0
Wednesday 22 Feb 2012 23:31

فضل حقانی گروپ کو کیفر کردار تک پہنچانے اور شہریوں پر فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا مطالبہ

فضل حقانی گروپ کو کیفر کردار تک پہنچانے اور شہریوں پر فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا مطالبہ
یوتھ آف پارا چنار کے پلیٹ فارم سے پشاور اور پارا چنار کے شیعہ عمائدین نے فوری طور پر عملدرآمد کیلئے ۴ مطالبات پیش کئے ہیں، جن میں فضل سعید حقانی نیٹ ورک کو کیفر کردار تک پہنچانے، پارا چنار کے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرنے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا کورٹ مارشل، ایک سال قبل اغواء ہونے والے طالبعلم قیصر سمیت دو دیگر معصوم بچوں کی فی الفور رہائی اور پاراچنار کیلئے منظور کردہ فاٹا میڈیکل کالج اور تدریسی ہسپتال پر فوری طور پر کام شروع کرنا شامل ہے۔

پشاور پریس کلب میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہتمم جامعہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی علامہ عابد حسین شاکری، صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پشاور ڈویژن ثاقب بنگش، صدر طوری بنگش سپریم کونسل حاجی گلاب حسین طوری، جنرل سیکرٹری امامیہ جرگہ خیبر پختونخوا مظفر علی آخونزادہ، صدر انجمن مومنین پشاور سید حامد حسین، صدر پی پی کرم ایجنسی ڈاکٹر ریاض حسین شاہ اور صدر کرم اسٹوڈنٹس اعزاز طوری نے جمعتہ المبارک کے روز پارا چنار میں ہونے والے خودکش حملے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم پارا چنار دھماکے کے نقصانات، فوج اور ایف سی کے کردار، دھماکے میں ملوث عناصر اور ۵ سال بعد شروع ہونے والی امن کی کوششوں کو درپیش چیلینجز واضح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ میڈیا ان مسائل کو بہتر انداز میں واضح کر کے نہ صرف پاراچنار کے عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کو منظر عام پر لائے بلکہ ساتھ ہی شیعہ، سنی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف وہ عناصر جو اس دھماکے میں ملوث ہیں کو بے نقاب کیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ اب کرم ایجنسی کے اکثریتی عوام ان دہشتگرد گروہوں اور انکی سازشوں کو بخوبی سمجھ چکے ہیں، تاہم ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر گمراہ نہ ہو جائیں اور امن کی کوششوں کو نقصان نہ پہنچے۔

شیعہ عمائدین نے پریس کانفرنس میں قلیل تعداد میں موجود میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ۱۷ فروری ۲۰۱۲ء بروز جمعہ دوپہر دو بجے پارا چنار شہر کے کُرمی بازار میں موبائل مارکیٹ میں دھماکہ ہوا، جس کے باعث ایک مرتبہ پھر پاراچنار کی فضاء سوگوار ہوئی اور بہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوا، واضح رہے کی فروری ۲۰۰۸ء الیکشن کیمپ میں ہونے والے دھماکے کے بعد یہ دوسرا بڑا دھماکہ تھا، ان کا کہنا تھا کہ ۲۰۰۸ء کے دھماکے کے بعد پاراچنا ر کے عوام نے رضاکارانہ طور پر پاسداران کے نام سے ایک امن کمیٹی قائم کی، جس کے اراکین پاراچنار کے تمام داخلی راستوں پر باقاعدگی سے چیکینگ کرتے تھے اور ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء تک پاراچنار میں اگر کوئی خودکش حملہ نہیں ہوا تو اسکا کریڈٹ پاسداران کو ہی کو جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۱ء امن معاہدے کے بعد تحفظ فراہم کرنے کی شرط پر اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے رضاکاروں نے تمام داخلی و خارجی راستوں پر موجود چیک پوسٹیں خالی کر دیں اور وہاں کے عوام نے فوج کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔

مقررین نے کہا کہ گزشتہ چار سال پارا چنار کے بدترین محاصرے و ناکہ بندی کے دوران ٹل پاراچنار روڈ صرف اور صرف طالبان مخالف پاراچنار کے طوری بنگش قبائل کے لئے بند تھا، جبکہ سکیورٹی فورسز اور وزیرستان اور اورکزئی سے کرم ایجنسی بھاگنے والے طالبان دونوں کے لئے یہ سڑک کھلی تھی، اس عرصہ کے دوران پاراچنار کے عوام نے حملہ آور طالبان لشکروں کی کارروائیوں میں ۱۵۰۰ سے زائد شہداء کی قربانی دی اور ۵۰۰۰ سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نہ صرف پاراچنار بلکہ وہاں موجود آرمی و ایف سی بلکہ پاکستان کا دفاع کیا۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران پاراچنار کے بدترین محاصرے و ناکہ بندی کے دوران جب پاراچنار شہر اور اپر کرم کی چیک پوسٹوں کی سیکورٹی طوری بنگش رضا کاروں کے ہاتھ میں تھی تو کوئی بھی دہشتگردی یا خودکش حملہ نہیں ہوا، لیکن ظلم کی انتہاء کا مظاہرہ اُس وقت ہوا کہ جب حالیہ دھماکہ کے بعد شہریوں نے سکیورٹی اداروں کی ناکامی کیخلاف پرامن احتجاج شروع کیا تو فوج اور ایف سی کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں نے مظاہرین کی طرف مارچ کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں ۶ افراد موقع پر شہید ہو گئے اور ظلم اور سفاکی کی انتہاء کہ ایک نوجوان کو ٹینک سے کچل کے شہید کر دیا گیا۔

شیعہ رہنمائوں نے کہا کہ فوج اور ایف سی نے اپنا کام یہاں پر ختم نہیں کیا بلکہ دھماکہ کے زخمیوں کو خون کا عطیہ دیکر واپس آنے والے سکول کے معصوم طالب علموں پر بھی فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 4 طالبعلم شہید ہوئے، جس کی مثال غزہ میں غاصب اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی درندہ صفت افواج کے علاوہ دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملتی، ان کا کہنا تھا کہ گو کہ کسی بھی ملک میں امن وامان قائم رکھنا حکومتی اداروں باالخصوص افواج کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ہم پاراچنار میں 2012ء کے آغاز سے امن قائم رکھنے اور راستوں کو کھولنے میں فوج کے اقدام کو سراہتے ہیں لیکن دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا بنیادی حق مانگنا اور پُرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتب سے ہو، لیکن سمجھ نہیں آتی کہ پاراچنار میں بے گناہ معصوم عوام پر ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے چڑھائی کرکے پاک فوج اور ایف سی کے اہلکار کس طرز جمہوریت اور کیسے قوائد و ضوابط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ 

مقررین نے کہا کہ اگر حکومتی ادارے واقعی امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو چار سال سے پاراچنار کے کانوائیوں پر حملے کرنے والے اور خودکش دھماکوں میں ملوث دہشتگرد گروہ کے سرغنہ فضل سعید حقانی جو کہ ٹل پاراچنار روڈ پر واقع اُوچت کلی میں مقیم ہے اور کھلم کھلا ہر واردات کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے کیخلاف خاموشی اور آپریشن کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بند کیا جائے اور سنجیدہ کارروائی عمل میں لائی جائے۔

عمائدین نے کہا کہ صد افسوس! کہ پاراچنار کے معصوم لوگ اپنے بنیادی حقوق کے لئے اگر آواز اٹھاتے ہیں تو حکومتی اداروں سے یہ برداشت نہیں ہوتا اور نہ صرف گولہ باری پر اکتفا کیا جاتا ہے بلکہ ٹینکوں سے عوام کو کچلنے کا ایک نیا طرز اپنا لیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے بے گناہ اور پر امن مظاہرین پر یہ دوسری بڑی جارحیت ہے، اس سے قبل اگست ۲۰۱۱ء میں مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ۵ افراد زخمی ہوگئے تھے، مقررین نے کہا کہ پاراچنار کے تعلیم یافتہ، باشعور اور محب وطن طوری بنگش قبائل جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک قربانیاں دی ہیں کو دیوار سے لگا گر سوتیلی ماں جیسا سلوک و نسلی کشی کرنا پاکستان کے نظریے کے کیخلاف اقدام ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ قائداعظم کو کافر اعظم کہنے والے طبقے کی باقیات طالبان، کالعدم تنظیموں اور نام نہاد دفاع پاکستان کونسل کی ریاستی سرپرستی آستین کے سانپ پالنے کے مترادف ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار پر طالبان مظالم اور محاصرے کے خلاف شدید گرمی میں یوتھ آف پاراچنار نے اسلام آباد میں چار ماہ مسلسل احتجاجی کیمپ لگایا تھا ،اگر ہمارے ساتھ ظلم و ریاستی جبر بند نہ ہوا تو ہم آئندہ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی جی ایچ کیو کے سامنے احتجاجی دھرنا دینگے اور ریلی نکالیں گے۔

مقررین نے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمعتہ المبارک کے روز پارا چنار میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے فضل سعید حقانی نیٹ ورک کو جی ایچ کیو اور حمزہ کیمپ حملوں کے مجرموں کی طرح کیفر کردار تک پہنچایا جائے، خودکش حملے کے درجنوں متاثرین اور مجروحین پر براہ راست فائرنگ کرنے اور ایک نوجوان کو ٹینک تلے کچلنے کر ریاستی دہشتگردی کے مرتکب ہونے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا کورٹ مارشل کر کے عبرت ناک سزا دی جائے، طالبان کے ہاتھوں ایک سال قبل اغوا ہونے والے پاراچنار کے طالبعلم قیصر سمیت دو دیگر معصوم بچوں کو فی الفور رہا کرایا جائے۔
 
اس کے علاوہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی طرف سے پاراچنار کیلئے منظور کردہ فاٹا میڈیکل کالج اور تدریسی ہسپتال پر کام فوری طور پر شروع کیا جائے، اس پریس کانفرنس کا ایک قابل فکر پہلو یہ ہے کہ میڈیا کے اراکین نے اہل تشیع کے اس ایونٹ میں بھی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا اور انتہائی قلیل تعداد میں صحافیوں نے پریس کانفرنس کی کوریج کی۔
خبر کا کوڈ : 139950
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش