0
Saturday 9 Feb 2019 20:47
امریکہ افغانستان سے انخلاء کے ذریعے شکست چھپانا چاہتا ہے

ایٹمی ڈیل میں ایران کو دھوکہ دینے کیوجہ سے کوئی امریکا پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں، بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

ایران کو نظر انداز کرکے افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا
ایٹمی ڈیل میں ایران کو دھوکہ دینے کیوجہ سے کوئی امریکا پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں، بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
معروف تجزیہ نگار اور دفاعی اداروں میں شاندار کیریئر کے حامل بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی، ٹی وی چینلز اور اخبارات سمیت متعدد فورمز پر ملکی حالات اور بین الاقوامی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ انکے ساتھ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے اعلان، افغان امن مذاکرات اور خطے کی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا افغان جنگ اب مکمل طور پر اختتام پذیر ہوچکی ہے یا جلد ختم ہونیوالی ہے۔؟
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی:
ابھی تو بات چیت شروع ہوئی ہے، ان مذاکرات کا چند برس بلکہ چند ماہ بیشتر امکان نہیں محسوس ہوتا تھا، امریکا سارا الزام اور بدنامی پاکستان پہ دھرتا رہا کہ طالبان سے مراد حقانی نیٹ ورک ہے، جو دہشت گرد تنظیم ہے اور پاکستان کو گڈ اور بیڈ طالبان کے طعنے بھی دیتا تھا۔ یہ اصطلاح پاکستان میں بھی استعمال ہوتی تھی، پاکستان کا موقف تھا کہ گڈ طالبان سے ہماری مراد وہ طالبان تھے، جو مذاکرات کی میز پہ آسکتے ہیں، جبکہ بیڈ طالبان وہ گروہ تھے، جو بات چیت نہیں کا نام لینا پسند نہیں کرتے۔ ان مذاکرات پر پوری دنیا نے نظریں جما رکھی ہیں، اس طویل جنگ کے خاتمے کے لئے فریقین نے باہمی رضا مندی سے ڈرافٹ پر بھی اتفاق کر لیا ہے، یہ ساری خبریں ہیں، ہوسکتا ہے، مزید انتظار کرنا پڑے۔

افغانستان پر یلغار کے وقت امریکا نے سمجھا کہ طالبان چند برسوں میں ہتھیار پھینک دیں گے اور وہ اپنی شرائط منوالیں گے، امریکہ نے وہاں بمباری کی، تمام بمبوں کی ماں، بم بھی وہاں استعمال کیا، وہ تاریخ کا سبق نہیں سیکھے، افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ امریکا کے اندازے غلظ ثابت ہوئے اور ان کے پاس وہاں سے نکلنے کی کوئی حکمت عملی بھی تھی تو وہ اسی تناظر میں بنائی گئی تھی، لیکن وہ ناکام ثابت ہوئی، اب اس نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کیلئے وہ کوشش کر رہا ہے، لیکن انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے نکلیں، لیکن وہ اپنا مفاد ہر صورت میں ملحوظ رکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: چند ہفتوں کے اندر ہی دیکھتے ہی دیکھتے امریکی حکام کے رویئے میں اچانک تبدیلی آئی ہے، یہ کیسے ممکن ہوا۔؟
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی:
امریکیوں کی خصوصیت ہے کہ وہ رنگ بدلتے رہتے ہیں، اس میں اگر کوئی شک تھا تو وہ ٹرمپ کے یوٹرنز کی وجہ سے مکمل طور پر اب دور ہو جانا چاہیئے، لیکن افغانستان کے حوالے یہی ابھی دیکھنا ہے کہ امریکا کے رویئے میں تبدیلی کیوں آئی ہے۔ یہ ایک اصول ہے کہ بین الاقوامی معاملات ہوں یا علاقائی معاملات، ہمیشہ زمینی حقائق ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ افغانستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ 18برس بعد بھی امریکا وہاں اپنے قدم نہیں جما سکا۔ امریکا نے وہاں افغانستان کے لوگوں پر مشتمل حکومت بنانے کی کوشش کی، مگر یہ تجربہ بھی ناکام رہا۔

اسلام ٹائمز: جب بھی افغان امن مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو صرف طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا غلغلہ مچ جاتا ہے، کیا طالبان کے علاوہ افغان فریقین کو کوئی اہمیت نہیں دیجائیگی۔؟
 بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی: افغانستان بے شک کئی دہائیوں سے مختلف طاقتوں کے مفادات کی جنگ دیکھ رہا ہے، یہ سرزمین کئی اقوام کا میدان جنگ بنا ہوا ہے، ان بیرونی وجوہات کے ساتھ وہاں کی داخلی حالت کا جائزہ بھی ضروری ہے۔ نیٹو افواج، طالبان اور افغان حکومت تین فریق ہیں۔ افغانستان کی آبادی کئی نسبتوں سے اب تبدیل ہوچکی ہے۔ افغانی نوجوان، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کی ایک بڑی نمائندگی ہے اور وہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ گذشتہ دو دہاہیوں میں امریکا نے غنڈوں اور بدمعاشوں کو سپورٹ کرکے افغانستان کی حکومت بنائی، جو کرپٹ لوگ ہیں۔ نہ تو قومی فوج ہے، نہ پارلیمنٹ، نہ عدلیہ، نہ ہی قومی ادارے۔ اس ساری صورتحال میں صرف طالبان کا امریکا سے اتفاق کافی نہیں ہے، جنہیں 18 برسوں سے امریکا کی مدد حاصل رہی اور انہوں نے حکومت میں رہ کر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا، کیا وہ اپنی اجارہ داری چھوڑ دیں گے، اصل بات اب یہ ہے کہ وہ امریکا کی بات کس حد تک مانیں گے؟ اسکا مطلب ہے کہ طالبان کے بعض گروہ بھی امریکا سے اختلاف کریں گے۔

طالبان کے علاوہ جو افغانی گروپس ہیں، انکے آپس میں بھی اختلافات ہیں، وہ مختلف طاقتوں سے وابستہ ہیں۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی موجودہ حکومت ہمارے سامنے ہے۔ افغانستان میں مخالف قوتیں ایک دوسرے کو ماننے کیلئے تیار نہیں، مگر امریکا نے مشترکہ حکومت کا فارمولا دے کر انہیں اقتدار میں شریک بنایا، جس میں عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹیو اور اشرف غنی کو صدر بنا دیا۔ افغانستان کے انتخابات آرہے ہیں، موجودہ صدر کہتے ہیں کہ وہ 15 رکنی کابینہ بنائیں گے، جو طالبان سے مذاکرات کرے گی، جبکہ امریکی فوج کا انخلا 5 برسوں میں ہوگا۔ اس وقت افغان حکومت میں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں، جو دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت مذاکراتی عمل میں تاخیر چاہتی ہے۔

داعش فیکٹر بھی موجود ہے، طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں داعش نہیں ہے، لیکن داعش را کی مدد سے افغان حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہے۔ بظاہر طالبان اور داعش کا نظریہ ایک ہے، طالبان نہیں چاہتے کہ کوئی ایسی طاقت افغانستان آئے، جو ان کی طاقت کو چیلنج کرے، انکے اقتدار میں شریک ہوسکے، ویسے بھی داعش کے پیچھے انڈیا اور امریکہ ہیں، اب انڈیا کا عمل دخل ختم ہو رہا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی فتح ہے کہ اب ہمارے سامنے کوئی چیلنج نہیں، پاکستان کی نیک نیتی بھی سب کو ماننا پڑے گی، جو ہمارا پہلے موقف تھا، وہ اب ثابت ہوچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی افواج کے انخلاء بعد افغانستان میں سیاسی استحکام کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیئے۔؟
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی:
یہ طریقہ کار ابھی طے ہونا باقی ہے، جو سب سے حساس مسئلہ ہے، بعض افراد کی رائے ہے کہ یہ امریکہ کی موجودگی سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل بحث ہے، لیکن حل طلب ہے، امریکا کو افغانستان میں صلح کا فارمولا دینا ہوگا، جس میں واپسی سمیت بنیادی ڈھانچہ شامل ہو۔ جو آئین ہوگا، کون سے ادارے ہوں گے اور کس ادارے کے پاس کتنے اختیارات ہوں گے۔ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے گروپوں کا مختلف علاقوں پر کنٹرول ہے، وہ ایک دوسرے کے کردار کو کس طرح تسلیم کریں گے۔ فیڈریشن ایک حل ہے، جس میں صوبے بنا دیئے جائیں۔ روس نے افغانستان میں ایڈمنسٹریٹیو ڈھانچے کو مرکزی حیثیت دی اور سارا نظام تباہ کر دیا، جس کے بعد  وہاں سیاسی طور پر استحکام نہیں آیا۔

فیڈریشن کا ڈھانچہ دینا پڑے گا، لیکن امریکا کے پاس اتنی طاقت کہاں ہے اور اس کی نیت کیا ہے؟ طالبان جب مضبوط تھے تو قندھار سے کابل تک ایک بھی بڑی لڑائی نہیں ہوئی اور لوگ ان کے ساتھ ملتے گئے۔ افغانستان کا تقریباََ 70 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے، جس کی آبادی 15 ملین ہے، جو افغانستان کی کل آبادی کا 50 فیصد ہے، جبکہ گذشتہ 6 ماہ میں 7 لاکھ لوگ افغان حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے طالبان کے علاقوں میں ہجرت کر گئے ہیں، جن سے طالبان کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اب فقط طالبان یا دوسرے گروپ مل کر کس حد تک اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے، بحران کو حل کرنا کافی مشکل ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا امریکی افواج مکمل طور پر افغانستان کو چھوڑ دینگی، جبکہ وہ عراق سے نہیں جا رہے، تاکہ ایران پر نظر رکھ سکیں۔؟
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی:
امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مکمل طور افغانستان سے نہیں جائیں گے، انہوں نے وہاں سات بیس بنائے ہوئے ہیں، جن میں سے وہ 2 بیسز قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہاں جو جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے، اس کے ذریعے ہائیڈرو کاربن کے ذخائر پر قبضہ رکھیں گے۔ پسِ پردہ یہ طے ہوچکا ہے کہ امریکا یہاں سے اپنی فوج نکال لے گا، لیکن دو بیسز یہاں موجود رہیں گی، جس کو وہ کسی کے حوالے نہیں کرسکتا۔ یہ امر بھی مدنظر ہے کہ امریکی فوج کے فوری انخلاء سے خطے کو نقصان ہوگا۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں کیا نظام چھوڑ کر جائے گا اور اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔ امریکا کا سابق ریکارڈ خصوصاََ ایران کے ساتھ معاہدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے کوئی بھی امریکا پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کوئی امریکا کی سپورٹ میں طالبان کو شرائط تسلیم کرنے کیلئے رضامند کرنے پر تیار ہے۔

روس کے انخلاء کے وقت پاکستان امریکہ  کا اتحادی تھا، لیکن اب تو خطے کے ممالک بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، کیا حالات مختلف اور بہتر نہیں ہوجائیں گے۔؟
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی:
یہ بالکل درست ہے، افغانستان کے مسئلے کا پڑوسی ممالک کو ملا کر علاقائی حل ہونا چاہیئے اور دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو صرف اس کا ایک فریق ہونا چاہیئے۔ افغانستان کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے، امریکا میں اب اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ افغانستان کی صورتحال کو سنبھالے۔ شاید یہی وجہ ہے اب امریکا بطور سپر پاور اپنی ساکھ بچانے کیلئے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، مگر اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا پاکستان کو محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں اکیلئے اس مسئلے میں پڑنے کے بجائے روس، چین، ترکی اور ایران کو بھی شامل کرنا ہوگا، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ممکنہ طور پر ہونے والی کسی بھی خرابی کا ذمہ دار اکیلے پاکستان کو نہیں گردانا جا سکے گا۔

ایران کو نظر انداز کر رہے ہیں جو ٹھیک نہیں، ایران کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا، اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ سوریہ میں ترکی، ایران اور روس نے اہم کردار ادا کیا، حالانکہ شروع میں ان کے اختلافات تھے، مگر بعد میں انہوں نے مسئلہ حل کیا۔ افغانستان کے مسئلے میں انہیں اکٹھا کرنا چاہیئے، یہ اچھا ہے کہ جلد پاکستان، ترکی اور ایران کی نشست ہوگی۔ افغان ہمارے بھائی ہیں، افغانستان ترقی کرے، وہاں امن قائم ہو اور ایسا علاقائی طاقتوں کو شامل کرکے ہی ممکن ہوگا، ہمیں اس میں موثر کردار ادا کرنا ہے۔ چین، روس، ایران سمیت ممالک کو ہم آہنگ کیے بغیر افغان مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں، پاکستان کو اکیلے اس میں نہیں پڑنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 777085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش