0
Sunday 27 May 2012 00:27

سانحہ سردارے والا (ڈی آئی خان) کی سولہویں برسی

سانحہ سردارے والا (ڈی آئی خان) کی سولہویں برسی
پاکستان میں فرقہ کی بنیاد پر ہونے والی نسل کشی کوئی نئی بات نہیں، سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق کے دور میں اپنائی جانے والی ریاستی پالیسوں کا خمیازہ پاکستانی قوم آج بھی بھگت رہی ہے، اور اب تک ہزاروں افراد فرقہ پرست دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کے درندہ صفت کارندوں کی بربریت کا نشانہ بن کر منصب شہادت پر فائز ہو چکے ہیں۔ ان شہادتوں میں سب سے زیادہ حصہ مکتب تشیع کے پیروکاروں کا ہے، اور ان شہداء کا پاک خون آج بھی یہ گواہی دے رہا ہے کہ انہوں نے ظالم کے سامنے سر نہ جھکا کر اپنے مذہب و مکتب کی تعلیمات کی درست ترجمانی کی۔ پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان وہ شہر ہے جہاں اب تک سینکڑوں بے گناہ تشیع جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔
 
دیگر دلخراش واقعات کی طرح ایک سانحہ 26 مئی 1996ء کو پیش آیا، جس میں گائوں سردارے والا سے قافلہ کی شکل میں دوسرے گائوں جانے والے عزاداروں پر درندہ صفت دہشتگردوں نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں دو معصوم بچے اور دو نوجوان شہید ہوئے، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے، اس سانحہ کی 16ویں برسی کے موقع پر اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کو اس دلخراش واقعہ کی یاد تازہ کرنے اور ان عظیم شہداء کی قربانی سے آگاہی کیلئے رپورٹ مرتب کی ہے،جو حاضر خدمت ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے تقریباً بیس کلومیٹر شمال مغرب میں بستی سردارے والا واقع ہے، یہ ایک دیہی پسماندہ علاقہ ہے، جہاں پر پاکستان کے دوسرے دیہی علاقوں کی طرح شرح خواندگی انتہائی کم ہے، زیادہ تر لوگوں کا دارومدار زراعت پر ہے، یہاں کے لوگ نہایت ہی محنتی، جفاکش، شجاع اور اسلام دوست ہیں۔ اس علاقہ میں زیادہ تر آبادی بلوچ قبائل کی ہے، جو یہاں کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس بستی میں اہل تشیع کی بھی کافی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، جو انتہائی اسلام پسند، محب اہلبیت ع ہے، اس علاقہ میں ایک امام بارگاہ حسینیہ اور جامع مسجد قائم ہے، بستی سردارے والا کے تشیع گزشتہ کئی سالوں سے قریبی علاقہ گرہ رحمان (جو بستی سردارے والا سے 15کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے) 8 محرم الحرام کو ایک جلوس کی صورت میں جا کر عزاداری سید الشہداء ع کا اہتمام کرتے تھے۔

26 مئی 1996ء کو 50 افراد پر مشتمل ایک جلوس علم مبارک ہاتھ میں تھامے دو ویگنوں پر سوار گرہ رحمان کی جانب روانہ ہوا، اس جلوس میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے، البتہ زیادہ تر تعداد نوجوانوں اور بچوں کی تھی، چونکہ یہاں کے لوگ نہایت پرامن، سادہ لوح تھے اور ماضی میں کبھی اس علاقہ میں فرقہ واریت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا، اس تناظر میں اپنے جذبہ عزاداری سیدا لشہداء ع سے سرشار یہ قافلہ کسی خطرہ سے بے خبر منزل کی جانب بڑھ رہا تھا، جبکہ دوسری جانب فرقہ وارانہ دہشتگردی میں ملوث ٹولہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور اس کے بعض نواحی علاقوں میں اپنی مزموم کارروائیاں کر رہا تھا، جب اس دہشتگرد گروہ کو کہیں اور بے گناہوں کا خون میسر نہ آسکا تو اس نے ایک منظم سازش کے تحت بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرہ رحمان جانے والے اس قافلہ پر حملہ کر دیا، ان انسان نما درندوں کے گروہ نے چھپ کر معصوم بچوں اور نہتے نوجوانوں کو نشانہ بنایا۔ 

بستی سردارے والا سے برآمد ہونے والے اس حسینی قافلہ پر گرہ رحمان کے قریب 4 فرقہ پرست دہشتگردوں نے قریبی جھاڑیوں سے برآمد ہو کر کلاشنکوفوں سے اندھا دھند فائرنگ کر دی، اس غیر متوقع حملے نے اچانک قیامت صغریٰ برپا کر دی، ہر طرف گونجنے والے نعرے ان بزدل دشمنوں کو بتا رہے تھے کہ اس ملت کے نوجوانوں کو شہید تو کیا جا سکتا ہے، لیکن یاعلی ع اور یاحسین ع کے ورد سے نہیں روکا جا سکتا۔ بزدلانہ اور غیر متوقع حملہ کے باوجود مظلوم تشیع کی زبانوں پر جاری نعرے اس بات کی دلیل تھے کہ وہ جس عزاداری کے مقصد کیلئے گھروں سے روانہ ہوئے تھے اس عزاداری نے یہی سبق دیا ہے کہ ظالم کے سامنے کبھی جھکنا نہیں، اور کسی بھی حالت میں اہلبیت ع کی محبت و مودت دل میں کم نہ ہونے پائے، اس حملے میں 4 افراد نے جام شہادت نوش کیا جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔

26 مئی 1996ء کو دن ساڑھے بارہ بجے کے قریب رونماء ہونے والے اس افسوسناک سانحہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے طول عرض میں پھیل چکی تھی، ہر طرف سے لوگوں کا جم غفیر غم و غصہ کی حالت میں ڈسٹرکٹ اسپتال ڈیرہ پہنچانا شروع ہو گیا، جب بستی سردارے والا سے چلنے والا یہ لٹا پٹا قافلہ خون میں لت پت نعشوں اور درجنوں زخمیوں کی شکل میں ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا تو ہر طرف کہرام برپا ہو گیا، بوڑھے باپ اپنے نوجوان بیٹوں کی نعشوں کو دیکھ کر یقیناً اللہ تعالٰی سے اس صبر و ہمت کی دعا مانگ رہے ہوں گے جس کا عملی مظاہرہ میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے 18 سالہ جناب علی اکبر علیہ السلام کی میت اٹھاتے ہوئے کیا تھا، اس موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہر شریف آنکھ پرنم اور باضمیر دل مضطرب تھا، اور لوگوں میں فرقہ وارانہ گروہ کے خلاف غم و غصہ عروج پر تھا۔

نوجوانان ملت جعفریہ اپنے سامنے معصوم بچوں اور نوجوانوں کے جنازے اور مضطرب تشیع کی حالت زار دیکھ کر بپھر گئے، اور انتظامیہ سے بھرپور مطالبہ کیا گیا کہ قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے، اور ان دہشتگردوں کو کڑی سے کڑی سزاء دیکر منطقی انجام تک پہنچایا جائے، اسی روز (26مئی 1996ء) بوقت چار بجے تھلا حیدر شاہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ان جانثاران حسین ابن علی علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں پورے ڈیرہ اسماعیل خان اور دیگر علاقے کے تشیع نے بڑی تعداد میں شرکت کی، بعد ازاں نماز جنازہ کے لمحات قیامت خیز تھے، جب لوگوں نے دو نو عمر بچوں (نو اور تیرہ سالہ) اور دو کڑیل جوانوں کے جنازوں کے گرد زیادت کیلئے طواف کیا، ہر باضمیر شخص شہداء کی مظلومیت پر زارو قطار رو کر شہداء اسلام سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کر رہا تھا۔

شہداء سردارے والا کے جنازوں کو ان کے آبائی علاقہ بستی سردارے والا لیجایا گیا، اور دوسرے دن صبح نو بجے نماز جنازہ دوبارہ پڑھائی گئی، جس میں قریبی علاقہ کے تشیع سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کر کے دہشتگردوں کی کھل کر مذمت کی اور یہ باور کرایا گیا کہ دہشتگردوں کا کسی مسلک سے تعلق نہیں بلکہ وہ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں، بعد ازاں شہداء عزاداری امام ع کو امام بارگاہ حسینیہ سردارے والا میں سپرد خاک کیا گیا، اس علاقہ کے تشیع نے چونکہ قاتلین کو پہچان لیا تھا، جن کا تعلق قریبی علاقوں سے تھا، اسی وجہ سے ملزمان پر براہ راست دعویداری کی گئی، جس کے گواہان میں گیارہ زخمیوں کے علاوہ تقریباً چالیس افراد شامل تھے، جنہوں نے عینی شاہدین کی حیثیت سے ملزمان کو اپنے اوپر حملہ آور ہوتے دیکھا تھا۔

پولیس نے کارروائی عمل میں لاتے ہوئے 14 جون 1996ء کو ایک ملزم محمد ریاض ولد محمد زمان سکنہ حسام کو گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لے لیا، اور دو روز بعد ملزم محمد ریاض کو جوڈیشل مجسٹریٹ درجہ اول ثمین جان کی عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے فاضل عدالت کے سامنے اقبال جرم کر کے اس بھیانک سازش کو آشکار کیا، ڈیرہ اسماعیل خان ضلع کی سرزمین پر پیش آنے والے اس دلخراش واقعہ کو آج 16 سال مکمل ہو گئے ہیں، اس واقعہ کے بعد بھی ڈی آئی خان کی سرزمین تسلسل کیساتھ تشیع کے خون سے سیراب ہوتی گئی، سانحہ سردارے والا کے متاثرین آج بھی اپنے پیاروں کی یادوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، اور شائد آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ انہیں انصاف مل جائے اور شہداء کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 165822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش