0
Friday 22 Feb 2019 01:56
وارسا کانفرنس میں امریکا تنہا ہوگیا

سعودی وزیر خارجہ نے پاکستان میں بیٹھ کر سفارتی آداب کا خیال نہیں رکھا، عبداللہ گل

سعودی وزیر خارجہ نے پاکستان میں بیٹھ کر سفارتی آداب کا خیال نہیں رکھا، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل مرحوم کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبداللہ گل اسوقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اسکے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جسکا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبداللہ گل کیمطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جسکا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اسوقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر انکے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عبداللہ گل سے سعودی ولی عہدے کے دورہ پاکستان، ایران سے متعلق متازعہ بیانات اور پاک بھارت کشیدگی پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پلوامہ حملے کے بعد پاکستان پر الزامات اور جنگ کی دھمکیاں، کیا دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے باعث سیاست کی جا رہی ہے یا اب کشمیریوں نے ڈو اینڈ ڈائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔؟
عبداللہ گل:
جی بالکل! پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت کی جانب سے مسلسل سیاست ہو رہی ہے، اسکے محرکات سب کو معلوم ہیں، مودی جی پانچ ریاستوں میں بہت بری طرح شکست کھا چکے ہیں، پھر اس کے بعد ایک محرک یہ بھی ہے کہ ایک تو سیاست پاکستان کے ساتھ ہو رہی ہے اور ایک ان کی اندرونی سیاست ہے، کانگرس کو نظر آرہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی ایک مخلوط حکومت بنا پائے، لیکن اس مخلوط حکومت میں شرط یہ ہوگی کہ نریندر مودی کو مائنس کیا جائے۔ بیرونی سیاست یہ ہے کہ ان کی سیاست چلتی ہے پاکستان دشمنی پر ہے۔

باقی کشمیریوں نے ڈو اینڈ ڈائی کا فیصلہ کر لیا ہے، اگر وہ پاکستانی پرچموں میں اپنی تدفین کروا رہے ہیں، کفن کی بجائے پاکستانی پرچم استعمال کر رہے ہیں تو یہ ڈو اینڈ ڈائی ہی کہلاتا ہے۔ کسی بھی مہم جوئی میں بھارت کو ایک دفعہ نہیں سو بار سوچنا پڑے گا کہ وادی سے ان کو سپورٹ نہیں ملے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مقامی لوگوں کی سوچ کے برعکس پاکستان کے ساتھ کوئی بھی جنگی جنون کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بھارت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، جس کا شائد وہ متحمل نہیں ہوسکتا، پاکستان اپنا بھرپور جواب دے گا اور وزیراعظم صاحب نے بھی واضح جواب دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے وزیراعظم کا بھارتی الزامات پر ردعمل مناسب ہے، اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جی میرا خیال ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے جواب میں پاکستانی وزیراعظم کو اتنا جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی، دفتر خارجہ اس کے لیے کافی تھا یا وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں جو بات کر دی تھی، اس کے بعد پاکستان کو اس پر مزید بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ابھی تک دنیا نے پاکستان پر کوئی الزام نہیں لگایا تو ہم کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہم ہر قسم کی تحقیقات کیلئے تیار ہیں، ہمیں تو یہ کہنا چاہیئے کہ اگر بھارت کے پاس ثبوت ہیں تو وہ عالمی عدالت میں لے جائیں۔ میرا نہیں خیال کہ وزیراعظم کو اسکا جواب دینا چاہیئے تھا، دوسری طرف کشمیر کے اندر ریاستی دہشتگردی ہو رہی ہے، اس کو عیاں کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمسایہ ملک ایران کے اندر بھی دہشتگردی کی ایک بڑی کارروائی ہوئی ہے، جسکا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر کارروائی نہ کی گئی وہ خود دہشتگردوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنائینگے۔؟
عبداللہ گل:
ایران میں پاسداران پر جو حملہ ہوا ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے، دفتر خارجہ کی طرف سے بھی اس حملے کی کھل کر مذمت کی گئی، ہمارے دل ایران کے ساتھ ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ جو ایران پر حملہ ہوا ہے، اس پر پاکستان کو بہت تکلیف ہوئی ہے، لیکن یہ نہیں کہا جائے کہ پاکستان اس میں ملوث ہے، سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں جس قسم کی بیرونی طاقتیں وہاں موجود ہیں، وہاں جو استعماری قوتیں ہیں، وہ اپنا کھیل کھیل رہی ہیں، خود افغانستان میں استعمار کی تمام قوتیں موجود ہیں، ایران کے پاس اگر ثبوت ہیں تو یقیناً ہمیں دے، دو برادر اور اسلامی پڑوسی ملک ہیں، ایک دوسرے کا بہت ادب اور لحاظ ہے۔ زاہدان میں ہونے والے حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ایران کی باغیور قوم پر ہونے والے اس حملے پر بہت رنج اور افسوس ہے، شہداء کے لیے دعا گو ہیں اور انہیں انصاف ملنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایران کے خدشات دور کرنے کیلئے حکومت کو کیا اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور مشترکہ دشمن سے کیسے نمٹا جائے۔؟
عبداللہ گل:
جی بالکل، ایران کے خدشات کو دور کرنا چاہیئے، جہاں تک خود کارروائی کرنے کا تعلق ہے، میرے خیال میں یہ تھوڑا اس میں جذباتیت نظر آگئی، آپ جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، جس کی حدود ہیں، جیسا میں نے کہا کہ بیرونی عناصر ملوث ہوسکتے ہیں، اس کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، جہاں تک خود کارروائی کرنے کا تعلق ہے، اس پر ہمارے برادر ملک کو سوچنا چاہیئے، ہمارے آپس میں برادرانہ تعلقات ہیں، یہ سخت الفاظ ہیں، ایران کے اندر تھوڑا سا تحمل ہونا چاہیئے، ان شاء اللہ یہ معاملات حل ہو جائیں گے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کو کیا اقدمات کرنے چاہیئں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو سب سے پہلے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینی چاہیئے، آپس میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیئے اور سرحد پر حتی الامکان سکیورٹی کو مضبوط کرنا چاہیئے۔ ایران کو ہمیں کسی بھی عرب ملک کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: سعودی نائب وزیر خارجہ نے دورہ پاکستان کے دوران ایران پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، کیا یہ مناسب عمل تھا، اس سے ہمارے تعلقات اثرانداز نہیں ہونگے۔؟
عبداللہ گل:
سعودی وزیر خارجہ کی جانب سے یہ ردعمل نہیں ہونا چاہیئے تھا، ان کو سفارتی آداب کا خیال رکھنا چاہیئے تھا، کیونکہ وہ دوسرے ملک میں بیٹھے ہوئے تھے، دوسرے ملک میں بیٹھ کر ہمارے پڑوسی اور ہمسایہ ملک کے بارے میں اظہار خیال کرنا نامناسب تھا، ان کے جو بھی تعلقات ہیں، اس کا اظہار پاکستان میں نہیں کرنا چاہیئے تھا، شاہ محمود قریشی نے صحافی کے سوال کا جواب دے دیا تھا، ان کو خود خیال کرنا چاہیئے تھا اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے تھا۔

اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان اور اسکے بعد بھارت میں جانا، بھارتی اخبارات لکھ رہے ہیں کہ محمد بن سلمان کشمیر پر پاکستانی موقف کے حامی نہیں، کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
جی سعودی ولی عہد کے دورہ بھارت کو ضرور دیکھا جائے گا، اس دورے کے نتائج کو دیکھا جائے گا، سعودی عرب انڈیا میں بھاری سرمایہ کر رہا ہے، دوسری طرف وہ گوادر کے اندر بھی معاملات بہتر کرنا چاہ رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کی کمپنیاں گوادر آتی ہیں یا، پھر آرامکو اور دیگر امریکی کمپنیاں آکر کام کریں گی، یہ ایک باعث تشویش بات ہے، اس پر ایران اور چین کو بھی تشویش ہوگی، کشمیر پر موقف کا اظہار نہیں کیا گیا، اس کا ذکر پریس کانفرنس میں بھی نہیں ہوا اور مشترکہ اعلامیے میں بھی کوئی بات نہیں کی گئی، جو لمحہ فکریہ ہے، ان کو ضرور بات کرنی چاہیئے تھی، آپ ہمارے برادر اسلامی ملک ہیں تو بات کرنی چاہیئے تھی، جس طریقے سے ایرانی قیادت نے دو بار کشمیر کیلئے بہت ہی زبردست اور قابل ستائیش بیان دیا، جس پر میں انکا شکر گزار ہوں۔

اسلام ٹائمز: پولینڈ کے درالحکومت وارسا میں ہونیوالی کانفرنس پر کیا کہتے ہیں۔؟
عبداللہ گل:
پولینڈ میں ہونے والی وارسا کانفرنس نے امریکا کو تنہا کرکے رکھ دیا ہے، دنیا نے بتا دیا ہے کہ امریکا ایک شکست خوردہ طاقت ہے، اس کا سورج زیادہ عرصہ تک طلاع نہیں رہ سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 779333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش