستان کیخلاف پریشر بڑھانے کیلئے صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اس صورتحال میں بھارت کیساتھ ٹریڈ اور دوسرے دو طرفہ امور کو آگے بڑھانے میں حکومت ماحول بنانے اور سازگار حالات کیلئے راہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو پائیگی۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
دیکھیں کسی بھی جگہ امن نہ ہو تو تجارتی، ثقافتی اور دیگرت علقات کی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ کاش، یہ سب بھارت سمجھ سکتا۔ اگر پاکستان کی کشمیر اور خطے میں امن کوششوں کا جائزہ لیا جائے، تو پاکستان نے ہر دور میں امن کیلئے پہل کی ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھایا ہے۔ سارک سے لے کر اقوام متحدہ تک اس مسئلے کو لے کر گیا۔ پاکستان کی اس حوالے سے پالیسی مستقل رہی، آئندہ بھی اس پالیسی سے انحراف کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لیکن حل کرنے کے فارمولے تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ایوب خان نے اس مسئلے کو حل کروانے کیلئے امریکی صدر جان ایف کینڈی سے بھی مدد مانگی۔ صدر ایوب کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں پیش پیش رہے۔ او آئی سی کا وجود عمل میں آیا، تو اس کے اجلاس میں بھی قراداد لائی گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں بھی مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔

کارگل میں پاک بھارت جنگ اور نائن الیون کے واقعہ کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، لیکن کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی سیاسی حمایت میں کوئی کمی نہ آئی۔ پرویز مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور آگرہ میں اپنا چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ مشرف فارمولا میں کہا گیا کہ کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس پر مذاکرات کا آغاز کیا جائے، غیر عملی حل کو چھوڑ دیا جائے اور اصل حل کی جانب بڑھا جائے۔ بھارت اس وقت بھی اعلامیہ پر دستخط کرنے سے مکر گیا، پھر 2006ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اور چار نکاتی حل پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ علاقے کو غیر فوجی علاقہ قرار دیکر مقامی حکومت بنائی جائے، کوئی نئی حد بندی نہ کی جائے، پاکستان اور بھارت کی باہمی انتظامیہ مقرر کی جائے۔ بھارت اس حل کی طر ف بھی نہ آیا۔

یہ کہنا بے جا نہیں کہ جنگ جنگ کرنے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کا انگ انگ ہی نہ ٹوٹ جائے۔ اس سارے عرصے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان صاحب صرف کشمیر کے نام پر عیش کرتے رہے، آج کشمیر کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں، انکے پاس کوئی ایشو نہیں، فقط واویلا کر رہے ہیں۔ وہ بلوچستان میں پاکستان کے باغی عناصر کے پیچھے بھارتی ہاتھ کی طرف اشارہ کیوں نہیں کرتے، انہوں نے یوم آزادی منانے کی مخالفت کیوں کی، جس آزادی کیلئے کشمیری تن، من، دھن کی بازی لگا رہے ہیں، پاکستان کو درپیش مسائل اور کشمیری بھائیوں کی مدد کرنیکے لئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے، مولانا صاحب فقط اپنی شکست کا رونا رو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جو گاڑیاں نیلام کی جا رہی ہیں، انکی مالیت زیادہ نہیں، اس سے خزانے میں زیادہ اضافہ نہیں ہوگا، کیا یہ تاثر درست ہے کہ صرف سادگی اور کفایت شعاری کے نام پر ہونیوالے اقدامات نمائشی ہیں۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
یہ رویوں کو بدلنے اور عوام کو یقین دلانے کیلئے ہے کہ آپ کا حاکم آپ ہی میں سے ہے، آپ ہی کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ اگر حکمران طبقہ بدل جائے تو معاشرہ سنور جاتا ہے۔ لوگ تو اعیان کے دین پر ہوتے ہیں۔ وہ اگر دیانت دار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل ہوں گے تو عوام بھی انہی کی طرح دیانت دار ہوں گے۔ حکمران طبقہ بدعنوان ہو تو معاشرہ کبھی دیانت دار نہیں ہوسکتا۔ عمران خان اسی کے قائل ہیں۔ یہ اقدامات اور طرز حکمرانی اسلامی اصولون پہ مبنی ہے اور قائد اعظم نے بھی ایسا ہی طرز عمل اپنانا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل پاکستان کے عوام کی خوش نصیبی ہے، تحریک انصاف کرپشن کو دیس نکالا دینے کے بعد نئے خوشحال اور مستحکم پاکستان کی بنیادیں مضبوط کریگی۔
خبر کا کوڈ : 750531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش