0
Tuesday 19 Mar 2019 14:52
منی لانڈرنگ اور دہشتگردی ایک ہی زمرے میں آتی ہیں

کرپٹ سیاستدان بھارت اور اسرائیل کیطرح پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اعجاز چوہدری

کرپٹ سیاستدان بھارت اور اسرائیل کیطرح پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اعجاز چوہدری
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل انجینئر اعجاز احمد چوہدری 1956ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کوہاٹ اور انجنئیرنگ کی ڈگری یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی لاہور سے حاصل کی۔ سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ 35 سال تک جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے۔ وہ جماعت اسلامی کے بانی رہنما اور پہلے امیر میاں طفیل محمد کے داماد، کسان کیئر پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنی کے مالک ہیں۔ 90ء کی دہائی میں لاہور کے ڈپٹی میئر رہے، مسلم لیگ نون کیساتھ سیاسی اتحاد پر جماعت اسلامی سے اصولی اختلاف اور عمران خان کی خصوصی دعوت پر 2007ء تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ انہوں نے پنجاب میں پارٹی کی جڑیں مضبوط کرنے، انصاف اسٹوڈنٹس کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور تحریک انصاف پنجاب کے صدر رہے۔ اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

 اسلام ٹائمز: کیا وزیراعلیٰ پنجاب پارٹی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے کہ انہوں نے کفایت شعاری کے نعروں کی گونج میں اپنے اور اراکین صوبائی اسمبلی کی مراعات کیلئے آنیوالے بل کی تائید کی۔؟
اعجاز چوہدری:
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بل واپس ہوگیا ہے، دوسرا یہ ہے کہ اس میں وزیراعلیٰ کیلئے ایسی کوئی مراعات ہی نہیں ہیں، جنکا ذکر میڈیا کر رہا ہے، تیسرا یہ کہ کسی کو کفایت شعاری کی پالیسی سے اختلاف نہیں، نہ ہی وزیراعلیٰ پنجاب پارٹی اور قیادت کے فیصلوں سے انحراف کر رہے ہیں، اس میں سقم صرف یہ رہا ہے کہ وہ سارے پراسس میں وزیراعظم کو اعتماد میں نہیں لے سکے۔ جن مراعات کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ تجویز کی گئی تھیں، لیکن وہ منظور نہیں ہوئی ہیں، دو سیکرٹریز، ایک پرسنل اسسٹنٹ، دو کلرک، دو نئی کاریں، انکا گھر، ان میں کوئی چیز پاس نہیں ہوئی۔

جو بل وزیراعلیٰ نے سائن کرکے گورنر کو بھیجا ہے، اس میں صرف سکیورٹی کا ذکر ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جہاں تک تجاویز کی بات ہے، وہ تو اسمبلی میں بہت زیادہ آتی ہیں، اراکین اسمبلی کیلئے بھی زیادہ مراعات نہیں ہیں، صرف کے پی کے، کے اراکین اسمبلی کی طرح ان میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان والوں کی تنخواہ اب بھی تین لاکھ ہے۔ اسی طرح وفاق اور پنجاب کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے، وزیراعظم کا ٹوئٹ اس بات کا شاہد ہے کہ اپنی پالیسی پہ قائم ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب کا ان سے جا کر ملنا اور انہیں تفصیل سے واضح کرنا، یہ بتاتا ہے کہ وہ بھی انکی بات کو پہلے کی طرح ہی اہمیت دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے باقاعدہ وزیراعلیٰ اور پنجاب کابینہ کی تنخواہوں اور مراعات کا ذکر کیا ہے، مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے، کیا وہ بے خبر تھے۔؟
اعجاز چوہدری:
بالکل، انہوں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا اور میڈیا میں جن چیزوں کو اچھالا جا رہا تھا، وزیراعظم نے اس موقع پہ دیر کیے بغیر عوام کیساتھ بیان کی گئی اپنی پالیسی کی دوبارہ وضاحت بھی کی، یہ پی ٹی آئی کی کفایت شعاری مہم اور عوام کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مناسب نہیں ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں، مایوسی کا اظہار تو کئی شخصیات نے کیا ہے، کیونکہ اس معاملے کو میڈیا میں اچھالا ہی اس طرح گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ بل اتنی جلدی میں لایا گیا کہ وزیراعظم کو میڈیا میں چلنے والی خبروں اور تبصروں کے ذریعے ہی پتہ چلا اور انہوں نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کیا، اٹھارہ ہزار تنخواہ کافی نہیں ہے، لیکن اس بل کی ٹائمنگ اور جلدی میں پاس کیا جانا، یہ درست نہیں، ہمارے دفاعی اخراجات بھی ہیں اور عام آدمی خوشحال نہیں، اس سے تاثر اچھا نہیں جاتا، وزیراعظم ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی اس طرز عمل سے مایوس ہوتا ہے۔

لوگوں کا بھی غم و غصہ بالکل درست ہے، وزراء کو اس کا احساس بھی ہوا ہے، اسی لیے صوبائی وزراء نے اپنے ورژن کو تبدیل کیا ہے۔ یہ بھی درست نہیں کہ سارے پارلیمنٹیرینز اس بل کو اسپورٹ کر رہے تھے، جن لوگوں نے اس کی تائید نہیں کی، میڈیا پہ انہوں اظہار خیال بھی نہیں کیا۔ لیڈرشپ کا کام ہی سمت درست رکھنا ہوتا ہے، اگر اراکین اسمبلی اور وزراء کچھ زیادہ سوچ بھی رہے تھے تو وزیراعظم کے بروقت موقف سے سب کی پوزیشن بہتر ہوگئی۔ کچھ نہ کچھ تبدیلیوں کی گنجائش اب بھی ہے، اکثر تو ڈرائیورز اور گارڈز کی تنخواہیں ایم پی ایز سے زیادہ ہیں، افسروں کی تو تنخواہیں اور مراعات کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں جو کمی تھی، وہ یہی تھی کہ لیڈرشپ سے مشاورت کرکے تائید لینی چاہیئے تھی، یہ قدم جلدی میں اٹھایا گیا۔

اسلام ٹائمز: اب آپ اس پہ روشنی ڈالیں کہ ایک طرف صوبائی حکومت نے ترقیاتی فنڈ کم کیا، پھر اسے بھی استعمال نہیں کیا، دوسری طرف یہ بل بھی پاس کر دیا، اس میں تضاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا، عوامی سطح پہ پائی جانیوالی بے چینی درست نہیں۔؟
اعجاز چوہدری:
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب ہم الیکشن میں جاتے ہیں تو ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ مراعات اور تنخواہوں کی صورتحال یہ ہے، اسی لیے جو تحفظات سامنے آرہے ہیں، انہیں رد نہیں کیا گیا، بلکہ پنجاب حکومت نے اپنے لیڈر سے ملنے والی پالیسی کو فالو کیا، پنجاب حکومت عمران خان کے عوامی ویژن کے مطابق ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کو بھی یہ احساس ہوا ہے کہ انہیں وزیراعظم کساتھ مشاورت کرنا چاہیئے تھی، حکومتی سطح پہ اقدامات میں ایسا اکثر ہوتا ہے، لیکن خرابی اسوقت ہوتی ہے، جب فقط ذاتی مفاد کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہوں، اپنی پوزیشن کو غلط استعمال کیا جا رہا ہو اور پھر اس کی توجہیہ اسطرح کی جا رہی ہو کہ کسی قسم کی تبدیلی نہ کی جا سکتی ہو۔ یہ تاثر اسی وقت دور کر دیا گیا ہے کہ اسمبلی عام آدمی کے حقوق پہ ڈاکہ ڈال رہی ہے یا زیادتی کی جا رہی ہے، آئندہ طرزعمل بھی یہ ثابت کریگا کہ پی ٹی آئی اپنے منشور پہ عمل درآمد میں مخلص ہے، اس حوالے سے لیڈرشپ کی جانب سے جو کارروائی ہونا تھی، وہ مکمل ہوگئی ہے۔ ہر سطح پہ یہ احساس دلایا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرداری کیطرف سے وفاقی وزراء کے استعفے کے مطالبے کے بعد وزراء کے موقف میں مزید سختی آگئی ہے، دہشتگردی کیخلاف نیشنل ایکشن پلان پر اپوزیشن سے مشاورت کا عمل کیسے انجام پائیگا۔؟
اعجاز چوہدری:
یہ بحث اب غیر ضروری ہے، ویسے بھی انہوں نے سیاسی بیان بازی میں خیال نہیں رکھا، ملک جس نازک حالت سے گذر رہا ہے، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں دنیا پاکستان کے الیکشن کے تناظر میں نہیں لیتی، دنیا میں ان بیانات کا نوٹس پاکستان کیخلاف ثبوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے حکومت کوشش کر رہی ہے کہ تمام پارلیمانی قیادت کے درمیان کم از کم ان چیلنجز کے متعلق یکسوئی پیدا کی جائے۔ اسی سلسلے میں چین کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے، اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں، اگر ان تحفظات کے پیچھے کوئی حقیقت ہوتی تو ہماری طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کو مشاورت کیلئے بلایا ہی نہ جاتا بلکہ ان سے بالا بالا ہی سب کچھ طے کر لیا جاتا، جب انہیں بلایا جا رہا ہے تو اسکا مطلب یہی ہے کہ ان حساس ایشوز پر کھلے عام میڈیا میں بات کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔

اس طرح حکومت کی نیت پہ شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی، کیونکہ خود جب حکومت انہیں مشاورت میں شریک کر رہی ہے تو خود کو جوابدہ بھی سمجھے گی، جو پالیسی مشترکہ رائے سے بنائی جائیگی، سب اس میں شریک ہونگے، وہاں حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریگی اور جہاں کمی کوتاہی ہوگی، اس پر جواب بھی دیگی، لیکن اپوزیشن صرف سیاسی نمبر بنانے کیلئے پوری دنیا میں واویلا کریگی تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ان کی نیتوں پہ شک کریں، ہم سمجھا سکتے ہیں، لیکن اگر یہ اپنا وطیرہ نہیں بدلیں گے تو قوم انہیں مسترد کریگی، یہی الیکشن میں ہوا ہے اور وہ حکومت کیخلاف سازش کا الزام لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف آجائیں تو یہ گنوا سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤن کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ان کالعدم تنظیموں کی حمایت میں بھی باتیں کی ہیں، بلکہ نام بھی لیا جا سکتا ہے، آپ نوے کی دہائی میں جائیں گے تو آپ کو بہت کچھ نظر آجائے گا، اس طرح ماضی میں جائیں گے تو جو سدھار لانا چاہتے ہیں، اس کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔

اب بھی رحمان ملک موجودہ حکومت کی پالیسی کی تائید کر رہے ہیں کہ کالعدم گروہوں کو قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے، انکے پاس تجاویز بھی ہیں، انہوں نے اس حوالے سے اپنے تجربات بھی شیئر کیے ہیں، یہ زیادہ بہتر ہے کہ کمرے میں بیٹھ کر، پارٹی سیاست کو پس پشت ڈال کر قومی اتفاق رائے کیلئے سنجیدگی دکھائی جائے۔ پہلے ہی ہم مشکل وقت سے گذر رہے ہیں، اگر ہم ماحول درست کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو حالات زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، ہمارا مقصد پاکستان کو معاشی پابندیوں سے بچا کر سرمایہ کاری کو ملک میں لانا ہے، اس کی ساری شرائط پوری کی جا رہی ہیں، انہی اقدامات کو زیادہ سے زیادہ سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو جن معاشی سختیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیا دہشتگردی میں ملوث گروہوں کے متعلق خاموشی اختیار کرکے ان پابندیوں کو دعوت دینے کے مترداف نہیں ہوگا۔؟
اعجاز چوہدری:
یہ تو دنیا کو معلوم ہونا چاہیئے کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، لیکن اس پر ہم نے قابو پایا ہے، اب دنیا اس حقیقت کو تسلیم بھی کر رہی ہے، حالیہ کشیدگی میں بھی پاکستان سرخرو ہوا ہے، جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس میں ہمارا موقف ہے کہ پاکستان کو دو طرح کی دہشت گردی کا سامنا ہے، جہاں انسانی خون بہایا گیا ہے، وہاں معاشی طور پر پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ جس طرح بھارت اور بھارتی لابی نے پاکستان میں ریاست کیخلاف اور پاکستانی عوام کیخلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کی ہے، جس سے پاکستان کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا، اسکو روکنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، دوسری طرف پاکستان دشمن قوتوں نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت اور سرپرستی کا لیبل لگا کر معاشی پابندیوں کی دھمکیاں دلوانے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، اس سے نبردآزما ہونا بھی ہماری ذمہ داری ہے، ان شاء اللہ پاکستان اس محاذ پر کامیاب ہوگا، سی پیک اور عرب ممالک کی طرف آنے والی سرمایہ کاری ہمارے دشمن کی ناکامی کا ثبوت ہے۔

پاکستان سے دونوں طرح کی دہشت گردی کا خاتمہ کرنیکی ضرورت ہے، اسی لیے کرپٹ مافیا نے ملک کا جو نقصان کیا ہے، ان کے خلاف کارروائی کو روکا نہیں جا سکتا، کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی، جس طرح کالعدم تنظیموں اور دہشت گردی کی گنجائش نہیں، اسی طرح معاشی دہشت گردوں اور کرپٹ مافیا سے بھی پاکستانی سیاست کو پاک کرنا ضروری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس طرح دہشت گردوں کیخلاف آپریشنز کے دوران انکی حمایت میں بولنے والوں نے ان کارروائیوں کی مخالفت کی، اسی طرح کرپٹ سیاستدان معاشی دہشت گردی کیخلاف عدالتی کارروائی اور احتسابی عمل کی مخالفت کر رہے ہیں، لیکن حکومت دونوں طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے، فوج اور عدلیہ کیساتھ کھڑی ہے، اسی سے ہم پاکستان کو آگے بڑھا سکتے ہیں، معاشی ٹیررازم کی موجودگی میں ملک ترقی نہیں کرسکتا، کرپٹ مافیا اپنے سہولت کاروں کو بچانے کیلئے حکومت کیخلاف شدت پسندوں کی حمایت کا پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔

جس طرح مسلح دہشت گردی سے اربوں کا نقصان ہوا ہے، اسی طرح اکنامک ٹیررازم کی وجہ سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ ایک طرف بھارت اسرائیل کیساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، دوسری کرپشن کا دیمک پاکستان کو چاٹ رہا ہے، دونوں اطراف سے ہونیوالے حملوں سے ملک کو محفوظ بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسرائیل اور بھارت پاکستان کیخلاف مسلح دہشت گردی کروا رہے ہیں اور منی لانڈرنگ کرنے والے معاشی پابندیوں کا سب بن رہے ہیں، یہ جو کہتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا، لیکن عالمی اداروں کی طرف سے لسٹ میں شمولیت کی بڑی وجہ منی لانڈرنگ کو قرار دیا گیا ہے، جس کیخلاف اقدامات کو بلاول چیلنج کر رہے ہیں۔ دونوں کا امپکٹ ایک جیسا ہے، برابر ہے، کم نہیں، دونوں کیخلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ جس کیلئے حکومت مشاور کرنا چاہتی ہے اور پیپلزپارٹی بہانے بنا رہی ہے۔

بلاول جہاں غلطی کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے نکات کو اپنی تقریروں میں بیان کرتے ہیں اور انہیں جوڑ دیتے ہیں جعلی اکاونٹس کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی، نیب ریفرینسز، پانامہ کیس، ڈاکٹر عاصم، سراج درانی کیس، ایان علی منی لانڈرنگ کیس اور ایف آئی اے کی تحقیقات کیساتھ، اس سے خود انکی بوکھلاہٹ عیاں ہو جاتی ہے اور انکا بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے، پوری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیساتھ گہرا تعلق ہے اور یہ دونوں چیزیں ایک ہی زمرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اسی انداز میں بات کی، جو پوری دنیا کے میڈیا نے منفی طور پر پاکستان کیخلاف اٹھائی، ہمارا میڈیا بھی اسی انداز میں پیش کر رہا ہے، یہ درست نہیں، بھارت یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے بردھان منتری کو جو کچھ کہنا چاہیئے تھا، وہ پاکستان کا اپوزیشن لیڈر کہہ رہا ہے۔ اپنے کنسرن ان کیمرہ بریفنگز اور سیشنز ہوتے ہیں، آپ آئیں اور وہاں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اپنی تقریروں میں آئی ایس آئی سمیت اداروں کو اسکنڈلائز نہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 784146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش