0
Friday 1 Mar 2019 11:17
کشمیر کے متعلق آیت اللہ خامنہ یٰ کے بیانات گراں قدر ہیں

پاکستان کے دندان شکن جواب نے دوست اور دشمن دونوں کو حیران کر دیا ہے، خواجہ محمد آصف

پاکستان کے دندان شکن جواب نے دوست اور دشمن دونوں کو حیران کر دیا ہے، خواجہ محمد آصف
سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نو اگست 1949ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے بیچلرز کیا اور یونیورسٹی کالج لاہور سے ایل ایل بی کیا۔ بعد میں وہ بینکاری کے شعبے سے وابستہ رہے۔ جنیوا سکول آف ڈپلومیسی نے انھیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دے رکھی ہے۔ کئی سال متحدہ عرب امارات میں رہائش کے بعد جب وہ پاکستان واپس لوٹے تو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں پہلی مرتبہ 1991ء میں منتخب ہوئے۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں انھیں نجکاری کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔ خواجہ آصف نے اپنے آبائی علاقے سیالکوٹ سے 1993ء، 1996ء، 2002ء، 2008ء، اور 2013ء میں لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ 2008ء میں جب کچھ وقت کے لیے مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی تو خواجہ آصف کے پاس پیٹرولیئم، قدرتی وسائل اور کھیل کی وفاقی وزارتیں رہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں منتخب ہوئے اور نواز شریف کی کابینہ میں انھیں دفاع اور پانی و بجلی کی وزارتوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ گذشتہ سال نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو خواجہ آصف کو ملک کا نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ نو ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ رکن پارلیمنٹ اور اپوزیشن رہنماء کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارتی رخنہ اندازی اور پاکستان کے بھرپور جواب کے بعد خطے کے حالات کیا رخ اختیار کرینگے؟
خواجہ محمد آصف:
پاکستان ایئرفورس نے جس طرح رسپانس دیا ہے، یہ بھارت کے اندازوں سے بہت زیادہ تھا، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ہم پاکستان کے کان کھینچیں گے اور پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا۔ وزیراعظم گیلانی کے دور میں بھی امریکی آئے تھے کہ انڈیا کو غصہ دور کرنیکے لیے ہلکی پھلکی اسٹرائیک کرنے دیں، پھر ہندوستان اسرائیل کی نقل میں یہ سمجھا رہا تھا کہ کشمیر میں فلسطین اور عرب علاقوں کی طرز پہ کاروائی کرینگے اور کوئی آگے سے جواب نہیں دیگا۔ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں، اسکا کوئی ثبوت تو نہیں کہ بھارت نے اسرائیل کی ہم آہنگی سے یہ رخنہ اندازی کی، لیکن اسکی گنجائش موجود ہے۔ سب سے اہم بات تو قومی سلامتی اور ملکی وقار کی ہے، اس سلسلے میں الحمد اللہ ساری قوم ایک صفحے پر ہے۔ کیونکہ پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں کوئی دوسرا صفحہ ہی موجود نہیں۔

ہمارے لیے ایک ہی صفحہ ہے، بھارت، جس پہ سب اکٹھے ہیں، موجودہ بھارتی حرکت پہلے سے سمجھا جا رہا تھا کہ ایسی کوئی غلطی یہ کرینگے۔ ہم نے پہلے بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اب کر رہے ہیں۔ 2016ء میں بھی یہ ڈرامہ رچایا گیا لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا، اب بھی جب الیکشن ہو رہے ہیں، بھارت میں یہ فضاء بنائی گئی ہے، پاکستان تو صرف کشمیری مسلمانوں کی آواز میں آواز ملا رہا ہے، پلوامہ واقعہ کو بہانہ بنا کر کشمیر ایشو سے دنیا کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے، پاکستان نہیں چاہتا کہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آئے۔ موجودہ سرحدی خلاف ورزی میں بھارت نے نہ صرف لائن آف کنٹرول کو پار کیا، بلکہ مانسہرہ کے قریب پہنچ کر عالمی سرحد کی بھی خلاف ورزی کی ہے، جس کا جواب ضروری تھا۔ اس کے باوجود ہمارا رسپانس ایسا نہیں تھا، جسے دنیا کے سامنے جنگ کا جواز بنا کر پیش کیا جاسکتا ہو۔

بھارت کی عجب انٹیلی جنس ہے، جنہیں پلوامہ کا تو پتہ نہیں چلا لیکن انہوں نے پاکستان موجود دہشت گردوں کا کیمپوں کا پتہ چلا لیا اور وہاں کروائی بھی کر لی، انہیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہاں کتنے لوگ مارے گئے، یہ حقائق بھارتی جھوٹ کو ثابت کرتے ہیں۔ جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ وہ آگ سے کھیلے، لیکن یہ آگ پورے خطے کو راکھ کر سکتی ہے، کوئی پاگل پہی ہوگا کہ یہ آپشن اپنایا جائے۔ لیکن جواب بھی جانا چاہیے، یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم ہندوستان کو جواب بھی دیں اور اسکے مقاصد بھی پورے نہ ہونے دیں، البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، یہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا۔ پاکستانی قوم کا مورال بلند رکھنے اور ہندوستان کو اسکی جگہ پہ لانے کیلئے جواب بھی ضروری ہے۔ پاکستان کے دندان شکن جواب نے دوست اور دشمن دونوں کو حیران کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی رخنہ اندازی کے بعد خود پاکستان میں اکثر تجزیہ کاروں اور دانشوروں سمیت سیاسی رہنماؤں کے ذہن میں یہ کیوں تھا کہ اب پاکستان زیادہ بڑا جواب نہیں دے سکے گا؟
خواجہ محمد آصف:
یہ صرف پروپیگنڈہ ہی کی وجہ سے نہیں ہے، اسکا پورا پس منظر ہے، بھارت ابھی کوشش کریگا کہ امریکہ کیساتھ مل کر جیش محمد اور غیرریاستی عناصر کے پرانے ایشوز کو اٹھائے، لیکن اسوقت پاکستان کی پوزیشن جنگی اور سیاسی ہر دو لحاظ سے مضبوط ہے۔ اب ملک کے اندر بھی حالات بہت بہتر ہو چکے ہیں، پہلے ہم لیے قومی بیانیہ پیش کرنے اور اسے سنبھالنے میں بہت رکاوٹوں کا سامنا تھا، اس وقت پاکستان میڈیا اور رہنماء ایک ہی زبان ہی استعمال کر رہے ہیں، انڈیا کی پوزیشن اب اچھی نہیں۔ پھر پاکستان نے پائلیٹ کی واپسی سے اپنا موقف مضبوط بنا لیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، یہ بھارت ہے جو جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک تو انڈیا نے پہل کی اور پھر پاکستانی علاقے میں ہی انکا طیارہ بھی گرایا گیا، انکو پایلٹ بھی گرفتار ہوا۔ یہ ثبوت دنیا میں پاکستان کو مبنی بر حق ثابت کرنیکے لیے کافی ہیں۔

لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ابھی بحران ختم نہیں ہوا، حتمی طور پر اس وقت ہی کچھ کہا جائیگا جب یہ کشیدگی اختتام پذیر ہو جائیگی۔ مجھے خدشہ ہے کہ بھارت اب بھی کسی گڑبڑ کی کوشش کریگا۔ پاکستانی قوم اسوقت پراعتماد ہے، دنیا نہ صرف بلکہ ہمارے دوست بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان صرف سفارتی سطح پر جواب دیگا، یہی سمجھا جا رہا تھا کہ پاکستان دوسروں پر انحصار کرتا ہے، کوئی عسکری اقدام نہیں کریگا، لیکن مسلح افواج نے بھارت کو ایک دہشت گرد کے طور پر ٹریٹ کیا ہے، ایئرفورس کی کاروائی ضرب عضب یا ردالفساد آپریشن کا حصہ اور تسلسل لگ رہی ہے، اب ہمارے دوستوں کو بھی یقین ہو گیا ہے کہ بھارت کو بالخصوص دندان شکن جواب دینے کیلئے ہماری قوم، مسلح افواج اور سیاسی قیادت کافی ہیں، اس سے ایک تاثر دنیا میں یہ بھی گیا ہے کہ پاکستان قابل بھروسہ ایٹمی طاقت ہے، مسلم ممالک کو بھی پاکستان کیساتھ کھڑا ہونا پڑیگا، یہ وقت کی آواز ہے، بس ہمیں اپنی داخلی صورتحال سنبھالنے اور خارجہ پالیسی کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے، ابھی بھی اس میں کمی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ان حالات میں او آئی سی کے اجلاس میں بھارتی مندوب کی شرکت کیلئے میزبان ملک کی طرف سے دعوت ایک درست اقدام ہے؟
خواجہ محمد آصف:
بے شک عرب ہمارے قریبی دوست ہیں، لیکن او آئی سی مسلمان ممالک کا ایک پلیٹ فارم ہے، جبکہ بھارت وہ ملک ہے جہاں مسلمان مظالم کا شکار ہیں، مقبوضہ کشمیر میں تو بھارتی افواج ہماری نسل کے درپے ہیں، بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا، بھارت کے اندر بھی مسلمان ہزار طرح کی مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں، مسلمان ممالک کو انکے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، اگر او آئی سی میں بھارتی مندوب آتے ہیں تو ہمیں اسکا بائیکاٹ کرنا چاہیے، بات چیت کیلئے صورتحال اچھی ہو گئی تو بھارت کیساتھ بات چیت سے کس نے انکار کیا ہے اس کے لیے اور پلیٹ فارم موجود ہیں۔ میں سمجھنتا ہوں کہ تمام مسلم ممالک کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کی طرح کشمیر میں ہونیوالے مظالم پہ کھل کے آواز اٹھانی چاہیے، ہر ملک کے تعلقات ہیں بھارت کیساتھ، ہمارے تو سمجھا جاتا ہے کہ ایران بھارت کے زیادہ قریب ہے۔

لیکن جس طرح انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے حق میں بیانات دیئے ہیں، یہ ایک مثال ہے، کسی اور کو توفیق نہیں ہوئی، یہ پاکستان کیلئے بہت بڑی سپورٹ ہے، اسی طرح ہمیں کام کرنا ہوگا کہ دوسرے مسلم ممالک سے بھی حمایت حاصل کریں، ہوتے تو یہ الفاظ ہی ہیں لیکن انکی بڑی قیمت ہوتی ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ او آئی سی پاکستان کے لیے ایک نہایت قیمتی ہتھیار ہے، کشمیر کا مسئلہ اٹھانے کیلئے، اسے کسی طور پر بھارت کے لیے کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے، اس سے پہلے بھی بھارت یہ کوششیں کر چکا ہے، شاید یحییٰ خان کے دور میں بھارت کے صدر چونکہ مسلمان تھے، ان کے ذریعے یہ کوشش کی گئی، ہمیں اسے ناکام بنانا ہو گا، موجودہ حکومت کو اسے ذہن میں رکھنا چاہیے، جس طرح یہ بات سامنے آئی ہے کہ عرب ممالک نے بھارتی مندوب کو اجازت دی ہت یا دعوت دی ہے، تو اس پہ ان کے ساتھ بات کرنی چاہیے، یہ معاملہ بھارت کے ہاتھ میں نہیں جانا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: یہ تنازعات ایک عرصے سے جاری ہیں، صورتحال جاری رہی تو دو ملکوں کے درمیان کشیدگی کیسے ختم ہو گی؟
خواجہ محمد آصف:
ہمارے درمیان کئی ایشوز پہ بات چیت ہوتی رہی ہے، آخری حل تو مذاکرات ہی ہوتے ہیں، پہلے سے ہی سیاچن، سرکریک، پانی اور کشمیر کا اہم مسئلہ موجود ہے، لیکن 2008ء میں بمبئی حملوں کے بعد ہمارے درمیان کوئی بامعنی مذاکرات نہیں ہوئے، اب بھی جب افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے بہتری آنے کی امید پیدا ہوئی ہے، بھارت نے ماحول بگاڑ دیا ہے، اب کیسے بات چیت ہو سکتی ہے۔ ہمیں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور ساتھ پامردی کیساتھ اپنی امن کی خواہشں دنیا کے سامنے ثابت کرنا ہوگئ۔ جنگ نہ کسی مسئلے حل ہے، نہ ہی دنیا یہ چاہتی ہے، دونوں ملکوں کے عوام بھی یہ نہیں چاہتے، لیکن جنگ مسلط کر دی جائے تو قوم پیچھے تو نہیں ہٹ سکتی۔ ان حالات میں عالمی برادری کا کردار بڑھ جاتا ہے، عالمی طاقتوں اور خطے کے ممالک کو آگے بڑھ کر پہلے مرحلے میں کشیدگی کم کروانی چاہیے، پھر ممکن ہو کہ کہیں نہ کہیں جا کے بات چیت کا آغاز ہو۔

کئی مسائل پہلے ہی موجود ہیں، جو شاید نہیں معلوم کب تک جا ری رہیں، لیکن سب سے اہم مشکل اور خطے میں امن کے قایم میں رکاوٹ بھارت کا جنگی جنون ہے، ایک ضد ہے جسکی وجہ سے انہوں نے پاکستان کو دولخت کیا، پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، اسکا حل سوائے اپنے دفاع کے کوئی آپشن نہیں رہ جاتا، بھارت نے کبھی جنگی ماحول ختم نہیں ہونے دیا، پاکستان کیخلاف ہمیشہ پریشر رہا ہے، لیکن الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے، میرے خیال میں پاکستان سفارتی محاذ پہ زبردست سرگرمی جاری رکھے، قوم کو ہمیشہ اعتماد میں لیا جائے، کشمیر پہ اپنا موقف زیادہ مضبوط طریقے سے پیش کیا جائے، کیونکہ پاکستان کا اصولی موقف ہے، اب پاکستان کا بیانیہ اب پہلے سے بہت بہتر ہوا ہے، اسی طرح بھارتی بیانیہ کمزور ہو رہا ہے، ملٹری آپشن ہمارا نہیں، لیکن بھارت مجبور کرتا ہے تو اس کیلئے پوری قوم مسلح افواج کیساتھ کھڑی ہے، دنیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دونوں ملک اٰیٹمی طاقت ہیں، اس کے خطرات کیوجہ سے دنیا کو آسانی سے پاکستانی بیانیہ پیش کر کے قائل کیا جا سکتا ہے۔ یہ لڑائی تمام محاذوں کی لڑائی ہے۔

اسلام ٹائمز: پلوامہ سے پہلے ایران میں ہونیوالے دھماکے پر وہاں عسکری اور قومی قیادت نے بھی پاکستان کے حوالے سے سخت احتجاج کیا ہے، کیا غیر ریاستی عناصر کی موجودگی میں بہتر تعلقات قائم رکھے جا سکتے ہیں؟
خواجہ محمد آصف:
یہ صرف ایران کی طرف سے نہیں، بلکہ پہلے بھارت اور پھر امریکہ کی طرف سے ہمیں اس وجہ سے اعتراضات کا سامنا رہا ہے، یہ خود ہمارے لیے بھی بہتر نہیں ہے، پاکستان نے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی پالیسی سے سخت نقصان اٹھایا ہے، اس سلسلے میں پاکستان نے بہت سے اقدامات لیے بھی ہیں، مزید اس پہ وقت لگے گا، یہ بہانہ جو ہندوستان کے ہاتھ آ گیا ہے اس ختم کرنا ضروری ہے۔ اب ہم انڈیا کے کسی جھوٹ کو بے نقاب کرنیکے لیے تو عالمی مبصرین کو پاکستان میں دعوت دے رہے ہیں، لیکن بار بار کالعدم ہونیوالی تنظیموں کو کئی کئی بار نام بدل کر کام کرنیکی ڈھیل دیکر جو غلطی کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے پیدا ہونیوالی مشکلات کا ہمیں اندازہ کر لینا چاہیے، بھارت کا جنگی جنون بھی اس کا ایک جواز ہے، لیکن بھارت میں پیدا ہونیوالی شدت پسندی بھی ان عوامل کی وجہ سے ہے۔ حقیقت میں اسکا بانی تو امریکہ ہے، افغان جنگ میں جس طرح پاکستان کے مختلف عناصر کو روس کیخلاف استعمال کیا گیا، پاکستان نے شاید شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر اسے جاری رکھا، لیکن یہ تلخ ترین نتائج کا حامل تجربہ ہے، جو ہم بھگت رہے ہیں، یہ کسی طور پر قابل قبول نہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کوئی تیسرا ملک پاک ایران تعلقات میں دراڑ پیدا کرنیکے کیلئے پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے، آپکے خیال اسکی روک تھام کیسے ممکن ہے؟
خواجہ محمد اصف:
یہ بھی اگر ہو رہا ہے، جو مشکل ہے کہ کسی پاکستانی کی تائید اسے حاصل ہو، لیکن ہوبہو اس سے وہی نتائج برآمد ہونگے، جو دہشت گردی کے ہوتے ہیں، ہمیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے، اسی لیے پاکستان نے ایران کیساتھ مسلسل بات چیت کے ذریعے سرحد پہ باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کوئی لابی یا گروپ پاکستانی علاقوں کو ایران کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو یہ اب پاکستان کی پالیسی نہیں، اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، ہماری تو یہ کوشش ہے کہ ہماری سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہ ہو، پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ دہشت گردی کے کیا اثرات ہوتے ہیں، اس کے خلاف مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، کوئی تیسرا فریق بلکہ یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دشمن قوتیں ہی ایسی حرکت کروا سکتی ہیں، جس کا ہدف نہ صرف ایران ہوگا بلکہ پاکستان کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت دونوں ملکوں کو ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے، نقصان پہنچانے والا فریق خود مشرق سے بھی ہو سکتا ہے، مغرب بھی یہ کام کروا سکتا ہے، اس کا حل صرف باہمی ہم آہنگی ہے۔
خبر کا کوڈ : 780622
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش