0
Wednesday 19 Sep 2018 22:05
عدالتی نظام میں اصلاحات کیلئے بڑے اقدامات کرنا ہونگے

اتحاد بین المسلمین ہی پاکستان کی بقاء کا اصل ضامن ہے، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز

پاکستان میں سزاء کی شدت کی بجائے سزاء کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیئے
اتحاد بین المسلمین ہی پاکستان کی بقاء کا اصل ضامن ہے، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ وہ 6 اکتوبر 1953ء کو بنوں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حصل کرنیکے بعد اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعدازاں برطانیہ سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی۔ وہ 1976ء سے لیکر 2013ء تک پشاور یونیورسٹی میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ 3 نومبر 2017ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تعینات کئے گئے۔ بحیثیت چیئرمین انہوں نے گذشتہ دنوں کوئٹہ کا خصوصی دورہ کیا اور نجی ادارے کیجانب سے منعقدہ ایک پولیو سیمینار میں شرکت کی، اس موقع پر "اسلام ٹائمز" نے انکے ساتھ ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ جو محترم قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہونیکی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں میں کس حد تک اضافہ محسوس کرتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل نہ صرف ایک آئینی ادارہ ہے، بلکہ اس قوم کیلئے ایک بڑی نعمت بھی ہے۔ اس ادارے کی موجودگی سے ملک میں کوئی آئین اسلام، قرآن اور سنت سے متصادم نہ بنا ہے اور نہ بن سکتا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس ادارے کا ممنون و مشکور ہونا چاہیئے۔ 1973ء سے پہلے مشاورتی کونسل کی حیثیت سے یہ 1962ء کے آئین میں بھی تھا۔ کونسل میں اسوقت اعلٰی تعلیم یافتہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کونسل میں کوئی بھی مسئلہ جب پیش آتا ہے، تو اس پر علمی انداز میں بحث ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ادارے کو قرآن و سنت کی روشنی میں کسی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کا جواب تیار کرکے متعلقہ ادارے کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کسی قانون پر اپنی منظوری نہ دے تو وہ آگے نہیں جاسکتا، اسی لئے اس ادارے کی سربراہی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری 1973ء سے قبل کے قوانین کو اسلامی اصول و ضوابط کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے متصادم  نہ ہو۔ اس کیلئے کونسل کے پاس اختیارات موجود ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاسوں کے انعقاد میں اکثر تعطل دیکھا گیا ہے، اس مسئلے کو کیسے حل کرینگے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
ہم آئینی طور پر پابند ہیں کہ ایک سال میں کم از کم چار اجلاس منعقد کریں۔ میری تقرری میں چونکہ تاخیر ہوئی، اسی وجہ سے بعض اجلاس تعطل کا شکار ہوئے، لیکن اب ہم ہر کام کو بروقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ سال توہین رسالت کے قوانین میں ترمیم کے حوالے سے اسمبلی میں پیش کئے جانیوالے بل کو پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے منظور نہیں کرایا گیا۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
یہ وہ واحد بل ہے، جس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع نہیں کیا گیا۔ اس بل کے حوالے سے جلد بازی کی گئی تھی اور بعد میں اتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ اگر اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے پیش کی جاتا تو اتنی شرمندگی نہ اٹھانی پڑتی۔

اسلام ٹائمز: کیا اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاتا۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
سیاست کو ہم نے بدنام کیا ہوا ہے۔ انسانی زندگی کے سارے کام سیاسی ہوتے ہیں، یعنی انسان سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ آج کسی جماعت کی حکومت بنی ہے، یہ جمہوری سیاسی عمل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ہی سیاسی اس لئے ہے کہ ہم آئین و قانون کے ساتھ منسلک ہیں۔ حکومت ملک کی بہتری کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سیاسی بصیرت سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت ہمیشہ اپنی مرضی منوانے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کا سہارا نہیں لیتی۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
نہیں اس بات کا امکان ایک فیصد بھی نہیں۔ کونسل میں‌ عام لوگ نہیں بلکہ پڑھے لکھے علماء کرام بیٹھے ہوتے ہیں، جنہیں اپنے فرائض کی انجام دہی کا بخوبی علم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام ممبران کو جو مینڈیٹ آئین نے دیا ہوا ہے، وہ اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ہمارا کام حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانا نہیں بلکہ اس کی اصلاح کرنا ہے۔ ہم کسی کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ حکومت کو قانونی معاملات میں مشورہ دینا کسی کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہونا نہیں۔ فقہ زمانے کی تفہیم ہے، زمانہ ہمیشہ ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ چند روز پہلے ہمارے پاس بہت اہم بل آئے تھے۔ ایک بل خواجہ سرا کے حقوق کے بارے میں تھا۔ اس بل سے متعلق اسلامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے روشنی ڈالی۔ اسی طرح کمسن بچوں کی شادی کا بل بھی ہمارے پاس آیا تھا۔ اس کے بارے میں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ باقی اسلامی دنیا اس حوالے سے کیا رائے رکھتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ملک کا موجودہ عدالتی نظام اسلامی قوانین کے عین مطابق اپنا کام کرتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
اسلامی نظریاتی کونسل کے 210ویں اجلاس میں متفقہ طور پر یہ قرار دیا گیا کہ ملک کا عدالتی نظام اصلاح طلب ہے اور اس کے لئے فوری طور پر بڑے اقدامات کرنا ہونگے۔ زینب قتل کیس کی طرح سنگین جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کونسل نے سفارش دی ہے کہ ان جرائم کیلئے سنگین اور فوری انصاف عدالتوں کے ذریعے دلایا جائے۔ پاکستان میں سزاء کی شدت اور سنگینی کی بجائے سزاء کی یقینیت کا اہتمام ہونا چاہیئے، اسی طرح جرائم کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ سزاؤں کی تشہیر کیلئے جدید ذرائع ابلاغ سے مدد لی جانی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں شدت پسندی کی سوچ کو ختم کرنے کیلئے پیغام پاکستان کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
کونسل نے حال ہی میں پیغام پاکستان کے اعلامیہ کی تائید کی ہے اور سفارش کی ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے اس پر علمدرآمد کیلئے قانون سازی کی جائے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس کو یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بنائے۔ صوبائی حکومتوں کو اس کی تشہیر کیلئے صوبائی اور ضلعی سطح پر علماء کنونشنز کا انعقاد کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ہمیشہ سست روی کا شکار کیوں رہتا ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
ماضی میں اس حوالے سے سستی ہوئی ہوگی، لیکن کونسل کو غیر موثر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ہم نے کسی بل کی توثیق نہیں کی یا اس کے بارے میں تحفظات ہوں تو وہ قانون نہیں بن سکتا۔ 1962ء سے لیکر اب تک ایسے ہزاروں بل آئے ہوں گے، جو اگر منظور ہوتے تو بہت سے مسائل جنم لیتے، مگر کونسل کے فعال ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔

اسلام ٹائمز: بیک وقت تین طلاقوں اور دیگر شرعی مسائل سے متعلق آپ تمام مسالک کے علماء کو کسطرح ایک پلیٹ فارم پر متفق کرسکتے ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
کونسل میں ہم تمام مسالک کے علماء کی آراء کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ الحمد اللہ آج تک کونسل میں جو بھی معاملات منظور ہوئے ہیں، اسے باہمی افہام و تفہیم سے آگے لے جایا گیا ہے۔ تین طلاق کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس حوالے سے پہلے ہی اپنی سفارش دے چکی ہے۔ بیک وقت تین طلاق دینا خواتین اور بچوں کے حق میں بہت بڑا ظلم ہے۔ اس حوالے سے تمام مسالک کے علمائے کرام نے اتفاق کیا ہے۔ ہمیں ملک کے مختلف حصوں سے خواتین کیجانب سے خطوط موصول ہوئے ہیں کہ اس امر کو جرم قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے ہم حکومت کیساتھ مسلسل رابطے قائم کرکے باقاعدہ قانون سازی کرینگے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کیلئے اکثر صرف ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
چیئرمین شپ کے معاملے کو آپ مسلکی انداز سے نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا۔ اس منصب کیلئے ہمیشہ ریٹائرڈ جسٹس یا کسی جید عالم دین کو ہی نامزد کیا گیا ہے، جس میں ہمیشہ تمام مسالک کی رائے کو احترام دینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران میں تمام مسالک کے علماء موجود ہوتے ہیں اور سبھی اپنی رائے سامنے رکھتے ہیں۔ آئین میں اس حوالے سے کوئی رکاوٹ موجود نہیں، وزیراعظم جنہیں چاہے، اس منصب کیلئے نامزد کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی یا اتحاد بین المسلمین سے متعلق آپکی کیا رائے ہے۔؟
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز:
اسلامی نظریاتی کونسل تو خود اتحاد بین المسلمین کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ پاکستان کو تمام مسالک نے ملکر بنایا تھا اور آج بھی تمام مسالک ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کرتے ہوئے اس ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی کاوشیں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہماری ہمیشہ سے یہی کوشش ہوا کرتی ہے کہ تمام مسالک کے علماء کرام کے درمیان بے جاء اختلافات کو ختم کریں اور علمی اختلافات کو علمی بحث و مباحثے کے ذریعے ہی ختم کریں۔ اسلام میں کسی قسم کی تفریق نہیں اور اس دین مبین میں معیار صرف تقویٰ ہے، کسی کو کسی دوسرے پر رنگ یا نسل کی بنیاد پر سبقت حاصل نہیں بلکہ ہر کوئی برابر ہے۔ اتحاد بین المسلمین ہی پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے۔
خبر کا کوڈ : 751069
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش