0
Sunday 3 Feb 2019 13:00
حقیقی مسائل کو اجاگر کرنا ہی سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے

قید و بند سے گھبرا کر دباؤ میں آجانے والا سیاسی رہنماء کہلانے کا مستحق نہیں، مولانا فضل الرحمان

قید و بند سے گھبرا کر دباؤ میں آجانے والا سیاسی رہنماء کہلانے کا مستحق نہیں، مولانا فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ 1953ء میں پیدا ہوئے، 1980ء میں جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل بنے، 1988ء میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے، 2018ء تک رکن قومی اسمبلی رہے۔ 2018ء کے قومی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست سے کامیاب نہیں ہوسکے، 2018ء ہی میں مسلم لیگ نون سمیت اپوزیشن کیطرف سے صدارتی امیدوار بنے۔ 2018ء ہی میں ایم ایم اے کے سربراہ بنے۔ انہوں نے سیاسی کیئریر میں مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا، احتجاجی لانگ مارچ اور مظاہروں کی قیادت کی۔ تمام حکومتوں کیساتھ مفاہمانہ تعلق رکھا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے پہلے دن سے ہی سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کی حکمت عملی اور درپیش مسائل پہ اسلام ٹائمز کا انکے ساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جب سے انتخابات ہوئے ہیں، آپکی کوشش کے باوجود آصف زرداری اور نواز شریف ایکدوسرے کے قریب نہیں آرہے، کیا آپ اپنے اس ہدف میں کامیاب ہو جائینگے یا اب مایوس ہوچکے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 بے شک ابھی تک اس طرح کی کامیابی نہیں ہوئی، ہوئی بھی ہے، لیکن مایوسی تو گناہ بھی ہے اور دنیا امید پہ چل رہی ہے، ورنہ تو یہ زندگی کا نظام رک جائے۔ اب حالات کچھ اس ڈگر پہ جا رہے ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کچھ اور بھی تقاضے ہوتے ہیں، جنہیں سامنے رکھا جاتا ہے، اس وقت ملک کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے بہت تنگ ہے، پریشان ہے، لوگوں کے گھر ڈھائے جا رہے ہیں، غریب دربدر ہوچکے ہیں، کارباور چھین لیے گئے ہیں، ان حالات میں لوگوں کو اپوزیشن سے توقع ہوتی ہے کہ وہ آواز بنیں گے، انکے حقوق کیلئے سامنے آئیں گے۔ بھلے نواز شریف اور زرادری صاحب میرے قریب نہ آئیں، لیکن لوگوں کیلئے اس ملک کیلئے تو اکٹھے ہوں، میری یہی کوشش ہے۔ یہ جب اس چیز کو سمجھیں گے اور جو ہماری ذمہ داری بنتی ہے، اسکے تقاضوں کو پورا کرینگے۔

اسلام ٹائمز: محسوس کیا گیا کہ زرادری صاحب اپوزیشن کے متحد ہونے میں رکاوٹ تھے، صدارتی انتخاب میں بھی انہوں نے آپکا ساتھ نہیں دیا، اسوقت بڑی رکاوٹ کہاں سے ہے۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے بطور دوست مجھے گلے اور شکوہ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے کہ ان دونوں پارٹیوں میں سے کون رکاوٹ ہے، اکٹھے ہونے میں اور کون نہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے گلوں کو روتے رہیں یا ہم نے ملک کے لئے رونا اور کچھ کرنا ہے۔ ملکی حالات کو درست ڈگر پہ لے آنا ہے، لوگوں کیلئے کچھ کرنا ہے، جب بھی یہ بات ہوگی، کسی سیاسی پارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالات کچھ بھی ہوں، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگ جائے، سیاسی رہنماء جیلوں میں چلے جائیں، مارشل لاء لگ جائے، کارکنوں کو بند کر دیا جائے، میڈیا کی آواز دبا دی جائے، کچھ بھی ہو جائے، جمہوری ماحول میں سیاسی عمل کو جاری رکھنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے وجود اور انکی اہمیت کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہ رول پبلک بھی ڈیمانڈ کرتی ہے، چاہتی ہے کہ یہ قائدین کچھ کریں، یہ رول پھر آسان نہیں، یہ نظر آنا چاہیئے، یہ کافی نہیں ہوتا کہ ڈرائنگ روم سے کچھ بیانات داغ دیئے جائیں، بے شک آپ کی بات صحیح بھی ہو، جب تک اس کو پبلک کے سامنے آکر لوگوں کے ساتھ شریک ہو کر بیان نہیں کرینگے، اس کے کوئی نتائج سامنے نہیں آتے۔

اسلام ٹائمز: پہلے زرادری صاحب این آر او کیلئے پرامید تھے، اب شاید شریف برادران کو کوئی امید دلائی گئی ہے، آپکو لگتا ہے کہ اسی وجہ سے شریف برادران زرداری صاحب سے فاصلے پر ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 پھر کہوں گا کہ کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتا، نہ میری یہ عادت رہی کہ اس طرح کے تبصرے کروں، یہ بات تسلیم کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ دونوں کے ایکدوسرے کیلئے اپنی اپنی جگہ پر تحفظات ہیں، وہ تحفظات اتنے بھاری نہیں ہیں کہ ملکی سالمیت کو درپیش سنگین مسائل کو انکی وجہ سے پسِ پشت ڈال دیں۔ ان تحفظات کی ثانوی حیثیت ہے، کچھ چیزیں بالآخر چھوڑ کر آگے جانا ہوتا ہے، جیسے مشرف کے دور مین ان کے درمیان بہت زیادہ تلخیاں تھیں، ماضی سے چلی آرہی تھیں، پھر بھی انہوں نے اتفاق کیا، تحریک چلائی گئی، جو سب نے مل کر چلائی، اسی دوران میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے، اس اختلاف رائے کے باوجود انہوں نے ملک کو ایک سیاسی نظام دیا، یہ طے ہوا کہ اختلاف رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ پہ الیکشن لڑیں گے، لیکن ایکدوسرے کی حکومتوں کو نہیں گرائیں گے، یہ تب ہوتا ہے، جب آپ ملک کو کسی مشکل میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، سیاسی قوتیں جمہوریت کو تسلسل دینا چاہتی ہوں اور کسی بحران سے بچانا چاہ رہی ہوں، میرے خیال میں اس پر ابھی سب کو اتفاق ہے، سب جمہوری نظام کو استوار رکھنے کیلئے قائل ہیں، بالخصوص ان دونوں سیاسی جماعتوں میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ملک کسی بحران کا شکار ہو، یہ بحران آئینی ہو، معاشی ہو، سیاسی ہو یا مارشل لاء لگے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت تو مارشل لاء تھا، جب مشرف کی حکومت تھی، اب تو ملک کسی بحران کا شکار نہیں، جمہوریت ہے، پھر ان جماعتوں کو اکٹھا کرنیکی کیا ضرورت ہے۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 نہیں اکٹھے ہونے کا ایک مقصد ہے، وہ بھی جمہوریت کیلئے ہے، انتخابات کے بعد جو نتائج آئے، اس کو دیکھتے ہوئے، آل پارٹیز اتحاد ہوا، اسکا ایک نام بھی پڑا، تو وہ کیوں بنا، سب جانتے ہیں کہ یہ محسوس کیا گیا کہ ملک کو جمہوری قوتوں کی بجائے باقاعدہ دھاندلی کیساتھ کہیں اور موڑا جا رہا ہے۔ یہ کوششیں اسی شفاف الیکشن کیلئے بنائے گئے اتحاد کے مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے ہیں، فری اینڈ فیئر الیکشن کیلئے۔ اب حالات اتنی جلدی اور تیزی سے بدل رہے ہیں، میڈیا میں نئے سے نئے ایشوز آجاتے ہیں، پہلے والے مسائل اور مشکلات لوگوں کو بھول ہی جاتے ہیں، اب وقت گذرنے سے یہ تو نہیں ہوگیا کہ الیکشن کی عدم شفافیت کا خلاء کہیں سے پر ہوگیا ہو، رائے عامہ کو بنانا، زندہ رکھنا، حقیقی مسائل کو اجاگر کرنا ہی سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔

اسلام ٹائمز: ملکی مسائل جنکا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ بھی تو گذشتہ حکومتوں کے ہی پیدا کردہ ہیں، انکے اکٹھے ہونے سے کونسے مسائل کا حل نکل آئیگا۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 یہ پاکستانی عوام کا حق ہے کہ ان کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہو، وہ بہتر جانتے ہیں کہ کس وقت میں کس کی حکومت قائم ہو، کون ان پر حکومت کرے۔ الیکشن میں جو کچھ ہوا، اس پر سب کا اتفاق ہے، ایک پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے، دوسری کو پنجاب میں اکثریت ملی ہے، اس کے باوجود سب کہہ رہے ہیں کہ الیکشن میں گڑ بڑ ہوئی ہے، لوگوں نے جو رائے دی ہے، اس پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، جب لوگوں کی رائے اور ووٹ کے استعمال کا سوال ہے تو یہ درست نہیں کہ آپ کارکردگی کو سامنے رکھ بات کریں اور لوگوں نے جو حق رائے دہی استعمال کیا ہے، اسے سائیڈ پہ رکھ دیں، کارکردگی کو سامنے رکھ کر قوم نے فیصلہ کرنا ہے، پبلک نے بتانا ہے کہ وہ حکومت کس کو دینا چاہتے ہیں، کسے اقتدار میں لانا پسند نہیں کرتے۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ عوام کا یہ فیصلہ تسلیم کیا جائے، ورنہ سیاسی رہنماؤں اور قائدین کی ذمہ داری ہے کہ میدان عمل میں آکر لوگوں کی اس رائے کا دفاع کریں، تاکہ ملک بحران کا شکار نہ ہو۔ یہ جو درمیان میں خاموشی آئی اور وزارت عظمیٰ اور صدارت کا الیکشن آگیا، اس وجہ سے لوگوں کو محسوس ہوا کہ پہلے والا ایشو اب ایشو نہیں رہا، ہم اسی لیے چاہتے ہیں کہ ملک حقیقی جمہوری روح کیساتھ چلتا رہے، سب لوگ اس بات کو سمجھیں۔ کچھ دوریاں آگئی تھیں، دوبارہ کوشش انکو ختم کرنے کیلئے ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: تو آپکے خیال میں اب ممکن ہے کہ یہ دوریاں ختم ہو جائیں گئیں؟ اگر فرض کریں ایک ہو جاتے ہیں تو کس قسم کی تحریک چلوائیں گے۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے، کوشش تو کرتے رہیں گے، کچھ امکانات پیدا ہوئے ہیں، اب ہم انہیں ختم کرنے کیلئے میاں شہباز شریف سے بھی مدد لے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حالات ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے، لیکن جس رخ پہ حالات جا رہے تھے، کوشش کرینگے کہ اصلاح ہو۔ میاں شہباز شریف لیڈر آف اپوزیشن بھی ہیں، پارلیمنٹ کے اندر بھی بڑا کام کیا جاسکتا ہے، وہ بہترین طریقے سے یہ کرسکتے ہیں۔ اب ہم یہ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام پاڑیز کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ان سے مشورہ لیں، اعتماد کی فضاء دوبارہ بحال کریں۔ مل کر چلیں گے۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے، میرا اپنا کوئی ایجنڈا اور مقصد نہیں، بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بڑی پارٹیاں ہم سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں، تمام پارٹیاں، چاہے چھوٹی ہوں، علاقائی ہوں، صوبائی ہوں، سب ملکر بیٹھیں، سوچیں اور اکٹھے ہو کر ایک کاز متعین کرکے اس کی طرف کوشش کریں۔ یہ جعلی اکثریت رکھنے والی حکومت ملک کو بحرانی کیفیت کی طرف لے جا رہی ہے، اس صورتحال کو بہتر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
 
اسلام ٹائمز: تاثر تو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور تگڑے محاذ کے قیام میں چھوٹے میان صاحب ہی رکاوٹ ہیں، وہ بھی کوئی ڈیل کرچکے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 نہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک خیال ہوسکتا ہے، کسی کا تجزیہ بھی ہوسکتا ہے، ہر کسی سے اپنے انداز میں حالات کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا حق تو نہیں چھینا جا سکتا، ایسا کوئی ثبوت نہیں، جس کو بنیاد مان کر اس مفروضے کی تصدیق کی جاسکے، یہ قیاس آرائیاں ہیں، ظاہر ہے جو لوگ اب کسی نہ کسی طریقے سے حکومت میں آچکے ہیں، وہ بھی کام کر رہے ہیں، انکی بھی کوشش ہوتی ہے، حزب مخالف آپس میں یکجا نہ ہوسکیں، یہ باتیں پھیلائی جا رہی ہیں، ضروری نہیں کہ ان کو سچ مان کر کوئی تبصرہ کیا جائے۔ جو میاں شہباز شریف اس وقت قیادت کر رہے ہیں، یا نواز شریف تھوڑا کم نطر آرہے ہیں، یہ مسلم لیگ نون کا اندر کا مسئلہ ہے، ہمیں اس میں کوئی الجھن نہیں، یہی باتیں اب نواز شریف کیلئے بھی کہی جا رہی ہیں کہ انہوں نے اپنا بیانیہ بدل لیا ہے، ہمیں ان میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، جہاں تک ہمیں معلوم ہے، ان چیزوں میں کوئی صداقت نہیں نظر آئی۔ جس طرح سے نواز شریف کو ہر طرف سے نااہل کروایا گیا یا کیا گیا، وہ پارٹی کا بھی کوئی عہدہ لینے کے قابل نہیں رہے، تب انہوں نے یہ ذمہ داری میاں شہباز شریف صاحب کو دی، کسی نے تو پارٹی کو چلانا ہے۔ اسی بناء پہ وہ پارلیمنٹ میں آئے اور اپوزیشن لیڈر بھی بنے، انکی پالیسی اور بیانیہ نہیں بدلا بلکہ دونوں بھائیوں کی ذمہ داریاں بدلی ہیں، ہم نے تو اپوزیشن کو آگے لیکر چلنا ہے، پارٹیوں کو سنبھالنا اور آگے لیکر چلنا انکے اپنے قائدین کا کام ہے، وہ لیکر چل رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ مان لیا کہ آپکا مسئلہ الیکشن اور اسکے نتائج سے بننے والی حکومت ہے، لیکن باقی دونوں پارٹیاں تو مسلسل لوٹ کھسوٹ میں ملوث رہی ہیں، آپکا مذہبی تشخص اسکی اجازت دیتا ہے کہ آپ ان سے امیدیں رکھیں۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 یہ جو کرپشن کا نعرہ ہے اور ملک لوٹنے کی بات کی جاتی ہے، میرے خیال میں یہ ایک ہتھیار اور کھلونا ہے، جو صرف اور صرف سیاستدانوں کو کان سے پکڑ کر اپنے آگے لگانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مشرف دور میں بھی یہی نعرہ تھا کہ جنرل صاحب ملک کو شفاف بنانے کیلئے آئے ہیں، سب سیاستدان کرپٹ ہیں، ان سے ملکی سیاست کو پاک کرنا ہے، جب سیاستدانوں کو ہی سیاست سے باہر کر دینگے تو سیاست کہاں رہے گی، وہ تو کھلی آمریت بن جائیگی۔ اگر کیسز ہیں، چاہے وہ کسی بھی لیڈر کیخلاف ہیں، انکو پاکستان کے ادارے دیکھیں، میں اور آپ کون ہیں کسی کو مورد الزام ٹھہرائیں، اگر ادارے بلا رہے ہیں تو وہ وہاں جا رہے ہیں، مقابلہ کر رہے ہیں، انہیں بھی آئین اور قانون یہ حق دیتا ہے، لیکن یہ درست نہیں کہ سیاستدانوں کو ٹارگٹ بنا کر میڈیا کے ذریعے ایک فضا بنائی جائے، لوگ کنفیوز ہو جائیں، ایسا ماحول خراب ہو جائے کہ لوگ سیاسی رہنماؤں کے پیچھے تالیاں بجانا شروع ہو جائیں، اس سے کہاں شفافیت آسکتی ہے۔ یہ ساری مہم ایک غلط مقصد کیلئے چلائی گئی ہے، جو ملک کیلئے مہلک ثابت ہوگی، ہم پہلے کئی تجربات کر چکے ہیں، اب پاکستان مزید ایسی آزمائشوں کا متحمل نہیں ہے۔

تمام تر مسائل کی جڑ عوام کی رائے کو پسِ پشت ڈال کر ڈمی حکومتوں کا قیام ہے۔ کیا اس کے اثرات نہیں ہونگے کہ عدالت میں کیس گیا، میاں نواز شریف کیخلاف پانامہ کی بنیاد پر اور فیصلہ آیا عرب امارات میں اقامہ کی بنیاد پر، کیا عدالت کے ایسے فیصلوں کے متعلق لوگ منفی طور پر نہیں سوچیں گے۔ ضرور ان کے غلط اثرات مرتب ہونگے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کیسز کے پیچھے بدنیتی ہے، کسی ایک کے خلاف نہیں ہزاروں لوگوں کیخلاف کیس ہیں، لیکن نشانہ صرف دو پارٹیوں کے قائدین کو بنایا جا رہا ہے۔ اس سیاسی کھیل کو عدالتوں اور نیب جیسے اداروں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔ پرویز خٹک اور بابر اعوان کے کیس کسی خاص وقت میں پی ٹی آئی کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ریزرو رکھے ہوئے ہیں، ان پر اس حکومت کے دوران عملدرآمد نہیں ہوگا، میں کیسز کے حوالے سے اس حکومت کی بات نہیں کر رہا، انکی بات کر رہا ہوں، جو اس حکومت کو جعلی طریقے سے لیکر آئے ہیں۔ انکی کمزوریاں بھی انہوں نے سنھبال کر رکھی ہوئی ہیں، وہ انہیں چھوڑیں گے نہیں، یہ بات عوام کو سمجھانے اور سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف اور زرادری نے تو کرپشن کی ہوگی، لیکن آپ تو سب سے بڑے ناقد ہیں، پھر اگر یہ کیسز ایک ہتھیار ہیں تو آپ کیخلاف کیس کیوں نہیں بنائے گئے۔؟
مولانا فضل الرحمان:
 یہ تو ایک حقیقت ہے کہ مذہبی جماعتوں کا دامن صاف ہے۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ دیگر کرپشن کیسز کی توجہیہ کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے حکومتیں کین ہیں، انہوں نے کرپشن نہیں کی، کچھ فیصلے کیے ہیں، جن کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ حکومت میں جب آپ ہوں تو فیصلے تو کرنے ہوتے ہیں، آپ کی ذمہ داری ہوتی ہے، قانون کے مطابق مثال کے طور پر کوئی الاٹ منٹ کر دی ہے، کسی منصوبے کو شروع کیا ہے، کافی سارے تبادلے ہوتے ہیں، یہ کام ہی ہوتے ہیں حکومت کے، اربوں کی مںظوری ہوتی ہے، لیکن کیا ہوتا ہے، نیب والے آجاتے ہیں، جی آپ نے قومی خزانے میں خیانت کی ہے، ملک کا نقصان ہوگیا ہے، اتھارٹی استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

کچھ خدا کا خوف کریں، ملک کون چلائے گا۔ کوئی اگر اختیار نہیں رکھتا کہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے انجام دے، تو کون حکمرانی کرسکتا ہے، یہ تو صرف روڑے اٹکانے والی بات ہے، لوگوں کو پریشان کرنیوالی بات اور حربے ہیں، تاکہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ کوئی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔ دوسری طرف کیا ہے، کچھ لوگوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ من مرضی سے جو چاہیں کرتے پھریں۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ مجھے گرفتار کیا جا سکتا ہے یا نہیں، کسی سیاستدان کو ڈرایا نہیں جا سکتا، نہ ہی وہ سیاستدان ہے جو سوچتا رہا کہ میں جیل میں یا جیل سے باہر، اس نے فیصلے کرنا ہوتے ہیں، جو ہم کر رہے ہیں، کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
خبر کا کوڈ : 775884
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش