0
Thursday 6 Dec 2018 20:39

بابری مسجد معاملے کو لیکر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نہیں جاسکتی، عارف محمد خان

بابری مسجد معاملے کو لیکر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نہیں جاسکتی، عارف محمد خان
بابری مسجد کی شہادت کو 26 سال گزر گئے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کو لیکر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور آج بھی معاملہ عدالت میں زیر غور ہے۔ جس وقت بابری مسجد شہید ہوئی تھی، اسوقت بھارت کی زیادہ تر ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں تھیں اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی خاصی تھی، لیکن آج بھارت میں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ این ڈی اے حکومت کی قیادت کر رہی ہے اور ملک کی زیادہ تر ریاستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ بھارت کے مرکز میں سابق وزیر اور بھارت کے معروف دانشور عارف محمد خان نے بابری مسجد کے معاملات کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ بعض ایسے معاملے جنکی وجہ سے بابری مسجد و رام مندر تنازعہ کو فروغ ملا ہے، کے اہم کردار رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بابری مسجد کی شہادت کے حوالے سے عارف محمد خان سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بابری مسجد کو شہید ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر گیا ہے اور اس مسئلہ میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اس حوالے سے کیا رول رہا ہے۔؟
عارف محمد خان:
دیکھیئے میں یہ مانتا ہوں کہ قیادت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جس شخص پر آپ اپنے اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، اس میں یہ بصیرت ہونی چاہئیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ آج جو ہم کر رہے ہیں، اس کے آنے والے دنوں میں کیا اثرات ہوں گے۔ اس مسئلہ کو لیکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعے جو نفرت بھری اور پُرتشدد تحریک چلائی گئی، اس کے بارے میں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس کے سینیئر رہنما نرسیما راؤ نے خود مجھ سے کہا تھا ’’ہم مسلمانوں کے سوشل ریفارمر نہیں ہیں، اگر وہ گڑھے میں پڑے رہنا چاہتے ہیں تو ہم سے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔‘‘ جب انہوں نے مجھ سے بابری مسجد کے حوالے سے میرا موقف بدلنے کے لئے اسرار کیا تو جواب میں میں نے کہا کہ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ کل تک میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے حق میں بول رہا تھا اور اب میں اس فیصلے کے خلاف بولوں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ بابری مسجد کی انہدامی کارروائی کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی ذمہ دار ہے، کیونکہ اس پورے معاملے میں انہوں حکومت کے ساتھ ڈیل کی تھی۔

اسلام ٹائمز: آپ اس تنازعہ کو قریب سے دیکھتے آئے ہیں، کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی کاوشوں کو بالکل نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔؟
عارف محمد خان:
میرا یہ ماننا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایسا کام کر دیا ہے، جس سے بھارت میں ہندو مسلم خلیج میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ سیاسی نظریہ سے دیکھیئے 1980ء میں 54 مسلمان جیت کر پارلیمنٹ میں آئے۔ 1984ء میں 52 جیت کر آئے اور یہ کہاں سے جیت کر آرہے تھے۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں، میں کانپور شہر سے جیتا، جہاں مسلمانوں کی کل آبادی 12 فیصد تھی اور قریبی مخالف امیدوار بھی مسلم تھا اور یہاں کسی ہندو امیدوار کی ضمانت نہیں بچی تھی۔ تو ہمیں ہندو ہی تو ووٹ دے رہے تھے۔ میرے علاوہ ایوب خان کو دیکھیئے جو راجستھان کے اس انتخابی حلقہ سے جیت کر آئے، جہاں پر کل مسلم ووٹر محض 2 فیصد تھے۔ اس فضا کو کس نے برباد کیا، یہ جاننا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا اس مسئلے کا اب کوئی قابل قبول حل نظر آرہا ہے۔؟
عارف محمد خان:
دیکھیئے بابری مسجد میں 1947ء سے مورتیاں رکھی ہوئی تھیں، صرف ایک علامتی تالا تھا، یہ بتانے کے لئے کہ معاملہ متنازعہ ہے، 1986ء میں اس تالے کو ہٹا دیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ایک خط کے جواب میں گووند ولبھ پنت نے لکھا تھا کہ کوئی صورت نہیں ہے کہ بابری مسجد سے مورتیاں ہٹائی جاسکیں۔ اب سارا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آتا ہے، ہمیں وہ قبول کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھاجپا اور آر ایس ایس نے اس معاملہ کو اپنے ووٹ بنک کیلئے استعمال نہیں کیا۔؟
عارف محمد خان:
دیکھیئے جس دن مسجد کے ڈھانچے کو گرایا گیا، اس کے دو دن بعد تک بی جے پی کے کسی رہنما نے کوئی بیان نہیں دیا تھا اور ان میں زبردست ندامت تھی۔ ایل کے اڈوانی بھی نہیں بول رہے تھے۔ پارلیمنٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ دن میری زندگی کا سیاح ترین دن تھا۔ اس پر پارلیمنٹ میں میں نے کہا تھا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں، لیکن قائد کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی اتنی بصیرت ہونی چاہئے کہ اس کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیئے کہ اس کے عمل سے کیا نقصان ہونے والا ہے۔ دو دن بعد جیسے ہی نرسیما راؤ نے اپنی قوم سے خطاب میں یہ کہا کہ اس انہدامی کارروائی کا جواب مسجد کو دوبارہ وہیں بناکر دیا جائے گا۔ اس بیان کے اگلے دن پورا ماحول بدل گیا اور اس طرح وہ شرمندگی اور ندامت سے باہر آگئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہاں اب یہ مسئلہ ووٹ بنک کے طور پر بھی سامنے آگیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آج بھارت کی قیادت جن حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے، وہ بہت جارحانہ ذہنیت رکھتی ہے، اب بابری مسجد کی صورتحال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
عارف محمد خان:
میرا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت حد پار نہیں کرے گی، اگر بابری مسجد کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو سپریم کورٹ کا احترام کیا جائے گا۔ شدت پسندانہ بیانات سے کچھ نہیں ہونے والا۔ میرا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی حکومت نہیں جاسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 765224
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش