0
Tuesday 5 Feb 2019 10:59
مسلم لیگ نون کا ہر رہنما نواز شریف کے بیانیے کا اظہار کرتا رہیگا

پارلیمانی نظام ختم کرکے صدارتی نظام لانے کی بات کرنیوالے پاکستان سے مخلص نہیں، پرویز رشید

پارلیمانی نظام ختم کرکے صدارتی نظام لانے کی بات کرنیوالے پاکستان سے مخلص نہیں، پرویز رشید
پاکستان مسل لیگ نون کے رہنماء اور سابق وزیر اطلاعات نے اپنے سیاسی کیئریر کا آغاز گارڈن کالج سے کیا، جب انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1997ء سے وہ مسلم لیگ نون کا حصہ بن گئے۔ وفاقی وزیر برائے قانون اور انسانی حقوق رہے، چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن بھی رہے۔ سابق رکن سینیٹ کیساتھ موجودہ حکومت کی کارکردگی، حج پالیسی اور پارلیمنٹ کی موجودہ صورتحال سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ہر طرف موجودہ حکومت کی کارکردگی پر بات ہو رہی ہے، حکومت نے حج اخراجات بڑھا دیئے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے غیر ضروری طور پر حج کیلئے سبسڈی دی، موجودہ خسارہ اتنا زیادہ ہے کہ اب یہ رعایت دینا ممکن نہیں، کیا کہیں گے۔؟
پرویز رشید:
یہ اخراجات اس وجہ سے بڑھے ہیں کہ اچانک انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم کر دی، اسی وجہ سے ادوایات بھی مہنگی ہوئی ہیں، نہ صرف اینٹی بایئوٹیک بلکہ لائف سیونگ ڈرگس بھی انتہائی مہنگی ہوئی ہیں، اسی طرح چونکہ حج میں بھی زرمبادلہ کا عمل دخل ہوتا ہے، بیرون ملک آپ نے لین دین کرنا ہوتا ہے، یہ ڈی ویلیوایشن کے منفی اثرات ہیں، ہم نے اسی وقت اس پر اعتراض کیا تھا کہ اس سے ملک پر قرض کا بوجھ اور مختلف لازمی اشیاء کی لاگت بڑھ جائیگی۔ اب آپ دیکھیں حج ایک ایسا فریضہ ہے، جس کیلئے ایک غریب آدمی محنت مزدوری کرکے جمع پونچی اکٹھی کرتا ہے، انہیں یہ امید ہوتی ہے کہ زندگی کے کسی حصے میں اللہ رب العزت کے گھر کی زیارت اور یہ فریضہ ادا کرینگے۔ اب یک لخت ایک شخص کو یہ پتہ چلے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے لاگت بڑھ چکی ہے، وہ کتنا مایوس ہوا، اس سال تو اسکی حج کرنیکی امید پہ اچانک پانی پھر گیا، اگلے کیا ہوسکتا، یہ اسی طرح اخراجات بڑھاتے رہیں، لوگ محروم ہوتے رہینگے۔ حکومت کو یہ اخراجات برداشت کرکے سبسڈی دینا تھی، انہوں نے آئی ایم ایف کو ناراض نہ کرنیکی خاظر حجاج پر بوجھ ڈالا ہے، یہ صرف آئی ایم ایف پیکج بچا رہے ہیں، انہیں عوام اور حج جیسی عبادت کی پروا نہیں۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ 2018ء چونکہ الیکشن کا سال تھا، اس لئے لیگی حکومت نے جان بوجھ کر لاگت نہیں بڑھائی، حالانکہ اسوقت بھی ریال کی قیمت میں اضافہ ہوا تھا، جس وجہ سے آج یہ مشکل فیصلہ کیا گیا ہے۔؟
پرویز رشید:
یہاں سے ہی تو حکومت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں کی ویلفیئر میں کتنی سنجیدہ ہے، انہیں لوگوں کی فلاح و بہبود کی کتنی فکر ہے، ہم نے اس لیے حج اخراجات میں اضافہ نہیں کیا کہ حج افورڈیبل ہو، زیادہ سے زیادہ لوگ حج کیلئے جا سکیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک، جو مسلمان ملک نہیں ہے، آپ ان مسلمانوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ انکی حکومت انہیں رعایت دیتی ہے، حج انکے لیے آسان ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اخراجات 100 فی صد بڑھے ہیں، انکے ہاتھ میں نہیں، کیا یہ دلیل قابل قبول نہیں۔؟
پرویز رشید:
دیکھیں، انکی تو ہر منطق ہی نرالی ہے، لیکن یہ کوئی آج کی بات نہیں، مسلمان صدیوں سے حج پہ جاتے ہیں، یہ مہنگائی اور اخراجات میں اضافہ تو ہوتا ہے، ہم کیا کہیں گے، اس طرح تو بڑی آبادی کیلئے اتنا مہنگا کر دینگے کہ انکی استطاعت سے باہر ہوتا جائیگا، ایک مسلمان ملک کی حکومت کو اس کا خیال رکھنا چاہیئے، پھر یہ سرکاری حج تو ہے ہی غریبوں کیلئے، جو لوگ زیادہ اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، وہ تو اب بھی دس دس لاکھ کے پیکج پہ جا رہے ہیں، وہ دس دن کیلئے، پندرہ دن کیلئے، حتٰی صرف سات دنوں میں حج کرکے واپس آجاتے ہیں، سرکار کی درمیان میں خدمت اور کام ہی یہی ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کیلئے حج آسان بنائے۔ جن کے پاس پیسے ہیں، انکے پاس تو پہلے ہی سارے آپشن ہیں، غریبوں کیلئے زندگی اور بالخصوص حج کا فریضہ مشکل نہیں بنایا جانا چاہیئے۔ حکومت نے تو ہر طرح سے زندگی اجیرن کر دی ہے، بجلی، گیس، کھانے پینے کی اشیاء، ہر چیز کو عام آدمی کی دسترس سے باہر کر دیا ہے، وہاں تو سعودی عرب یا کوئی دوسرا ملک کوئی دخل اندازی نہیں کر رہا۔

یہ عذر قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے ان لوگوں پر شب خون مارا ہے، جو غریب بھی ہیں اور عمر کے اس حصے میں ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ جیسے انہون نے حج کیلئے جانا ہوتا ہے، اسی طرح زیادہ عمر کے لوگوں کو ادویات کی بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جو مہنگی کر دی گئی ہیں۔ ساری زندگی تو انکی بچوں کی شادیاں کرنے اور انہیں گھر بنا کر دینے میں گذر جاتی ہے، تعلیم، صحت اور رہائش میں بھی حکومت انکی کوئی مدد نہیں کرتی، وہ بڑی سخت زندگی گذار رہے ہوتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ اس کا حل نکالا جائے۔ اس پوری جدوجہد میں جن غریبوں نے حج کیلئے پیسے جمع کیے ہیں، اس مہنگائی کے دور میں کس طرح اتنی بڑی رقم کا انتظام کرسکتے ہیں۔ حکومت نے تو لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، جس کا بل دو ہزار آتا تھا، وہ تیس ہزار روپے کا بل ہاتھ میں تھامے روتا پھر رہا ہے۔ یہ سب بہانے اور سمجھ میں نہ آنے والی باتیں ہیں، یہ کسی کے اشارے پر یہ اقدامات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ ہماری اکانومی کمزور ہے، وہ اسکا بوجھ نہیں برداشت کرسکتی، پھر وہ کیسے پورا کرسکتے ہیں۔؟
پرویز رشید:
یہ تو کوئی بات نہیں، حج پہ جانیوالے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، پوری قوم تو حج پہ نہیں جاتی، ایک دفعہ ہی۔ ہماری اکانومی کا مجموعی حجم اس سے بہت بڑا ہے، یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ پوری اکانومی پر اسکا اثر ہوگا، وہ تو پوائینٹ زیرو زیرو کچھ فیصد حجاج کی تعداد بنتی ہے، ساری آبادی کا بالکل چھوٹا ترین حصہ۔ ویسے بھی حکومتیں یہ کام کرتی ہیں کہ مذہبی فرائض کو آسان بناتی ہیں، کرسمس دیکھ لیں، سب کچھ سستا کر دیتے ہیں، بلکہ غیر مسلم ممالک میں رمضان میں بھی آسانی پیدا کر دی جاتی ہے۔ یا ہمارے بھی اپنے اخراجات ہوتے ہیں، لیکن مساجد اور مذہبی کاموں میں حصہ ڈالتے ہیں، اسے صرف اکانومی سے جوڑنا درست نہیں، مسلمان ملک کی مسلمان حکومت کی ذمہ داری سے گریز نہیں کرنا چاہیئے، دل کھلا رکھنا چاہیے۔

بے آسراء اور بے کس لوگوں کی امداد کی بات کی جاتی ہے اور نعرہ ریاست مدینہ کا لگایا جا رہا ہے، اس سے زیادہ قابل افسوس کیا ہوسکتا ہے، لوگوں کو مکہ مدینہ جانے کا سلسلہ ہی مشکل بنا دیا جائے۔ پوری دنیا میں مذہبی مقامات اور مذہبی رسوم اور فرائض کیلئے مل جل کر اخراجات برداشت کئے جاتے ہیں، حکومتیں بھی فنڈنگ کرتی ہیں۔ اس سے معاشرے میں اطمینان اور سکون کی کیفیت رہتی ہے۔ یہ اتنی بڑی رقم نہیں ہے کہ جس سے پاکستان کا معاشی مسئلہ سنگین ہو جائے۔ انہیں جو احکامات ملے ہیں، اصل میں بات وہی ہے کہ روپے کی قیمت گھٹائیں اور سبسٹڈیز ختم کریں، یہ اسی پہ عمل کر رہے ہیں، انکے آگے بولنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ظلم تو یہ ہے کہ انڈیا، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی ہمارے روپے کی اوقات نیچے چلی گئی ہے۔ پہلے بھی انہوں ڈیکٹیشن مانی ہے، پھر قوم کیساتھ مذاق کرتے ہیں کہ مجھے تو ٹیلی ویژن سے پتہ چلا ہے۔

اگر نیت درست بھی ہے تو یہ طریقہ کار ٹھیک نہیں، اس طرح حکومت نہیں چلائی جا سکتی ہے۔ بولڈ فیصلے کریں، ٹیکس نیٹ بڑھائیں، آمدن میں اضافہ کریں، درآمدات بڑھائیں، لیکن اس طرح کی حرکات نہ کریں، اس سے لوگوں میں بے چینی اور مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکس بھی لگائیں، لیکن ڈائریکٹ ٹیکس لگائیں، ایک جھونپڑی میں کھانا کھانے والا ٹیکس دے رہا ہوتا ہے، لوگوں کو پتہ تو چلے کہ ہمارے اوپر کتنا ٹیکس لگا ہوا ہے، اندھیرے میں نہ رکھیں، لوگوں کی بھی خواہش ہے کہ ریاست اور حکومت میں غیر ضروری اخراجات نہ ہوں۔ حج تو ہر مسلمان کی آرزو ہے، اسے تو بخش دیں۔ اپنے اثاثے، جائیداد اور جانور بیج کے حج اخراجات جمع کرنیوالا ایک دم کیسے اضافی رقم جمع کروا سکتا ہے۔ حکومت یہ زیادتی کر رہی ہے، پاکستان کی مشکلات کا حل اس میں ہے کہ مالیاتی اداروں سے ڈکٹیشن لینے کی بجائے اپنے سسٹم کو ٹھیک کریں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ پہلے ہم معیشت کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرینگے، اسکے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانیکی ضرورت پڑی تو جائینگے، کیا اسطرح آئی ایم ایف کی شرائط نرم ہو جائینگی؟
پرویز رشید:
یہی تو بات ہم کر رہے ہیں کہ بے شک معیشت کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا چاہیئے، لیکن اسکی قیمت یہ نہیں ہونی چاہیئے کہ غریب زندگی سے عاری ہو جائے، ان کے لیے سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے۔ اکثریت تو ایسی ہی ہے ہمارے ملک میں، جو بنیادی ضروریات بمشکل پوری کر پاتے ہیں، ان کی مجبوریوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیئے۔ اگر غریب کو کچل کر اکانومی نے کھڑے ہونا ہے تو یہ قابل قبول نہیں۔ یہ جو منی بجٹ لیکر آئے ہیں، اس میں کیا ہے غریب کیلئے، بس وہی بزنس گروپس کو اکاموڈیٹ کیا گیا ہے، سرمایہ داروں کی لابیز نے کام کیا ہے، انہوں نے ہی سارا مال لپیٹ کے لیجانا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر منی بجٹ میں غریب کیلئے کچھ نہیں، تو کیا اپوزیشن باقی سیاسی ایشوز کیطرح اس پر بھی حکومت کو ٹف ٹائم دیگی۔؟
پرویز رشید:
جی بالکل، انہوں نے تاریخ میں پہلی بار ایسا کیا ہے کہ بجٹ پیش کرکے، اسکی منظوری کیلئے اجلاس طلب ہی نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم بالکل ایسا نہیں ہونے دینگے۔ یہ تو یہی چاہتے ہیں کہ اس پر کوئی بات ہی نہ ہو، یہ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ بیرونی ڈکٹیشن پہ چل رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اجلاس تو اس لئے موخر کیا گیا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کا ماحول خراب کر دیا تھا؟ کیا پبلک اکاونٹس کمیٹی کا ماحول بھی اسی شور شرابے کی نذر ہوجائیگا۔؟
 پرویز رشید:
 بہانہ انہوں نے بنایا کہ پارلیمنٹ کا ماحول بہتر نہیں تھا، حالانکہ پارلیمنٹ کا ماحول خراب کرنے میں انکی نیت یہی تھی کہ سنجیدہ معاملات پہ بات نہ ہوسکے۔ اسی طرح یہ آئینی اداروں اور باڈیز کو سیاست کی نذر کر رہے ہیں، اب دیکھیں شیخ رشید صاحب کہتے ہیں کہ آڈٹ میں کرونگا، یہ بھی کوئی بات ہے کرنیوالی، یہ تو صرف ماحول کو کشیدہ بنانے کے بہانے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شیخ رشید کے پی اے سی کا ممبر بن جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟
پرویز رشید:
کیوں نہیں فرق پڑتا، کہنے کو تو الیکشن سے پہلے بھی پی ٹی آئی نے بہت باتیں کی تھیں، لیکن باتوں اور عمل میں فرق سے پتہ چلتا ہے کہ کون کتنا مخلص ہے اور کارکردگی دکھا رہا ہے۔ ایک طرف یہ پارلیمنٹ اور قانون سازی کی بات کر رہے اور دوسری طرف ایک ایسے شخص کی وکالت کر رہے ہیں، جو صرف فتنہ پرور ہے، یہی اسکی خصوصیت ہے۔ حکومت کی باتوں اور عمل میں تضاد صاف نطر آرہا ہے۔ الزام انہوں نے اپوزیشن پہ لگایا ہے کہ ہم ہنگامہ آرائی کرتے ہین، ہمیں پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے، جسے انہوں نے متعارف کروایا ہے، تمام پارٹیز میں مزاحمتی اور مفاہمتی افراد ہوتے ہیں، جو ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں، ان دونوں کا طریقہ کار ہوتا ہے، ایک قاعدہ ہوتا ہے، آخر پارلیمنٹ ہے، کچھ اس کے آداب بھی ہیں، اختلاف کرنے کے بھی اور مذمت کرنے کے بھی، اختلاف رائے اپنی جگہ پہ ہوتا ہے۔ اگر شیخ رشید صاحب اس اخلاق اور آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرسکتے ہوں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اس کی حدود ہوتی ہیں، انہوں نے جو طرزعمل اپنا رکھا ہے، اس میں کوئی حدود اور لمٹ ہی نہیں، ہر حد پھلانگ چکے ہیں۔ انہوں نے نیا کلچر متعارف کروایا ہے، یہ سب ماحول کو فرسودہ بنا رہے ہیں۔ پہلے شیخ رشید صاحب کہتے تھے، یہ پی اے سی ہے ہی غلط۔ حکومت میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں، جو اچھی طریقے سے بات کرتے ہیں، لیکن جہان تک شیخ رشید کا تعلق ہے، انکا تعارف ہی ایسا ہے کہ مناسب انداز میں گفتگو نہیں کرسکتے۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں، جو ماحول کو خراب کرنیکے لیے آتے ہیں پارلیمنٹ۔ یہ ماحول جان بوجھ کر خراب کرتے ہیں، تاکہ لوگوں کی توجہ ہٹی رہے، بنیادی مسائل سے، کوئی ان پر اعتراض نہ کرسکے۔ یہ اندر ہی اندر جو احکامات اور ڈیکٹیشن انہیں ملی رہی ہے، اس کے مطابق کام چلاتے رہیں۔ شیخ رشید صاحب کو ایک مہرے کے طور پر سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ پی اے سی کی کارروائی موثر انداز میں چل ہی نہ سکے۔

کیونکہ ان لوگوں سے پی اے سی نے پوچھنا تو ہے، جو کچھ یہ کرنے جا رہے ہیں۔ آڈٹ تو ہونا ہے اور موجودہ حکومت کا بھی ہونا ہے۔ اس کے لیے سنجیدہ ماحول چاہیئے، جس سے یہ لوگ پریشان ہیں۔ کیونکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کا کام ہی یہی ہے، پبلک کے بارے میں یا پبلک کیلئے جو بھی اکاونٹس ہیں، انکے بارے میں باز پرس کریگی، انہیں کی چھان بین کریگی، سوالات اٹھائے گی، انہیں اس سے گھبرانا نہیں چاہیئے۔ شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ وہ شہباز شریف کے بارے میں فنڈز پر تحقیقات کریں گے، سوال یہ ہے کہ اور ادارے کیا نہیں کر رہے یہ کام، پہلے ہی ایف آئی اے، نیب سب ادارے یہ کام کر رہے ہیں، پھر اسکا کیا مطلب ہے، یہی مقصد ہے کہ شہباز شریف کو حکومت اور حکومتی منصوبوں کا آڈٹ نہیں کرنے دینا، اگر آڈٹ نہیں ہوگا تو اس کا یہی مطلب لیا جائیگا کہ کرپشن ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیر ریلوے کا موقف ہے کہ میاں شہباز شریف نیب زدہ ہیں، اس لئے انہیں پبلک اکاونٹس کی رکھوالی کا حق نہیں، وہ زیر تفتیش ہیں، کیا انکا موقف اصولی طور پر درست نہیں۔؟
پرویز رشید:
 المیہ یہ ہے کہ کرپشن زدہ لوگ اب دوسروں کو کرپٹ کہہ کر اپنی کرپشن کو چھپانا چاہتے ہیں۔ پبلک فنڈ چونکہ جو حکومت چل رہی ہوتی ہے، وہی استعمال کرتی ہے، اسی پر نظر رکھنی ہے پی اے سی نے، جو آئینی کام ہے۔ شیخ رشید جیسے لوگ شور مچا کر ملک کا نقصان کر رہے ہیں، پارلیمانی اور آیئنی اداروں کی بے توقیری ہو رہی ہے۔ اس کمیٹی کا کام تو چلتی گورنمنٹ کے کاموں پر چیک رکھنا ہے، یہ اسی لیے ہر بات کو ماضی میں لیجاتے ہیں، تاکہ ان کی سرگرمیوں، نااہلیوں اور خرابیوں پر کوئی چیک نہ رہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اس دور حکومت کی بے قاعدگیاں کا کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ ماضی میں ہونیوالے کاموں کو چیک کرنا دوسرے اداروں کا کام ہے، پی اے سی کا نہیں۔ یہ ہاوس کو اکھاڑا بنا کر کام نہیں کرنا چاہتے۔ ہاوس کو اکھاڑا بنانے کیلئے ان کے پاس دو چار پہلوان ہیں، چوہدری فواد صاحب ہوگئے، فیاض چوہان اور شیخ رشید اس کام کیلئے ہیں۔ ان کے پاس بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں کہ چھ ماہ میں ہاوس میں کیا کام ہوا ہے۔ کونسی مثبت چیزیں پیش کی ہیں، کونسی چیزیں زیربحث لائی گئی ہیں۔

لیڈر آف دی ہاوس نے پہلے دن سے ہی جو تقریریں کی ہیں، وہ کسی پارلیمانی معیار کی نہیں ہیں، ہاوس میں روایات بنتی ہیں، بعد کے لوگ ان روایات کی پیروی کرتے ہیں، انکا حوالہ دیتے ہیں، سوائے پارلیمنٹ میں تند و تیز اور سخت باتوں کے ہاوس کو یرغمال بنانے کے، انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، نہ ہی یہ اس پوزیشن میں ہیں۔ دیکھ لیں ہاوس نے اپنی ڈیبیٹ، سارا بزنس، وقفہ سوالات، سب کچھ چھوڑ دیا ہے، حکومتی بنچوں کے چند افراد ایسا ماحول بنانے پہ لگ گئے ہیں کہ ہاوس لوگوں کو مچھلی بازار نظر آنے لگا ہے۔ لوگوں نے تو منتخب کیا ہے کہ قانون سازی کریں اور لوگوں کیلئے آواز اٹھائیں، یہ تو دونوں میں سے کوئی کام نہیں کرنے دے رہے، ان کے پاس عددی اکثریت چند ارکان کی ہے، یہ سوچ بھی لیں تو قانون سازی کے عمل کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔

وہ بھی ان سے اکثر ناراض رہتے ہیں۔ قاف لیگ، ایم کیو ایم، بی این پی، کسی ایک کو مناتے ہیں تو دوسرا ناراض ہو جاتا ہے، ان سے کسی قیمت پر ہاوس نہیں سنبھالا جا رہا۔ ان کے پاس کام کیلئے بھی کچھ لوگ ہیں، جو دوسری پارٹیوں کو منا کر لاتے ہیں، لیکن وہ اے ٹی ایم مشین پارلیمنٹ سے باہر ہے، باقی بچ جاتے ہیں شیخ رشید جو انکا کل اثاثہ ہیں، جس کا دوسرا نام طوفان بدتمیزی ہے، جس کا دوسرا کوئی کام نہیں۔ ہم اچھے کی امید رکھتے ہیں، شہباز شریف صاحب کو حکومت چلانا آتا ہے، دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے اندر اگر کوئی شخص گورننس جانتا ہے تو وہ شہباز شریف ہیں۔ انکی رفتار اور انکے کام کو سب جانتے ہیں، اسی لیے یہ لوگ میاں شہباز شریف سے خائف ہیں، مجھے یقین ہے کہ جب وہ چیئرمین پی اے سی ہونگے تو جو شرارتی لوگوں کو لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

اسلام ٹائمز: جب شہباز شریف کے لیڈرشپ اسکلز پر اتنا اعتماد ہے تو پھر رانا ثناء اللہ اور سعد رفیق کو پی اے سی میں لانے کی بات کیوں جاتی ہے۔؟
پرویز رشید:
کمیٹی کے ممبر پورے ہوچکے تھے، پھر ایک نئے سرے سے پنڈورہ بکس کھول دیا گیا، شیخ صاحب کی جانب سے، حالانکہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ طبیعت والے ممبرز آچکے تھے، کام چل رہا تھا، انکو ہٹانا شروع کر دیا، پھر شریر لوگوں کو نامزد کرنا شروع کر دیا، جو ماحول خراب کرنیکے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ اس سے دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی بات کرنا شروع کی، تاکہ حکومت کی اس منفی پیش قدمی کو روکا جائے، لیکن خان صاحب ڈٹے ہوئے ہیں شیخ رشید کے نام پہ۔ اس کی ابتداء حکومت نے کی ہے، رانا ثناء اللہ صاحب اگر کہہ رہے ہیں تو یہ انکا سیاسی ردعمل ہے، وہ سیاستدان ہی بات کرسکتے ہیں، پارٹی پالیسی اور چیز ہے، یہ مسلم لیگ نون کی طرف سے نام نہیں لیا گیا، نہ ہی نامزد کیا گیا ہے، وہ خود اپنے طور پر ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ سعد رفیق صاحب کو دیکھ لیں وہ تو مفاہمانہ بات کر رہے ہیں، وہ بے ادب نہیں ہیں۔ شیخ رشید تو کہتے ہیں کہ وہ یہ کر دینگے اور وہ کر دینگے۔

اسلام ٹائمز: کمنٹس دیجیئے گا کہ حکومت کی وضاحت کے باوجود پیپلز پارٹی کیوں کہہ رہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔؟
پرویز رشید:
دیکھیں، اس پہ اگر بات کریں تو ہم نے اس حکومت کو ایسی چیزوں پہ یوٹرن لیتے ہوئے دیکھا ہے، جن پہ وہ پہلے وضاحت کرچکے ہوتے ہیں۔ لیکن انکے پاس اتنی طاقت نہیں، ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اس کام کو مکمل کرچکے ہوتے، کبھی کبھی وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ یہ ترمیم پہلے بھی پارلیمنٹ نے کی تھی، ایک اور ترمیم بھی لائی جا سکتی ہے، ان کے پاس کیپیسٹی نہیں ہے، یہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں، یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی یا بلاول بھٹو زرداری کے تحفظات درست ہیں۔ پی ٹی آئی کے ذمہ دار لوگوں نے اس پر تحریریں لکھی ہیں، جو انکے تھنک ٹینک سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی لیڈرشپ بھی اس ترمیم کے متعلق بات کرچکی ہے، انکے وزراء نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے، ایسے اشارے دے چکے ہیں کہ یہ اٹھارویں ترمیم سے خوش نہیں ہیں اور اسکو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بات بلیک اینڈ وایئٹ میں کر دیجائے یا لکھ دی جائے، کچھ چیزیں جو آپ کر رہے ہوتے ہیں، اس سے بھی اندازے میں آجاتی ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں اگر سندھ کہہ رہا ہے تو انکی بات سنی جانی چاہیئے، بجٹ کے بغیر وہ کیسے ڈیلیور کرسکتے ہیں۔ یہ سندھ میں گورنر راج کی کوشش بھی کرچکے ہیں، وہ تو عدلیہ نے روک لگا دی۔ اگر ان کے ارادے ٹھیک ہیں تو این ایف سی کی میٹنگ میں سب وزرائے اعلیٰ کو بلا کر بیٹھ کر بات کریں، حکومت جو کام بیک ڈور ذرائع سے کرنا چاہ رہی ہے، یہ درست نہیں۔ اگر ایسا کچھ نہیں تو وزیراعظم کیوں نہیں کہتے، پھر یہ وفاق کو خود لیکر گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ہسپتالوں کے ایشو پر، اس سے ظاہر ہوتا ہے، یہ اٹھارویں ترمیم کو زک پہنچانا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کے علاوہ کوئی بھی ادارہ، نہ انتظامیہ نہ عدلیہ، آئین کے کسی ایک فل اسٹاپ، ایک لفظ، کسی آرٹیکل، یا کسی حصے کو نہیں تبدیل کر سکتے، نہ ختم کر سکتے ہیں۔

اگر عدلیہ فیصلہ دے بھی تو مانا نہیں جائیگا، آئینی بحران پیدا ہوگا، دوسری طرف صوبے تنگ اور بیزار ہیں، انکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ صوبوں کو انکا حق ملنا چاہیئے۔ انکی پریشانی کا ازالہ ہونا چاہیئے، ورنہ بنگال کے حالات ہمیں یاد رکھنا چاہیئں کہ انہی محرومیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ سندھ اگر جھگڑا کر رہا ہے تو انکی بات سنی جانی چاہیئے۔ عمران خان تو صدارتی نظام چاہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انہیں پارلیمانی نظام پسند نہیں، کیونکہ یہ پارلیمانی نظام میں اٹھارویں ترمیم کے خاتمے جیسے اقدامات نہیں کرسکتے، آئین کی رو سے یہ ترمیم کا کام پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے، یہ صدارتی نظام ترقی اور پاکستان کی خوشحالی کیلئے نہیں بلکہ اجارہ داری کیلئے پسند کرتے ہیں۔ یہ وفاق کو توڑ دینگے، صوبوں کو پوچھیں گے بھی نہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کیساتھ مخلص نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کیجانب سے مسلم لیگ نون کے این آر او سے متعلق بیان پر کیا کہیں گے۔؟
پرویز رشید:
 ڈیل کی باتیں ہمارے مخالفین کی جانب سے کی جا رہی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم نے سیاست میں شرپسندی کا عنصر پیدا کیا ہے۔ ڈیل کرنا نواز شریف کے مؤقف کی توہین ہے۔ ان کی پارٹی کے کسی ذمہ دار رہنما نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، یہ ایک انفرادی شخص کی شرارت ہے۔ مخالفین جان چکے ہیں کہ نواز شریف پر چلائے جانے والے مقدموں میں کچھ نہیں نکلا اور وہ جلد ان صعوبتوں سے نکل جائیں گے، اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا ہر رہنما نواز شریف کے بیانیے کا اظہار کرتا رہیگا، یہ تاثر غلط ہے کہ وہ خاموش ہیں۔ ہمیں نواز شریف کی صحت سے متعلق تشویش ہے، سروسز اسپتال میں کارڈیالوجسٹ کا شعبہ ہی نہیں ہے، جبکہ میڈیکل بورڈ میں بھی کوئی دل کا ڈاکٹر موجد نہیں، ایسا کہاں ہوتا ہے۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار پنجاب اور وفاقی حکومت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 776169
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش