0
Sunday 8 Jan 2012 19:20

آئی ایس آئی نے امریکی سی آئی اے کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا، رپورٹ

آئی ایس آئی نے امریکی سی آئی اے کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا، رپورٹ
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں قائم آزاد تحقیقاتی ادارے ’’کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں امریکی سی آئی اے کے ملکی و غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف آئی ایس آئی کی کارروائیوں کے بعد امریکہ کو خفیہ معلومات کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی مہنگی ترین اور متنازع ترین مہم کے دوران پورے سال میں القاعدہ کے صرف چار کمانڈروں کو نشانہ بنایا جا سکا ہے۔ سی آئی اے نے گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں 75 حملوں میں 609 افراد کو ہلاک کیا۔ ان میں سے صرف تین عرب، ایک برطانیہ کا انتہائی مطلوب جنگجو اور چار مقامی طالبان کے مختلف گروہوں کے سرکردہ کمانڈر تھے۔
 
سال 2011ء کے دوران سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی کے درمیان تعاون ایک دوسرے کی مخالفت اور مخاصمت میں بدل گیا۔ لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے والے سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے بعد آئی ایس آئی نے سی آئی اے کے مقامی اور غیر ملکی ایجنٹوں کے کئی سیل بے نقاب کر دیئے جس کی وجہ سے امریکی ایجنسی کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انسانی انٹیلی جنس (ہیومن انٹیلی جنس) سے محروم ہونا پڑا جو ڈرون حملوں کے موثر ہونے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ آئی ایس آئی کے ساتھ تنازع کے دوران سی آئی اے نے 2011ء میں کئی ایسے ڈرون حملے بھی کیے جن کا مقصد جنگجوؤں کا خاتمہ نہیں بلکہ پاکستان کو سبق سکھانا تھا۔ 2011 ء میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کے درمیان پاکستان کے ساتھ تعلقات اور ڈرون حملوں کے اوقات کے بارے میں شدید اختلافات پائے گئے۔ امریکی ایجنسی نے اپنی ہی حکومت کی پبلک ڈپلومیسی کو کئی مواقع پر کامیابی سے نقصان پہنچایا۔ 

کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر کے اعداد وشمار کے مطابق 2004ء سے اب تک ہونے والے ڈرون حملوں کی تعداد 303 ہو چکی ہے، ان حملوں میں 2661 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2010 ء کے مقابلے میں 2011 ء کے دوران ڈرون حملوں کی تعداد میں 43 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں 35 فیصد کمی آئی ہے۔ 2010ء ڈرون حملوں کی تاریخ کا مہلک ترین سال تھا جب 132 ڈرون حملوں میں 938 افراد مارے گئے تھے۔ 2011ء کے دوران جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس سے پہلے جنوبی وزیرستان میں بہت کم ڈرون حملے ہوتے تھے۔ اس کا اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2010 ء میں ہونے والے 132 ڈرون حملوں میں سے صرف 9 حملے جنوبی وزیرستان میں ہوئے تھے۔ 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 23 ہو گئی، گویا 60 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ شمالی وزیرستان میں 50 جبکہ کرم ایجنسی میں 2 خودکش حملے کیے گئے۔ امریکی ڈرون طیاروں نے 2011ء کے دوران پاکستانی علاقے میں 242 ہیل فائر میزائل فائر کیے۔ 38 گھر، 37 گاڑیاں، ایک مدرسہ اور ایک کیمپ تباہ ہوا۔ ایک ہیل فائر میزائل کی قیمت 68 ہزار امریکی ڈالر ہے، یوں سی آئی اے نے ایک سال میں ڈرون طیاروں کے صرف ایمونیشن پر ایک کروڑ، چونسٹھ لاکھ ڈالر (ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے) صرف کر دیئے۔ 

2011ء میں ایک مشتبہ شخص کو ہلاک کرنے پر اوسطاَ 27 ہزار امریکی ڈالر (چوبیس لاکھ پاکستانی روپے ) خرچ ہوئے۔ اگر ڈرون طیاروں کے ایندھن، عملے کی تنخواہوں، انتظامی اور سیٹلائیٹس کے اخراجات شامل کر دیئے جائیں تو ایک مشتبہ جنگجو کو ہلاک کرنے کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ امریکی ٹیکس دہندگان کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے کہ صرف چار القاعدہ اور چار طالبان کمانڈروں کو ہلاک کرنے کے لیے اتنی بھاری رقم پھونک دی گئی اور اس دوران جنگ کے ایک اہم اتحادی پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی بگاڑ لیے گئے۔ امریکی دعووں کے برعکس کہ گزشتہ 8 سال کے دوران صرف پچاس عام شہری ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں۔ ایک برطانوی ادارے بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم نے انکشاف کیا ہے کہ کم از کم 391 اور زیادہ سے زیادہ 780 عام شہری جن میں کم ازکم 175 بچے بھی شامل ہیں مارے جا چکے ہیں۔ 

کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر پہلے سے اپنی کئی رپورٹوں میں اس بات کو اجاگر کر چکا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو جان بوجھ کر چھپایا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت بظاہر ڈرون حملوں کی مخالفت کرتی ہے لیکن اس کے ’’گمنام‘‘ سیکیورٹی حکام نے 2011 ء کے دوران بھی ڈرون حملوں کے بارے میں غلط معلومات جاری کرنے کا اپنا مشکوک کردار جاری رکھا۔ حکومت ڈرون حملوں میں مرنے والے عام شہریوں اور جنگجوؤں کا جامع ریکارڈ مرتب کرنے کی کوئی پالیسی وضع کرنے میں بھی ناکام رہی۔ ڈرون حملوں میں مرنے والے عام شہریوں کے لواحقین کی امداد کا بھی کوئی جامع پروگرام موجود نہیں تاہم 17 مارچ کو قبائلی امن جرگہ میں مارے جانے والے اراکین کے لواحقین کے لیے فی کس 3لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا۔ 2011ء میں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔
 
عمران خان نے پشاور، کراچی اور اسلام آباد میں کامیاب دھرنے دیئے جبکہ معاشرے کے ہر طبقے نے اپنے اپنے طور پر ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ عوامی احتجاج کی گونج پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بھی پہنچی اور قومی اسمبلی، سینیٹ، پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخواہ اسمبلی نے بھی ڈرون حملوں کے خلاف قراردادیں پاس کیں۔ 2011ء کے دوران ڈرون حملوں کے خلاف حافظ محمد سعید، مولانا سمیع الحق اور مسلم لیگ ن سے وابستہ پشاور کے ایک وکیل نے لاہور ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں آئینی ترامیم جمع کرائیں جن کی سماعت ابھی جاری ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی کوششوں نے سی آئی اے کو پریشان کیے رکھا اور پاکستان میں اس کے سٹیشن چیف جوناتھن بینک اور ایک اور اعلیٰ عہدیدار جان رزو کو پاکستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں قائم آزاد تحقیقاتی ادارہ کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر ڈرون حملوں پر مسلسل نظر رکھتا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 128610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش