0
Saturday 15 Oct 2011 00:57

امریکا سے بگڑے تعلقات پر پاکستانی عوام خوش ہیں، انکی نظر میں اصل برائی کی جڑ امریکا ہی ہے، اکانومسٹ

امریکا سے بگڑے تعلقات پر پاکستانی عوام خوش ہیں، انکی نظر میں اصل برائی کی جڑ امریکا ہی ہے، اکانومسٹ
کراچی:اسلام ٹائمز۔ برطانوی جریدے کے مطابق اکانومسٹ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان سنگین ہوتے تعلقات کے حوالے سے مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان کے کرپٹ سیاسی رہنما، حکومت کا تختہ الٹنے پر آمادہ فوج، صحافیوں کا قتل اور آزاد خیال شخصیات کو قتل کرتے انتہاپسند، امریکی سفارتکاروں کو پریشان کئے رکھیں گے۔ اسلام آباد میں رواں برس کے تیسرے نئے سی آئی اے کے چیف اسٹیشن کو تعینات کر دیا گیا۔ امریکی پالیسیاں متضاد ہے، امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد معطل کیا ہوا ہے، امریکا نے کئی ماہ سے پاکستانی فوج کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی، لیکن دوسری طرف اپنے ٹرینرز کو بھی واپس نہیں بلایا، امریکی سفارتکار پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بے چین ہیں تو دوسری جانب اس امر پر بھی پریشان ہیں کہ وہ پاکستانی مدد کے بغیر مغربی ممالک میں دہشتگرد حملوں کو کیسے روکیں گے۔ پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کا خدشہ بھی کچھ حلقوں میں ہے۔
برطانوی جریدے اکانومسٹ کی 15 اکتوبر کی اشاعت میں "پاک امریکا، آخری انجام تک" کے نام سے شائع مضمون میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکا کے بگڑتے تعلقات پر خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ پاک امریکا کشیدگی انتہا تک جا پہنچی، لیکن دونوں طرف سے کسی میں ہمت نہیں کہ وہ ان تعلقات کو ختم کرے۔ عالمی جوہری اسلحے میں تخفیف اور وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے پھیلاوٴ سے روکنے کی کوششوں میں امریکا کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ پاکستان کو مخالف سمجھتا ہے۔ امریکا تیزی سے بھارت کے ساتھ اقتصادی اور فوجی روابط میں توسیع دے رہا ہے۔ 
جریدے کے مطابق گذشتہ چھ دہائیوں پر مشتمل پاک امریکا دوطرفہ تعلقات اور خصوصاً انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان روابط بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ اس کشیدگی کا آغاز امریکا کی طرف سے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد سے ہوا، امریکی اقدام کو پاکستان نے اپنی انتہائی توہین گردانا۔ گزشتہ ماہ مائیک مولن کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے حقانی نیٹ ورک سے روابط کے الزامات لگائے۔ مضمون کے مطابق پاکستان امریکا بگڑے تعلقات سے پاکستانی عوام خوش ہیں۔ 80 فیصد پاکستانی امریکا مخالف ہیں اور ان کی نظر میں اصل برائی کی جڑ امریکا ہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اوباما نے دھیمے انداز میں کہا کہ دنیا پاکستان کے رویوں کو مستقل جانچے۔ اسلام آباد میں نئے سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو تعینات کر دیا گیا ہے، جو رواں برس تعینات ہونے والے تیسرے اسٹیشن چیف ہیں۔ اسلام آباد میں ایک اعلٰی امریکی اہلکار نے گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی کشیدگی پر کہا کہ بہت سے لوگ اس کوشش میں ہیں کہ تعلقات اس حد تک خراب نہیں ہونے چاہیے کہ واپسی کا رستہ نہ رہے۔ 
پاکستان اس بات پر بھی خفا ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ حامد کرزئی کے تعلقات کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ پاکستان کی فوج نے کچھ وجوہ پر پر امریکا کو جواب دے دیا ہے اور انہوں نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کے نزدیک ایک ہی وقت میں سارے محاذ کھولنا خطرناک حکمت عملی ہے۔ پاکستانی حکام امریکی مطالبے کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ افغانستان میں "جنگ اور بات چیت" کی حکمت عملی سے اوباما چاہتا ہے کہ پاکستانی فوج عسکریت پسندوں پر قابو پانے کے لئے انہیں قتل کرے، انہیں پکڑے اور اسی وقت انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ جریدہ کہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں افغانستان مسئلہ بنا رہے گا اور آئندہ مہینے مزید بحران پیدا کر سکتے ہیں۔ افغانستان پر غیر ملکی کانفرنسیں نومبر میں استبول اور دسمبر میں بون میں ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 106305
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش