0
Tuesday 5 Jul 2011 01:59

استقلال پاکستان کنونشن ملکی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا، دفاع مظلومین ریلی کا مقصد اظہار یکجہتی کرنا ہے، علامہ محمد امین شہیدی

استقلال پاکستان کنونشن ملکی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا، دفاع مظلومین ریلی کا مقصد  اظہار یکجہتی کرنا ہے، علامہ محمد امین شہیدی
علامہ محمد امین شہیدی کا شمار ملک کے نامور اور متحرک علماء میں ہوتا ہے، علامہ صاحب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں اور اس وقت شہید علامہ عارف الحسینی کی برسی کے موقع پر منعقد کیے جانے والے استقلال پاکستان کنونشن کے بھی چیئرمین ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے قائد شہید کی برسی، امن کاروان اور ملکی و بین الاقوامی معاملات سے متعلق ایک جامع انٹرویو کیا ہے، جو قارین کی دلچسبی اور معلومات کیلئے پیش کیا جا رہا ہے، اُمید ہے کہ اسلام ٹائمز کی یہ کاوش قارئین کی معلومات میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ 

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے جو اہداف مقرر کیے گئے تھے اُن کے حصول میں کس حد تک کامیابی ملی ہے۔؟

علامہ محمد امین شہیدی:مجلسِ وحدت مسلمین پہلی ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد ملت کے تمام حلقوں اور تمام حصوں کے اندر اخوت، وحدت اور عملی یکجہتی پیدا کرنے کے لئے وجود میں لائی گئی ہے، نام بھی اسی لئے مجلس وحدت رکھا گیا، تاکہ اُمتِ محمدی اور اُمتِ قرآن کو کسی ایک جگہ مشترکات کی بنا پر اس طرح اکٹھا کیا جائے تاکہ وہ اپنے مشترکات کے دفاع، دین کی سربلندی اور میدان عمل میں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک جان دو قلب بن کر اُتر سکے، پاکستان ایک ایسی سرزمیں ہے جہاں پر استعماری پنجے باقی ممالک کی نسبت زیادہ گہرے ہیں۔ پاکستان کے اندر فتنے کے ہزار مواقع موجود ہیں جبکہ مشترکات کے بہت کم۔ اسٹیبلشمنٹ، ایجنسیاں اور تمام وہ قوتیں جن کا اس خطے میں کوئی مفاد ہے، اپنے تمام تر وسائل، اس قوم کو تقسیم کرنے پر خرچ کرتی ہیں۔ زبان، علاقائیت، قومیت، فرقے اور دین کے نام پر قوم کو لڑایا جاتا ہے، جہاں جو آئٹم سوٹ کرتا ہے وہاں وہ آئٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی آلودہ فضا میں اگر آپ چاہیں کہ وحدت کا پیغام عام ہو تو یہ اُتنا ہی کٹھن اور مشکل ہے جتنا کہ انبیاء علیہ اسلام کو اس کا سامنا تھا، کیوں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ قوم میں وحدت، اتحاد اور خدا کے راستے پر لے جانے کیلئے انبیاء نے نو سو سال بھی لگائے، لیکن نتیجے میں صرف ایک سو بندوں نے ساتھ دیا۔
 پاکستان کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ ڈیڑھ سال میں مجلس وحدت مسلمین نے جو کام کئے ہیں، وہ ایک فرد کی حیثیت سے تبصرہ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ ہزاروں مشکلات، اختلافات، سازشیں اور پارا چنار سے لے کر کراچی تک ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے، فرقہ وارانہ جھگڑے، بم دھماکے اور اس طرح کے بیسوں ایسے مواقع، جن سے امت کو تقسیم کرنے میں مدد ملے۔ اس تمام تر صورتِ حال کے باوجود جس پرچم کو لے کر مجلس وحدت مسلمین سے وابستہ دوست اُٹھ کھڑے ہوئے، اس میں کافی کامیابیاں ملی ہیں۔ ابتداء میں خیال یہی تھا کہ بہت کم اس آواز پر لبیک کی آواز آئے گئی، لیکن شہداء کے خون کی برکت اور مخلص دوستوں کے اخلاص کا نتیجہ تھا جنہوں نے یہ بیڑا اُٹھایا اور گزشتہ تین برسوں میں وہ کام ہوئے ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے نہیں ہوئے تھے۔ 
اصل ہدف یہ تھا کہ جب آپ اُمت اسلامی کے اتحاد کی بات کرتے ہیں تو اُس کے اتحاد سے پہلے مکتب تشیع کے فرزندوں کے درمیان اتحاد قائم کریں، پھر آپ مسلمین کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا اتحاد صرف تشیع کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ پورے عالم اسلام میں اتحاد پیدا کرنا ہے اور ہر اس قوت کو اپنے ساتھ ملانا ہے، جو غیر خدا کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ ابتدا میں جب کام کا آغاز کیا تو بہت سے لوگ تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے کہ آپ کام کریں، ہم دیکھں گے کہ اگر تو آپ نے کوئی اچھا کام کیا تو پھر ساتھ دیں گے اور بہت ساروں نے نہ تو خود حرکت کی اور نہ ہی دوسروں کو ساتھ ملنے دیا اور تنقید کرتے رہے، تاہم آج خد ا کے فضل وکرام سے پاکستان کی تقریباً 90 اضلاع کے اندر مجلس وحدت مسلمین کی بنیادیں مضبوط ہو چکی ہیں، علماء، تنظیمی دوست ساتھ چل رہے ہیں۔ عوام کے اندر ایک نئی اُمید پیدا ہو چکی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی واضح کروں کہ یہ پلیٹ فارم کسی جذبات کی بنیاد پر نہیں بنایا گیا، بلکہ فکر، سوچ اور ایک بھرپور حکمت عملی کے تحت وجود میں آیا ہے۔ 
اس پلیٹ فارم سے ملک بھر میں اتحاد قائم ہوا ہے اور قوم میں دشمن کے مقابلے میں میدان میں اترنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کئی اسے اقدامات ہوئے ہیں جو حوصلہ افزا ہیں، اس حوالے سے ملاقاتیں ہوئیں اور کئی سیمینارز میں شرکت کی گئی۔ اگر ہم طائرانہ اور اُڑتی اُڑتی نظر ڈالیں تو میرے خیال میں مجلس وحدت مسلمین نے گزشتہ دو سال کے اندر مختلف شعبوں میں جو کام کیے ہیں وہ ایک منظم جماعت کے کام تھے۔ ایک ایسی جماعت جس کو جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے تھے، لیکن بہت سے ایسے کام ہوئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یقیناً خدا کی مدد شامل ہے۔ اس وقت تعلیم، میڈیا، فلا ح وبہبود، اور تربیت کے شعبے میں خاطر خواہ کام ہوئے ہیں، درجنوں بے گناہ اور لاوارث قیدیوں کو رہائی دلانے میں اہم کردار ادا کیا گیا ہے، گزشتہ سال کے سیلاب میں دو کروڑ روپے کی اجناس، مال اور لوگوں کی زندگی کی ضروری چیزیں لوگوں تک پہنچائی ہیں۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، مستقبل میں ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی حکمت عملی کیا ہے، آنے والے انتخابات میں حصہ لیں گے یا پھر کسی جماعت کو سپورٹ کیا جائے گا، کیا الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن کے لئے درخواست دی گئی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:الیکشن کمیشن کے اندر رجسٹریشن کرانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت بھی پاکستان کے اندر بڑی منظم جماعتیں ایسی ہیں جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں، جماعت اسلامی کتنی بڑی اور پرانی جماعت ہے، لیکن ابھی تک انہوں نے الیکشن کمیشن میں کوئی رجسٹریشن نہیں کرائی۔ رجسٹریشن اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ آپ کے اہداف کیا ہیں۔ جب ضرورت محسوس ہوئی تو رجسٹریشن بھی ہو جائے گی، ہمیں اس کو نمائشی اور نعرے بازی والے کام کو چھوڑ کر بنیادی کاموں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اُسی کی طرف ہم متوجہ ہیں۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، تونائی کا بحران، بدامنی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور دہشتگردی میں ہوتا ہوا اضافہ اور غیرملکی اثر و رسوخ، کیا سمجھتے ہیں حکومت تین برس گزارنے کے باوجود ان مسائل پر قابو نہیں پا سکی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار کچھ بنیادی چیزوں پر ہے اور وہ بنیادی چیزیں کیا ہیں۔ کیا ریاست مقتدر ہے، کیا ریاست، بین الاقوامی اور استکباری اداروں کے پنجوں سے آزاد ہے۔ اس وقت امریکا کے پنجے پورے وجود کے ساتھ ہمارے ملک میں گھڑے ہوئے ہیں، پاکستان کی سرزمین عالمی استعمار کی چراگاہ بنی ہوئی ہے، امریکی سی آئی اے یہاں پر اپنا مکمل سسٹم بنا چکی ہے، ریمنڈڈیوس یہاں پر کارروائی کرتا ہے اور ہماری آزاد عدلیہ اسے چھوڑ دیتی ہے جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں عوام کو بے وقوف بناتی رہیں اور مسلسل جھوٹ پے جھوٹ بولا گیا، تو ایسے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کامیاب جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ہوتی تو وہ آزاد نہیں رہ سکتی، چاہے وہ زرداری کی حکومت ہو یا پھر نواز شریف کی۔
جب حکومت امریکی اور سعودی ایڈ پر چلتی ہو تو وہاں پر خودمختاری اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ حکومت ورلڈ بنک سے قرضے شرائط پر لیتی ہے اور وہ شرائط یہ ہیں کہ جو پیسے ہم دے رہے ہیں وہ یہاں یہاں خرچ کر سکتے ہیں ورنہ کوئی قرضہ نہیں دیا جائے گا۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف ان سے جو بھی ڈیل ہوتی ہے وہ ہر اس اقدام کی ممانعت کرتے ہیں، جس سے پاکستان استقلال کی جانب جائے۔ رینٹل پاور پراجیکٹ اور اس طرح کے دیگر سب، ان کی مرضی سے شروع ہوئے۔ جب کرائے پر چیزیں لیں گے اور ہمیشہ اُن کے دست نگر رہیں گے تو پھر اس کے نتائج یہی ہونگے، استعماری ممالک کا ایجنڈا بالکل واضح ہے تو پھر اس ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے جو بھی سیاسی پارٹیاں ملکی منصب تک پہنچی ہیں اُن کا پہلا ہدف اپنی سیاسی پارٹی اور حاکمیت کی حفاظت ہوتا ہے اور اُس حاکمیت کی حفاظت کے لئے وہ ہر قیمت دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ چاہے اُس کے لئے ملکی خودمختاری اور سلامتی کو ہی داؤ پر کیوں نہ لگانا پڑے۔ 
اس لئے جب ایران کی طرف سے سستی بجلی مل رہی ہوتی ہے تو یہ خریدتے نہیں، جبکہ رینٹل پاور پلانٹ سے 41 روپے فی یونٹ بجلی خریدی جا رہی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس نے ملک کو برباد کر دیا ہے، ادارے تباہ ہوتے جا رہے ہیں، انڈسٹریز رک چکی ہیں، دس لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں، ان سب چیزوں کو سامنے رکھیں تو حکومتی کارکردگی مایوس کن ہے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، واضح ہو چکا ہے کہ پی این ایس مہران بیس پر حملے میں اندر کے بھیدی ملوث تھے، اور اب تو تحقیقاتی رپورٹ میں بھی واضح ہو چکا ہے، دوسری جانب دو مئی کے واقعہ اور اس سے ملتے جلتے دیگر واقعات، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج اور سکیورٹی کے اداروں میں شدت پسند عناصر سرائیت کر چکے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:میں یہ سمجھتا ہوں کہ شدت پسند حلقے پہلے سے ہی ان کے اندر اور باہر موجود تھے۔ جب طالبان بنی تو کسی مذہبی جماعت یا سیاسی پارٹی نے نہیں بنایا۔ بلکہ انہی اداروں نے بنایا اور اسے دوام بخشا اور خود سرپرستی کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے دنیا بھر سے طالبان اکھٹے کئے اور امریکی ڈالرز کی بوریاں ان پر خرچ کرتے رہے۔ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کو جس انداز میں ہیرو بنایا گیا، وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہی لوگوں نے مسعود اظہر جیسے لوگوں کو بڑے بڑے جہادی کے طور پر پیش کیا۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی سے لیکر خیبر تک بڑی بڑی زلفوں والے اسلحہ لیکر پھرتے تھے اور اسلام آباد کی اہم شاہرایں ان کے اسلحہ کی نمائش گاہ ہوا کرتی تھیں، انہیں خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے انہیں بنایا تھا ، اُن کے حامی اور درمند آج بھی اُن اداروں میں موجود ہیں جو وطن عزیز کو کمزور کرنے اور دشمن کے ایجنڈے کو اپنا نصب العین بنایا ہوا ہے۔
اسلام ٹائمز:پاراچنار کے 26 مغویوں کی رہائی، پاک فوج کی جانب سے اپر اور لور کرم میں آپریشن کی تیاری، کیا اس دفعہ بھی یہ عمل نمائشی ہو گا یا اب کچھ توقعات وابستہ کی جانی چاہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا ایک خاص بیک گراؤنڈ ہے۔ یہ سارا المیہ امریکی سی آئی اے اور پاکستان کی آئی ایس آئی کے درمیان معاملہ ہے۔ اب اس میں اگر آپریشن ہوتا ہے تو اُن کے خلاف ضرور ہونا چاہیے جو علاقے کے امن کو تباہ کرتے ہیں، جو امریکی مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ اب جب 26 لوگ آزاد ہوئے تو وہ کیسے ہوئے؟ ایسا کیوں ہے کہ اُن کو پکڑا نہیں گیا، جب حکومت کو پتہ ہے کہ ان لوگوں نے پکڑا تھا تو ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی، کئی دفعہ ان جرائم پیشہ افراد نے روڈ سے پارا چنار کے پاسیوں کو اغوا کیا اور کروڑوں روپے لیکر چھوڑ دیا، ان تمام سوالوں کے جواب ہمیں نہیں مل رہے۔ اب آپریشن کا کہا جا رہا ہے، لگتا ہے کہ شور شرابہ اور تشہیر زیادہ ہو گی لیکن عملی اقدام نہ ہونے کے برابر۔ اُدھر آپریشن کی بات ہوئی تو ادھر ایک طالبان گروپ کے کمانڈر نے خودکش دھماکوں کو حرام قرار دیا اور اپنے اختلاف کو میڈیا تک پہنچا دیا۔ اس بیان نے کچھ شکوک و شبہات پیدا کر دیئے ہیں، کیونکہ لگ ایسے رہا ہے کہ جن لوگوں کیخلاف آپریشن ہونا ہے، ان سے اسطرح کے بیانات دلوا رہے ہیں اور پھر آخر میں کہا جائے گا کہ ہتھیار پھینکنے والوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ اس لئے کوئی امید نہیں ہے کہ آپریشن انہیں لوگوں کیخلاف ہو رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نمائشی عمل ہے، خدا کرے ایسا نہ ہو، لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے کوئی روشن مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے۔
اسلام ٹائمز:شہید علامہ عارف حسینی الحسینی کی برسی کے عظیم اجتماع کے کیا اہداف مقرر کئے گئے ہیں اور اس وقت برسی کے انتظامات کہاں تک پہنچے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: پاکستان میں جس شخصیت نے پاکستان کو وحدت کی لڑی میں پرونے کی کوشش کی، جس شخص نے پاکستان میں شیعہ و سنی کی تفریق کو مٹانے کی کوشش کی، جس نے پاکستان میں ملکی اُمنگوں کا ترجمان بن کر پاکستان میں ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کی، جس شخص نے امام خمینی رہ کے افکار کو پاکستان کے تمام مسلمان اور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی اور اُسی کی پاداش میں استعمار کے گماشتوں نے یہ سمجھا کہ پاکستان میں یہ ایک نیا خمینی جنم لے رہا ہے۔ اُس شخص کو اُسی جرم میں پاداش میں شہادت نوش کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
 شہید حسینی صرف شیعہ لیڈر ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کے بھی رہنماء تھے، اگرچہ انہیں وہ فرصت نہیں ملی، لیکن انہوں نے کم وقت میں بہت زیادہ کام کیا اور اپنی آواز کو ملک کے کونے کونے تک پہنچایا۔ لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کا انتہائی حقیقی اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ لٰہذا اُن کے افکار کو زندہ کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔ شہید کے افکار زندہ رکھنے سے معاشرے کے اندر ایک نئی روح پیدا ہوتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے ابتدا سے ہی قائد شہید کی شہادت کے دن کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا، لٰہذا گزشتہ چار سال سے ہر سال شہید کی برسی کو قومی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، اس دفعہ شہید کی برسی کا پروگرام 24 جولائی کو منعقد کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک بھر میں دعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں، تمام اراکین پارلیمنٹ و سینیٹ کو برسی میں شرکت کی دعوت دی جا چکی ہے۔
 امسال کنونشن "استقلال پاکستان کنونش" کے نام کرایا جا رہا ہے چونکہ ہماری خواہش استقلال پاکستان سے متعلق تمام ایشوز کو ڈسکس کیا جائے۔ ان ایشوز میں ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ، فرقہ وارایت، بے روزگاری، امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، ٹل پاراچنار روڈ کی بندش، امریکی اور سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے سمیت تمام اہم ایشوز کو اٹھایا جائے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ کنونشن مین تمام سیاسی جماعتیں، مذہبی پارٹیاں ان ایشوز پر موقف بیان کریں اور مظلوم سے حمایت اور باطل سے اپنی نفرت کا اظہار کر کے ان سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ جہاں تک اس کی تیاریوں کا تعلق ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اب تک سترہ ہزار سے زائد شخصیات کو پاکستان کے اندر دعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں۔ اس دفعہ پارا چنار کے مظلوموں کے مسئلہ کو اٹھانا اس طرح ضروری ہے، جس طرح فلسطین کی مظلومیت کو اٹھانا۔
 لہذا پارا چنار روڈ کی بندش کے خلاف ہم نے پورے پاکستان میں ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے، کنونشن کے اسی روز ایک امن کارواں پاراچنار کی جانب لیکر جا رہے ہیں، ملک بھر سے آنے والے تمام شرکاء سے کہا جا رہا ہے کہ اس کارواں میں اپنا حصہ ڈالیں، ہر شرکت کرنے والا شخص پانچ کلو اجناس جو کسی بھی شکل میں ہو، کنونشن کے روز جمع کرائے گا۔ اس پر ملک بھر میں کام شروع کر دیا گیا ہے، اُس امداد کو ہم ٹرکوں کے قافلے میں بدل کر انشاء اللہ تعالیٰ ایک کاروان امن قافلہ لیکر پاراچنار کی جانب روانہ ہونگے۔ ہمیں یہ توقع ہے کہ کاروانِ امن میں شیعہ سنی سب شریک ہونگے اور یہ آواز دنیا بھر میں سنی جائے گی۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، کیا کاروان امن میں کنونشن کے شرکاء بھی شرکت کریں گے یا پھر صرف اجناس ہی لیکر جائیں گے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: پروگرام یہ ہے کہ ٹرکوں کی صورت میں اجناس اور ایک محدود تعداد میں لوگوں کو ساتھ لے جایا جائے، چونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک لاکھ انسانوں کو پاراچنار لے جایا جائے، لہذا ہم محدود تعداد میں تجارتی قافلے کو شامل کریں گے، جو یہاں سے جائیں گے اور پارا چنار کے لوگ اُن کا بھر پورا استقبال کریں گے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب ایک طرف آپریشن شروع کر دیا گیا، دوسری جانب کاروان امن لیکر جا رہے ہیں، تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ طالبان کے حملے کا امکان موجود ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:اگر آپریشن امن دشمن عناصر کے خلاف ہو رہا ہے تو کوئی خطرہ نہیں ہے چونکہ دہشت گرد بھاگ رہے ہوں گے، لیکن آپریشن اگر اُن لوگوں کے خلاف ہو رہا ہے اور یہ فقط نمائشی ہے تو پھر خطرہ موجود ہے۔ لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ آپریشن ہو یا نہ ہو قافلہ جائے گا، کیونکہ یہ کاروان امن ہے، جس میں دوائیاں ہونگی، اجناس ہو گی، اور پرامن لوگ ہونگے، ہمارے ہاتھ میں امن اور دوستی کا جھنڈا ہو گا اور محبت کا پیغام ہو گا۔ اب اگر کوئی خطرہ موجود ہے تو وہ آپریشن کی صورت میں بھی ہو گا اور نہ ہونے کی صورت میں بھی، خطرہ دونوں صورت میں موجود ہے، اور اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، کیا کاروان امن قافلے سے متعلق انتظامیہ سے کوئی رابطہ ہوا ہے، تاکہ کاروان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:اس حوالے سے پریس کانفرس ہو گی، جس میں باقاعدہ ان تمام ضروریات کا اعلان کر دیا جائے گا اور اُس کے بعد جو متعلقہ اداروں کو خطوط لکھے جائیں گے اور جو باقی ادارے ہیں اُن کو کانفرنس کے بعد تمام حالات و تقاضوں سے متعلق آگاہ کیا جائے گا، تاکہ وہ اس پرامن قافلے کو پارا چنار تک پہنچانے میں معاون اور مددگار ہوں گے۔
اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، کنونشن کی دعوت سب کو دی جا رہی ہے یا پھر مخصوص افراد کو ہی بلایا جا رہا ہے۔؟
علامہ محمد امین شہیدی:جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ مجلس وحدت مسلمین ایک بڑا عنوان ہے، تمام مسلمانوں کے درمیان وحدت کا آغاز کرنا ہے اور وہ ہے مکتب اہل بیت ع کے فرزندوں کے درمیان اتحاد اور وحدت سے شروع ہوتا ہے۔ اس حوالے سے معاشرے کے اندرے جتنے بھی مختلف الخیال اور فعال لوگ موجود ہیں، سب کو دعوت نامے پہنچا دیئے ہیں اور اس میں ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص گروپ یا گروہ کو رد کیا گیا ہو، یا کسی کی نفی کی گئی ہو۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سترہ ہزار شخصیا ت ہیں جن کو دعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں البتہ خاص لوگ ایسے ہیں جن کو خصوصی دعوت کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ایک علماء پر مشتمل ٹیم بنا دی گئی ہے جو اُن کو بالمشافہ ملاقات میں دعوت دے گی۔ ہمیں اُمید ہے اُن بزرگوں کو اور اُن شخصیات کو ملکی حالات اور مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قومی اور عظیم اجتماع میں شرکت کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 82838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش