0
Tuesday 27 Nov 2018 07:55
امریکہ کو مشرق وسطیٰ سمیت ہر جگہ ہزیمت کا سامنا ہے

پاکستان کو امریکہ کیساتھ تعلقات اپنی خود مختاری سے زیادہ عزیز نہیں، شیریں مزاری

آل شریف کو خوف ہی یہ ہے کہ اگر عمران خان پانچ سال حکومت کر گیا تو پھر انکا کیا بنے گا
پاکستان کو امریکہ کیساتھ تعلقات اپنی خود مختاری سے زیادہ عزیز نہیں، شیریں مزاری
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مہر النساء مزاری نے لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کی اور کولمبیا یونیورسٹی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی میں استاد رہیں اور سرکاری ادارے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی سربراہ رہیں۔ دی نیشن کی ایڈیٹر بھی رہیں۔ 2008ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور مرکزی ترجمان رہیں۔ انکے ساتھ موجودہ ملکی اور علاقائی حالات کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال میں ایک طرف امریکہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے دوسری طرف پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے، صورتحال کس طرف جا رہی ہے۔؟
شیریں مزاری:
ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ امریکہ کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے چیلنج ہے، جس کے تدارک کے بغیر دنیا میں قیام امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردی کیخلاف متحد ہونیوالے اتحادی ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان نہ ہو۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے اگر پاکستان کے کردار کو دیکھا جائے تو نائن الیون سے قبل پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، لیکن اس واقعہ کے بعد پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتحادی بن کر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوگیا، یہی نہیں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بن کر بے شمار قربانیاں دیں۔ لیکن امریکہ نے ہمیشہ دہشت گردی کیخلاف کئے جانیوالے پاکستان کے اقدامات اور قربانیوں کو بے ثمر کرتے ہوئے الزامات لگائے، جس کے باعث پاک امریکہ تعلقات نزاع کا شکار ہی رہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی پاکستان کو قربانیوں سمیت دل کیساتھ قبول نہیں کیا، تاکہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں بھارت کو بااختیار نگران بنایا جائے، ڈونلڈ ٹرمپ ہی نہیں امریکہ کی پچھلی حکومتیں اور انتظامیہ اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ خطے میں نہ صرف بھارت کو اہمیت دی جائے گی، بلکہ اس کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف داخلی بحران درپیش ہے، دوسری طرف امریکہ بھارت کو اہمیت دے رہا ہے، کیا صرف وزیراعظم کے ٹوئیٹ جیسے اقدامات کافی ہیں۔؟
شیریں مزاری:
امریکہ کا کہنا ہے کہ ہم جنوبی ایشیاء کو سفارت کاری کی اصطلاح میں زیرو سم گیم کے طور پر نہیں لیتے اور امریکہ نے ہمیشہ پاکستان اور بھارت کو الگ الگ کمانڈ کے ذریعے ڈیل کیا، ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے کردار کو موردالزام ٹھہرانا اور امریکہ کی توقعات پر پورا نہ اترنے کا الزام دینا، امریکہ کی طوطا چشم فطرت کا عکاس ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹرمپ کی الزامات سے لتھڑی ٹوئٹ کے جواب میں ٹوئٹ کرکے حقائق واضح کئے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 123 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اٹھایا اور 75 ہزار جانوں کی قربانیاں دی ہیں، جبکہ امریکہ نے صرف بیس ارب ڈالر کی امداد دی۔ ٹرمپ کے الزامات کے بعد پاکستان کے بھرپور احتجاج پر امریکی میڈیا نے ٹرمپ کے پاکستان پر لگائے جانیوالے حالیہ الزامات پر شدید تنقید کی کہ امریکہ نے پاکستان کو بھڑکا کر عقلمندی نہیں کی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کے عوام اور ادارے اپنے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کوئی اختلاف اگر کسی کو ہے بھی تو وہ سیاست پر ہوسکتا ہے، طرز حکومت پر ہوسکتا ہے، نظریاتی اختلاف ممکن ہے، لیکن جہاں بات مادر وطن کی ہے، جہاں اس دھرتی کی عزت، حرمت، احترام، تقدس کی بات ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ ہے، نہ اس کی کوئی گنجائش۔ سو وزیراعظم عمران خان کا شکریہ، جنہوں نے کسی اگر مگر کے بغیر کوئی وقت ضائع نہ کیا اور اسی طریقہ سے ذہنی انتشار کا شکار ٹرمپ کو جواب دیا۔ انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق انہی کے سکوں میں ادائیگی کی۔ صرف عمران خان ہی نہیں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، مشاہد حسین اور خواجہ آصف بھی فوری طور پر آگے بڑھے اور قوم کے احساسات و امنگوں کی ترجمانی کی۔ اب توقع ہے کہ پوری قومی قیادت آگے بڑھے گی اور امریکی صدر کو باور کرائے گی کہ بس اب بہت ہوگیا۔ پاکستان کو امریکہ کی دوستی اور خوشگوار تعلقات بہت عزیز ہیں، لیکن اپنی خود مختاری، خود داری اور آزادی سے زیادہ نہیں۔

آج اگر پاکستان عزت و احترام کے رشتہ کے تحت اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے چین کیساتھ روابط مضبوط کر رہا ہے اور روس کیساتھ فضائی اور دفاعی نظام کیلئے بات چیت کر رہا ہے تو امریکہ کو بھی چاہیئے کہ پاکستان کیساتھ برابری کے تعلقات قائم کرکے اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔ پاکستان کوئی چھوٹا اور کمزور ملک نہیں ہے، وہ اپنے جغرافیائی خدوخال کیساتھ جنوبی ایشیاء میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ملک ہے، امریکہ پاکستان کیساتھ ملکر ہی افغانستان میں صلح اور امن قائم رکھ سکتا ہے، ٹرمپ نے جو پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر غیر سفارتی زبان کا استعمال کیا ہے، مہذب امریکہ کے صدر ٹرمپ کو احساس ہونا چاہیے کہ دنیا کے مہذب معاشروں میں ایسے غیر سفارتی عمل کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جو ٹرمپ کو انہی کی زبان میں صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ حقائق جاننے کی کوشش کریں، تاکہ امریکہ کیلئے دی گئی پاکستان کی قربانیوں کا انہیں اداراک ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ امریکی صدر کے آتے ہی تعلقات شدید تناؤ کا شکار کیوں ہوئے ہیں۔؟
شیریں مزاری:
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد نہ صرف امریکہ کی خارجہ پالیسی کھل کر بے نقاب ہوئی بلکہ بری طرح ناکام بھی ہوئی، ٹرمپ جو کہ دنیا میں اخلاق باختہ اور غیر سفارتی زبان استعمال کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، وہ اپنی ہٹ دھرم خارجہ پالیسی کے ذریعے امریکہ کی عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کی پچھلی حکومتوں کی نسبت میری خارجہ پالیسی بہتر ہے، حالانکہ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے لیکر ابتک انکی خارجہ پالیسی کا خلاصہ اتنا سا ہے کہ شمالی کوریا کیساتھ معاندانہ پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں شام اور ایران کے حوالے سے انکی خارجہ پالیسی کو ہزیمیت سے دوچار ہونا پڑا، یہی نہیں یروشلم کے سلسلے میں اٹھایا گیا ٹرمپ کا اقدام بری طرح ناکام ہوا، بلکہ سنگین ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اسلام ٹائمز: خطے میں امریکہ کی پالیسی اگر اسی طرح جاری رہی تو افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا۔؟
شیریں مزاری:
ٹرمپ نے پاکستان پر حالیہ الزامات لگائے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ امریکہ پاکستان کی امداد بند کرکے دہشت گردی اور افغانستان کیخلاف جنگ کو جاری رکھ سکتا ہے، کیا امریکہ جنوبی ایشیاء میں اپنے ایجنڈا کی تکمیل پاکستان کے بغیر کرسکتا ہے، اس تناظر میں اگر خطے کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے تعاون کے بغیر امریکہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا، امریکہ کو حقائق پر نظر رکھنی چاہیئے کہ افغانستان میں امریکہ سمیت ستر ممالک کا اتحاد کولیشن فنڈ کی مد میں سات سو ارب ڈالر خرچ کرکے بھی ناکام ہے اور اب بھی 43 فیصد افغانستان پر امریکہ کا کنٹرول نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں افغانستان میں امریکہ کے انتظامی امور نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان طالبان مضبوط ہوتے جا رہے ہیں، منشیات کا کاروبار عروج پر ہے، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے تعلقات نزاع کی حالت میں ہیں، ایسے میں اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانا امریکہ کیلئے نا گزیر ہوچکا ہے۔

خطے میں پاکستان کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ امریکہ کو تاریخ پر نظر رکھ کر لگانا چاہیئے، جب امریکہ کی فوجی طاقت، اسلحہ اور بارود اس وقت تک ناکارہ تھا، جب تک پاکستان نے افغانستان میں سویت یونین سے برسرپیکار امریکی بندوق کیلئے اپنا کندھا پیش نہیں کیا تھا۔ امریکہ کو پاکستان پر لگائے جانیوالے الزامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے کیا کچھ نہیں کیا، آج بھی پاکستان نے اپنی بحری، بری اور فضائی حدود امریکہ اور نیٹو کیلئے کھول رکھی ہے، اگر آج پاکستان اپنی ائیر لائن آف کمیونیکیشن کو ہی بند کر دے تو امریکہ کی فضائی جنگ افغانستان میں بند ہو جائے گی، کیونکہ امریکہ کیلئے افغانستان میں اپنے ائیر کرافٹ بھیجنے کے لئے پاکستان کے علاؤہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ امریکہ کے پاس بہت اچھا موقع تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اس سے بہتر تعلقات استوار کرتا اور پاکستان بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ جیسی اقتصادی اور فوجی قوت کیساتھ تعلقات خراب ہوں، واشنگٹن میں یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کس سمت جا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے حکومت بنانیکے بعد سب سے بڑی کیا کامیابی حاصل کی ہے۔؟
شیریں مزاری:
جس بات کا ڈر تھا، خوف تھا بلکہ کئی بزرگ مہروں کو یقین تھا، ملک اس حادثہ سے بچ گیا ہے۔ اقتصادی طور پر ڈیفالٹ سے مکمل محفوظ۔ یہ عمران خان کی پہلی کامیابی ہے، جو اس نے خاموشی سے حاصل کی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج معاشی عدم استحکام تھا۔ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 12 ارب ڈالر تھا۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے دوست مملاک نے انکار کر دیا۔ عمران خان نے دوست ممالک کو یقین دلایا کہ یہ پیسہ ماضی کی طرح کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں نہیں جا رہا بلکہ ایک نئی، مخلص اور کرپشن سے پاک قیادت اس پیسے کو استعمال کرے گی۔ عمران خان نے دوست ممالک کو پاکستان میں کرپشن کے خلاف جاری مہم، کڑے احتساب اور فضول شاہ خرچیوں کو ختم کرنے کا یقین دلایا اور وزیراعظم کا 1100 کنال کا گھر چھوڑ کر صرف چار کنال کے گھر میں رہنے کے فیصلے کو عملی نمونے کے طور پر پیش کیا۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ عمران خان نے آتے ہی معیشیت کھول کر عوام کے سامنے رکھ دی ہے۔ معیشیت کو اس کی اصل قیمت پر لانا ایک حقیقت پسندانہ عمل ہے۔ ماضی میں پاکستانی معیشیت کو جھوٹ پر کھڑا رکھا گیا، جس کے نتیجہ میں عوام دھوکے میں رہے۔

تحریک انصاف کے فیصلوں سے یوں لگتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ جھوٹ نہیں بولیں گے اور جہاں انہیں عوام کے اعتماد کی ضرورت پڑے گی، وہ عوام کے سامنے صحیح صورتحال اور حقائق رکھ دیں گے۔ اگر تحریک انصاف اسی اصول پر قائم رہی تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی معیشیت مضبوط ہوگی اور پاکستان آئی ایم ایف کو قرض دینے کی پوزیشن میں آجائے گا۔ تمام وزیروں اور مشیروں کیلئے فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر پابندی عائد ہے۔ وزیر خارجہ اقوام متحدہ میں خطاب کرنے گئے تو وزیروں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کی فوج ان کے ساتھ نہیں گئی۔ وزیر خارجہ لوکل ٹرین میں سفر کرتے رہے اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ تحریک انصاف نے پہلی مرتبہ میرٹ پر کیرئر ڈپلومیٹ مقرر کئے ہیں، جو کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ آسیہ کی رہائی کے بعد دینی جماعتوں کا ملک گیر احتجاج بہت سمجھداری سے صرف چار دنوں میں ختم کیا گیا، جبکہ اس کے مقابلے میں ایک سال قبل نون لیگ کی حکومت میں دیا گیا دھرنا حکومت سے سنبھالا نہیں گیا تھا۔ وہ دھرنا بیس دن تک جاری رہا۔ وفاقی وزیر کی رخصتی، ناکام پولیس آپریشن اور فوج کی گارنٹی کے بعد دھرنا ختم ہوا۔ یہ جو آج کل مہنگائی ہے، مہنگائی بھی دراصل کرپشن کے انڈوں بچوں میں سے ایک ہے اور ملکی معیشت کے گلے میں خوفناک قرضوں کی لعنت کا طوق بھی اسی کرپشن کی ناجائز اولاد ہے۔ اسی کرپشن کا آج احتساب ہو رہا ہے اور کھلے عام ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک کے دیوالیہ ہونیکے امکان کا اظہار تو وزیر خزانہ نے کیا تھا، اسے ایک سازش یا پروپیگنڈہ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔؟
شیریں مزاری:
سابقہ ادوار میں خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک کو قرضوں میں گروی تو رکھا ہی تھا، مگر منصوبہ کچھ اور تھا۔ اس منصوبہ میں چند غیر ملکی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ بساط بچھائی گئی تھی کہ اگر پنتیس سال سے اس ملک کی شاہ رگوں سے خون پینے والے کامیاب ہوگئے تو فوری طور پر ڈھول ڈھمکے کے شور میں چپ کرکے حد درجہ سخت شرائط پر سخت قرض لے کر چند بڑے بڑے منصوبے، جن میں سے ایک دو تو جاری بھی ہیں، انہیں کھلونا بنا کر عوام کا دل بہلایا جائے گا۔ لوگوں کو دوبارہ بیوقوف بنایا جائے گا۔ جیسے لاہور کی اورنج ٹرین اور شائد ایک دو اسی قبیل کے غیر سنجیدہ مہنگے ترین ترقیاتی اقدام۔ ان منصوبوں میں ملک کی خیر مطلوب نہیں تھی۔ دراصل انہیں اپنی جیت کا یقین تھا۔ ہر ادارے میں انھی کے پروردہ لوگ موجود تھے۔ الیکشن میں ہارنا بقول ان کے ممکن ہی نہیں تھا۔

مگر خدا کی مرضی بالکل مختلف تھی، پرانے لوگوں کے طور طریقوں کے خلاف انتہائی بے ترتیبی سے الیکشن لڑتے ہوئے عمران خان کی جیت ہوگئی۔ ایک ایسا کام، جو الیکشن سے چار پانچ ماہ قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں جم کر کھڑا ہوچکا ہے، لازم ہے، چند کھلاڑی دوسروں سے بہتر ہونگے۔ آہستہ آہستہ کام نہ کرنے والے، ٹیم سے باہر ہوجائینگے۔ کیا وزراء کی کارکردگی پر پہلے کبھی بھی کڑی نظر رکھی گئی تھی۔ بڑے میاں صاحب تو وزراء سے ملنا تک پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیتے۔ ان کے مصاحبین کسی کے متعلق جو کچھ بھی فرما دیتے، میاں صاحب اسی انفارمیشن کی بنیاد پر اپنا رویہ ترتیب دیتے تھے۔

ویسے ایک ایسا شخص جو قومی اسمبلی میں جانا اپنی توہین سمجھتا تھا، جو سینیٹ کو جوتے کی نوک پر رکھتا تھا، جو وزراء سے دور رہتا تھا، جسکو ملنے کے لئے ایم این اے سفارشیں کرواتے تھے۔ کیا واقعی اسکا موازنہ موجودہ وزیراعظم سے ہونا چاہیے، جو ہر ہفتہ کابینہ کی میٹنگ بلاتا ہے، مشاورت کرتا ہے، درست فیصلے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، اداروں کے ساتھ توازن رکھنے کی عملی پالیسی اپناتا ہے، اس حکومت میں کرپشن کا ایک بھی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ کسی وزیر کی جرات نہیں کہ مالیاتی بے ضابطگی کرے۔ آل شریف کو خوف ہی یہ ہے کہ اگر عمران خان پانچ سال حکومت کر گیا تو پھر انکا کیا بنے گا۔ اگر ملک کی اقتصادی صورتحال درست ہوگئی تو پھر ان کے اخباروں کی حد تک ترقیاتی کرشموں پر کون یقین کریگا۔ قرائن تو یہی ہیں کہ عمران خان کام بھی کرتا رہیگا اور پانچ سال بھی پورے کریگا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کی کابینہ سے متعلق ایک رائے ہے کہ وہ فیصلوں میں خود مختار نہیں، اسطرح ایک ٹیم کس طرح فعال کہی جا سکتی ہے۔؟
شیریں مزاری:
ظاہر ہے کہ خان صاحب کی ایک شخصیت ہے، جسے دنیا مانتی ہے، لیکن ٹیم کے تمام وزراء اپنی اپنی جگہ پہ کام کر رہے ہیں، ورنہ تو کوئی کام آگے بڑھتا ہی نہیں، مجھ سے پوچھیں تو شاہ محمود قریشی سے بہتر وزیر خارجہ پچھلے دس پندرہ سال سے نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں ان کی بہتر کارکردگی سے گھبرا کر گرو نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا تمسخر اُڑایا گیا۔ یہ کہا گیا کہ وہ کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیگا، لیکن ان توقعات کے برعکس وہ دوبارہ الیکشن جیت گئے۔ وہ حد درجہ فعال انسان ہیں۔ ان کے مسلسل مربوط دوروں سے پاکستان کا نقطہِ نظر وضاحت سے دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ ہمارے دوستوں کے دل وسیج رہے ہیں۔ سفارتی سطح پر وہ حد درجہ کامیاب ہے۔ کم از کم سرتاج عزیز اور فاطمی سے ہزاروں نوری سال بہتر۔ خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ چلیے، اسے بھی چھوڑ دیجیے۔ کیا اسد عمر وزارت خزانہ اسحاق ڈار سے بہتر نہیں چلا رہے۔ بالکل چلا رہے ہیں۔

مشکل ترین صورتحال میں اسد عمر نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔ ورنہ امریکی ڈالر دو سو روپے سے بھی بڑھ چکا ہوتا۔ مہنگائی کا بڑھنا تو کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو جاتا، تو کھانے پینے کی اشیاء کم از کم دو سے تین ہزار گنا بڑھ جاتیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ چند اقتصادی فیصلے غیر مقبول ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ مجبوری میں کیا گیا۔ صرف اور صرف دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے۔ یہ بھی درست ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھی ہے۔ جس ملک میں کوئی امیر آدمی ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں، طاقتور طبقہ ایف بی آر کو اپنی جیب میں ڈال کر رکھتا ہے۔ وہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس کے علاوہ دوسرا راستہ کون سا رہ جاتا ہے۔ قوی یقین ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر، مہنگائی کم ہوجائیگی۔ اَسد عمر اس وقت اپنی بساط سے بڑھ کر محنت کر رہا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی تسلیم نہیں کر رہے۔ کیا یہ سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کر رہے تھے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے، کیا پاکستان میں کسی کو بھی معلوم تھا کہ اسحاق ڈار، کس دھڑلے سے ملک کی معیشت کو برباد کر رہا ہے، گروی رکھ رہا ہے، پیسہ بنا رہا ہے۔ اَسد عمر کا مقابلہ اسحاق ڈار سے کرنا غیر مناسب ہے۔ اَسد عمر کے کردار پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے، یہ بذات خود ایک محترم بات ہے۔ ساری ٹیم فعال ہے۔
خبر کا کوڈ : 763399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش