4
0
Friday 31 Aug 2012 14:38

غیر وابستہ ممالک کا سربراہی اجلاس، رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا مکمل متن

غیر وابستہ ممالک کا سربراہی اجلاس، رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا مکمل متن
بسم‌ اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌
الحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی الرسول الاعظم الامین و علی الہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین و علی جمیع الانبیاء و المرسلین
آپ سب معزز مہمانوں، غیر وابستہ تحریک کے ملکوں کے سربراہوں، نمائندہ وفود اور اس عالمی اجلاس کے دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم یہاں اس مقصد سے جمع ہوئے ہیں کہ پروردگار عالم کی نصرت و ہدایت سے اس مہم اور تحریک کو کہ جس کی داغ بیل چھے عشرے قبل چند دلسوز اور فرض شناس سیاسی رہنماؤں کی دانشمندی، حالات کے ادراک اور بیباکی کے نتیجے میں پڑی تھی، اسے دنیا کے عصری تقاضوں اور حالات کے مطابق آگے بڑھائيں، بلکہ اس میں نئی جان ڈالیں اور اس میں ایک نیا تحرک پیدا کریں۔

جغرافیائی اعتبار سے دور اور نزدیک کے علاقوں سے ہمارے مہمان یہاں تشریف لائے ہیں، جن کا تعلق گوناگوں قومیتوں اور نسلوں سے ہے اور جو مختلف اعتقادی، ثقافتی، تاریخی اور وراثتی پس منظر کے حامل ہیں، لیکن جیسا کہ اس تحریک کے بانیوں میں سے ایک، احمد سوکارنو نے سنہ 1955ء کے معروف بانڈونگ اجلاس میں کہا تھا، "غیر وابستہ (تحریک) کی تشکیل کی بنیاد جغرافیائی، نسلی اور دینی مماثلت نہیں بلکہ ضرورتوں کی یکسانیت ہے۔" اس وقت غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کو ایسے باہمی رابطے کی احتیاج تھی جو انہیں جاہ طلب، استکباری اور کبھی سیر نہ ہونے والے نیٹ ورکوں کے تسلط سے محفوظ رکھے، تسلط پسندی کے وسائل کی پیشرفت اور وسعت کے بعد آج بھی یہ ضرورت بدستور موجود ہے۔
 
میں ایک اور حقیقت پیش کرنا چاہتا ہوں؛
اسلام نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ نسلی، لسانی اور ثقافتی عدم مماثلت کے باوجود انسانوں کے اندر یکساں سرشت موجود ہے، جو انہیں پاکیزگی، مساوات، نیکوکاری، ہمدردی اور امداد باہمی کی دعوت دیتی ہے اور یہی عمومی سرشت ہے جو گمراہ کن جذبات سے بحفاظت گزر جانے کی صورت میں انسانوں کو توحید اور ذات اقدس الہی کی معرفت کی سمت لے جاتی ہے۔ اس درخشاں حقیقت میں ایسی بے پناہ صلاحیت ہے کہ وہ آزاد، سربلند اور بیک وقت ترقی اور مساوات سے آراستہ معاشروں کی تشکیل کی بنیاد اور پشت پناہ بن سکتی ہے، انسانوں کی جملہ مادی و دنیاوی سرگرمیوں کو روحانیت کی ضیاء عطا کرسکتی اور اخروی جنت سے قبل جس کا وعدہ ادیان الہیہ نے کیا ہے، دنیاوی جنت تعمیر کرسکتی ہے۔ یہی عمومی اور مشترکہ حقیقت ہے جو ان اقوام کے برادرانہ تعاون کی اساس قرار پاسکتی ہے۔ جو ظاہری شکل و شمائل، ماضی کی تاریخ اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے آپس میں کوئی مشابہت نہیں رکھتیں۔
 
جب اس قسم کی اساس پر عالمی تعاون استوار ہوگا تو حکومتیں خوف و خطر، توسیع پسندی اور یکطرفہ مفادات کی بنیاد پر نہیں، ضمیر فروش اور خائن افراد کے توسط سے نہیں بلکہ صحتمند مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اور اس سے بھی بالاتر انسانیت کے مفادات کے تناظر میں باہمی روابط قائم کریں گی اور اپنے بیدار ضمیروں اور اپنی قوموں کے دلوں کو ہر تشویش سے نجات دلا سکتی ہیں۔ یہ مطلوبہ نظام اس تسلط پسندانہ نظام کے عین مقابل نقطے پر ہے کہ حالیہ صدیوں کے دوران توسیع پسند مغربی حکومتیں اور آج امریکہ کی جارح اور استبدادی حکومت جس کی علمبردار، مبلّغ اور دعویدار ہے۔
 
مہمانان عزیز!
چھے عشرے بیت جانے کے بعد بھی تاحال غیر وابستہ تحریک کے اصلی اہداف بدستور زندہ اور قائم ہیں۔؛ استعمار کی نابودی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خود مختاری، طاقت کے بلاکوں سے عدم وابستگی اور رکن ممالک کے درمیان باہمی وابستگی اور تعاون کے ارتقاء کے اہداف۔ دنیا کے عصری حقائق اور ان اہداف
میں فاصلہ بہت زیادہ ہے، لیکن ان حقائق سے گزرتے ہوئے اہداف تک رسائی حاصل کرنے کا اجتماعی ارادہ اور ہمہ گیر سعی و کوشش پرخطر لیکن امید افزاء اور ثمر بخش ہے۔
 
ماضی قریب میں ہم سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں اور اس کے بعد یکطرفہ طرز عمل کی شکست کے شاہد رہے ہیں۔ دنیا اس تاریخی تجربے سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ایک بین الاقوامی نطام کی جانب حرکت کر رہی ہے اور غیر وابستہ تحریک (ان حالات میں) ایک نیا کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ یہ (نیا) نظام عمومی شراکت اور قوموں کے مساوی حقوق کی بنیاد پر تشکیل دیا جانا چاہئے اور اس جدید نظام کی تشکیل کے لئے ہم تحریک کے رکن ممالک کی یکجہتی نمایاں عصری تقاضوں میں سے ایک ہے۔ 

خوش قسمتی سے عالمی تغیرات کا افق ایک چند قطبی نظام کی خوش خبری دے رہا ہے، جس میں طاقت کے روایتی محوروں کی جگہ، گوناگوں اقتصادی، سماجی اور سیاسی سرچشموں سے تعلق رکھنے والے مختلف ممالک، ثقافتوں اور تہذیبوں کا ایک مجموعہ لے رہا ہے۔ یہ حیرت انگیز تبدیلیاں جن کا ہم حالیہ تین عشروں کے دوران مشاہدہ کرتے رہے ہیں، واضح طور پر یہ ثابت کرتی ہیں کہ نئی طاقتوں کا طلوع قدیمی طاقتوں کے زوال کے ہمراہ رہا ہے۔ اقتدار کی یہ منتقلی غیر وابستہ ممالک کو یہ موقعہ مہیا کراتی ہے کہ عالمی میدان میں موثر اور مناسب کردار ادا کریں اور روئے زمین پر منصفانہ اور حقیقی معنوں میں شراکتی انتظامی سسٹم کی راہ ہموار کریں۔ 

ہم غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک، نظریات اور رجحانات کے اختلاف کے باوجود مشترکہ اہداف کے تناظر میں ایک طویل مدت تک اپنی یکجہتی اور باہمی رابطے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ کوئی معمولی اور چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ یہ رابطہ منصفانہ اور انسان دوستانہ نظام کی اساس قرار پا سکتا ہے۔ دنیا کے موجودہ حالات غیر وابستہ تحریک کے لئے شاید دوبارہ ہاتھ نہ آنے والا موقعہ ہے۔
 
ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا کے کنٹرول روم کا اختیار مٹھی بھر مغربی ممالک کی آمریت کے چنگل میں نہیں ہونا چاہئے۔ بین الاقوامی انتظامی امور کے میدان میں ایک عالمی جمہوری شراکت ایجاد کرنے اور اسے یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ان تمام ممالک کی ضرورت ہے، جو چند استبدادی اور تسلط پسند ممالک کی براہ راست یا بالواسطہ مداخلت سے نقصان اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
 
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساخت اور اس کا طریقہ کار غیر منطقی، غیر منصفانہ اور سراسر غیر جمہوری ہے۔ یہ ایک واضح ڈکٹیٹرشپ، دقیانوسی، منسوخ شدہ اور خارج المیعاد سسٹم ہے۔ اسی غلط طریقہ کار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور اس کے ہمنوا، شریفانہ مفاہیم کے لباس میں اپنا استبداد دنیا پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی، لیکن ان کی مراد مغربی مفادات ہوتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں ڈیموکریسی کی، لیکن اس کی جگہ مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت کی بنیاد رکھتے ہیں، وہ بات کرتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اور شہروں اور قریوں میں آباد نہتے عوام کو اپنے بموں اور ہتھیاروں کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔
 
ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق بشریت پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں میں تقسیم ہے۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکہ کے انسانوں کی جانیں بے قیمت اور امریکہ و مغربی یورپ میں (بسنے والے انسانوں کی جانیں) بہت قیمتی قرار دی جاتی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی سلامتی بہت اہم جبکہ بقیہ انسانوں کی سکیورٹی بے وقعت سمجھی جاتی ہے۔ ایذا رسانی اور قتل اگر کسی امریکی، صیہونی یا ان کے گماشتہ افراد کے ہاتھوں
انجام پائے تو جائز اور قابل چشم پوشی ہے۔
 
ان کی خفیہ جیلیں جو مختلف بر اعظموں میں بےسہارا، وکیل کی سہولت سے محروم اور بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قیدیوں سے مذموم ترین اور نفرت انگیز ترین سلوک کی گواہ ہیں، ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتیں۔ اچھے اور برے کی تعریف پوری طرح یکطرفہ اور امتیازی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مفادات کو بین الاقوامی قوانین کا نام دیکر اور اپنی غیر قانونی اور تحکمانہ باتوں کو عالمی برادری (کے مطالبے) کا نام دیکر قوموں پر مسلط کر دیتی ہیں۔ اپنی اجارہ داری والے منظم میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے وہ اپنے جھوٹ کو سچ، باطل کو حق اور ظلم کو انصاف پسندی بنا کر پیش کرتی ہیں اور ہر اس سچائی کو جو ان کے فریب کو برملا کرتی ہو، جھوٹ اور ہر برحق مطالبے کو بغاوت کا نام دے دیتی ہیں۔
دوستو! یہ ناقص اور زیاں بار صورت حال جاری رہنے کے قابل نہیں ہے۔ اس غلط عالمی سسٹم سے سب تھک چکے ہیں۔ امریکہ میں دولت و اقتدار کے مراکز کے خلاف ننانوے فیصدی عوام کی تحریک اور یورپی ممالک میں عوام کا اپنی حکومتوں کی اقتصادی پالیسیوں پر ہمہ گیر اعتراض بھی اس صورت حال سے قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہو جانے کی علامت ہے۔ اس غیر منطقی صورت حال کا کوئی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا ہمہ جہتی، منطقی اور مستحکم رابطہ راہ حل کی تلاش میں بہت موثر واقع ہو سکتا ہے۔
 
محترم حاضرین!
بین الاقوامی امن و آشتی عصر حاضر کی انتہائی اہم ضرورتوں میں سے ایک ضرورت اور عام تباہی کے خطرناک ہتھیاروں کی نابودی ایک فوری ضرورت اور عمومی مطالبہ ہے۔ آج کی دنیا میں سکیورٹی ایک عمومی اور غیر امتیازی احتیاج ہے۔ جو لوگ اپنے اسلحہ خانوں کو انسانیت مخالف ہتھیاروں سے بھر رہے ہیں، خود کو امن عالم کا علمبردار قرار دینے کا حق نہیں رکھتے۔ بلاشبہ یہ (ہتھیار) خود ان کو بھی امن و سلامتی فراہم نہیں کرسکتے۔ 

بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ سب سے زیادہ نیوکلیائی ہتھیار رکھنے والے ممالک اپنے فوجی نظام سے ان مہلک وسائل کو ختم کرنے کا حقیقی اور سنجیدہ ارادہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں بدستور خطرات کے سدباب کا ذریعہ اور اپنی سیاسی و عالمی ساکھ کا ایک اہم معیار مانتے ہیں۔ یہ تصور بالکل غلط اور ناقابل قبول ہے۔ جوہری ہتھیار سے نہ سکیورٹی حاصل ہوتی ہے اور نہ سیاسی قوت بڑھتی ہے، بلکہ یہ (ہتھیار) ان دونوں چیزوں کے لئے خطرناک ہے۔ سنہ انیس سے نوے کے عشرے کے واقعات سے ثابت ہوگیا کہ ان ہتھیاروں کی موجودگی سابق سوویت یونین جیسی حکومت کو بھی بچا نہیں سکی۔ آج بھی ہم ایسے ملکوں کو جانتے ہیں جو ایٹم بم کے مالک ہونے کے باوجود بدامنی کی زد میں ہیں۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران نیوکلیائی، کیمیائی اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور عظیم گناہ سمجھتا ہے۔ ہم نے جوہری ہتھیار سے پاک مشرق وسطی کا نعرہ بلند کیا ہے اور اس کی پابندی بھی کر رہے ہیں۔ (لیکن) یہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے حق سے دست بردار ہو جانے کے معنی میں ہرگز نہیں ہے۔ عالمی قوانین کی رو سے اس توانائی کا پرامن استعمال تمام ممالک کا حق ہے۔ سب کو اپنے ملک اور اپنی قوم کی مختلف حیاتی ضرورتوں کے تحت اس صاف ستھری انرجی کے استعمال کا موقعہ ملنا چاہئے اور اس حق کا حصول دوسروں پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ 

چند مغربی ممالک جن کے پاس نیوکلیائی ہتھیار ہیں اور جو اس غیر قانونی عمل کے مرتکب ہوئے ہیں، جوہری ایندھن کی پیداوار پر بھی اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ مشکوک اقدامات انجام دیئے جا رہے ہیں کہ ایٹمی
ایندھن کی پیداوار اور فروخت پر کچھ مراکز کی دائمی اجارہ داری قائم ہو جائے، جن کے نام تو بین الاقوامی ہوں، لیکن درحقیقت وہ چند مغربی ممالک کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہوں۔ 

ہمارے اس زمانے کا طرفہ تماشا یہ ہے کہ امریکہ جس کے پاس سب سے زیادہ مقدار میں انتہائی مہلک ایٹمی ہتھیار اور عام تباہی کے دیگر اسلحے ہیں اور ان کا استعمال کرنے والا جو واحد ملک ہے، آج ایٹمی عدم پھیلاؤ کا علم بردار بننا چاہتا ہے! انہوں نے اور ان کے مغربی ہمنواؤں نے غاصب صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرکے اسے اس حساس علاقے کے لئے بہت بڑے خطرے میں تبدیل کر دیا ہے، لیکن عیاروں کی یہی جماعت خود مختار ممالک کو جوہری توانائی کا پرامن استعمال کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہاں تک کہ نیوکلیائی دواؤں اور دیگر پرامن انسانی مقاصد کے تحت ایٹمی ایندھن کی تعمیر کے سد راہ بننے کے لئے اپنی پوری توانائی استعمال کر رہی ہے۔
 
نیوکلیائی ہتھیاروں کے حصول پر تشویش تو ان کا جھوٹا بہانہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں انہیں خود بھی معلوم ہے کہ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں! لیکن جب سیاست میں روحانیت کی کوئی رمق باقی نہ رہ جائے، تو وہ جھوٹ کو جائز قرار دے دیتی ہے۔ اکیسویں صدی میں جو ایٹمی دھمکی دے اور اس پر اسے شرم بھی نہ آئے کیا، وہ دروغ گوئی سے پرہیز یا اس پر شرم کرے گا؟! 

میں تاکید کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش میں نہیں ہے۔ ساتھ ہی پرامن مقاصد کے تحت جوہری توانائی کے استعمال کے حق سے ہرگز چشم پوشی بھی نہیں کرے گا۔ ہمارا نعرہ ہے؛ "جوہری توانائی سب کے لئے، ایٹمی ہتھیار کسی کے لئے نہیں"۔ ہم ان دونوں باتوں پر اصرار کرتے رہیں گے۔ ہمیں علم ہے کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تناظر میں ایٹمی ایندھن کی پیداوار پر چند مغربی ممالک کی اجارہ داری کا خاتمہ تمام خود مختار ممالک منجملہ غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کے مفاد میں ہے۔
 
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ اور زبردستی کے سامنے کامیاب استقامت کے تین عشروں کے تجربے سے اسلامی جمہوریہ ایران اس حتمی یقین پر پہنچ چکا ہے کہ ایک متحد اور عزم مصمم رکھنے والی قوم کی استقامت تمام مخاصمتوں اور دشمنیوں پر غلبہ پانے اور اعلٰی اہداف کی جانب لے جانے والا پرافتخار راستہ تعمیر کرنے پر قادر ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں ہمارے ملک کی ہمہ جہتی ترقیاں ایک ایسی حقیقت ہے جو سب کی نظروں کے سامنے ہے اور اس پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی رسمی اداروں نے بار بار اس کا اعتراف کیا ہے۔ 

یہ سب کچھ پابندیوں، اقتصادی دباؤ اور امریکہ و صیہونزم سے وابستہ چینلوں کی زہر افشانیوں کے عالم میں حاصل ہوا ہے۔ پابندیاں، جنہیں کچھ مہمل باتیں کرنے والے، کمر شکن قرار دے رہے تھے، نہ صرف یہ کہ کمر شکن ثابت نہیں ہوئیں اور نہ آئندہ ہوں گی، بلکہ ان کی وجہ سے ہمارے قدم مزید مستحکم، ہماری ہمتیں اور بھی بلند ہوئیں اور اپنے تجزیوں کی درستگی اور اپنی قوم کی داخلی توانائی پر ہمارا اطمینان و بھروسہ اور بھی پختہ ہوگیا۔ ہم نے ان چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت نصرت الہی کا منظر بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
 
مہمانان گرامی!
میں یہاں ایک انتہائی اہم مسئلے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ اس کا تعلق ہمارے علاقے سے ہے، لیکن اس کے وسیع پہلوؤں کا دائرہ علاقے سے باہر تک پھیل گیا ہے اور اس نے کئی عشروں سے عالمی سیاست کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ فلسطین کا دردناک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آزاد اور واضح تاریخی شناخت رکھنے والا فلسطین نامی ملک بیسویں صدی کی چالیس
کی دہائی میں برطانیہ کی سرکردگی میں وحشت ناک مغربی سازش کے تحت طاقت، اسلحہ، قتل عام اور فریب و عیاری کے ذریعے اس کی (مالک) قوم سے ہڑپ کر ایک ایسی جماعت کو سونپ دیا گیا جس کی اکثریت کو یورپی ممالک سے ہجرت کروا کے لایا گيا تھا۔
 
یہ سنگین غاصبانہ کارروائی جو شہروں اور قریوں میں نہتے عوام کے قتل عام، ان کے گھربار سے ہمسایہ ممالک کی جانب ان کی جبری نقلی مکانی کے ساتھ انجام پائی، چھے عشروں سے زیادہ کی اس مدت میں انہی مجرمانہ اقدامات کے ساتھ بدستور جاری ہے۔ یہ انسانی معاشرے کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کے سیاسی و فوجی قائدین نے اس عرصے میں کسی بھی جرم کے ارتکاب سے دریغ نہیں کیا ہے۔

انسانوں کے قتل عام، ان کے گھروں اور کھیتوں کی تباہی، مردوں، عورتوں حتٰی بچوں کی گرفتاری اور انہیں دی جانے والی ایذاؤں سے لیکر اس قوم کی توہین اور تحقیر، صیہونی حکومت کے حرام خوری کے عادی معدے میں اسے نابود کر دینے کی کوششوں اور فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں ان کے پناہ گزیں کیمپوں پر حملوں تک، جن میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں، (کسی بھی مجرمانہ کارروائی سے انہوں نے دریغ نہیں کیا)۔ صبرا، شتیلا، قانا، دیر یاسین وغیرہ کے نام ہمارے علاقے کی تاریخ میں مظلوم فلسطینی عوام کے خون سے لکھے گئے ہیں۔
 
آج 65 سال بعد مقبوضہ علاقوں میں باقی رہ جانے والوں کے خلاف ان صیہونی درندوں کی یہی مجرمانہ کارروائیاں اب بھی انجام پا رہی ہیں۔ وہ پے در پے نئے نئے جرائم انجام دے رہے ہیں اور علاقے کو ایک نئے بحران سے دوچار کر رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جب ان نوجوانوں کے قتل، زخمی ہونے اور گرفتار کر لئے جانے کی خبریں نہ آتی ہوں، جو دفاع وطن میں اور اپنے وقار کی بازیابی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے گھروں اور کھیتوں کی نابودی پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ 

صیہونی حکومت جس نے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکا کر، انسانوں کا قتل عام کرکے، عرب علاقوں کو ہڑپ اور علاقائی و عالمی سطح پر ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کرکے دسیوں سال سے قتل و جنگ اور شرپسندی کی آگ بھڑکا رکھی ہے، فلسطینی قوم کو جس نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے قیام کیا ہے اور جدوجہد کر رہی ہے، دہشت گرد قرار دیتی ہے اور صیہونزم سے تعلق رکھنے والے چینل اور بہت سے بکے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ بھی اپنی اخلاقی ذمہ داریوں اور میڈیا کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اس کذب محض کو دہراتے ہیں۔
 
انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سیاسی رہنما بھی ان تمام جرائم پر اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور کسی بھی شرم و حیا کا احساس کئے بغیر، المئے رقم کرنے والی اس حکومت کے حامی بنے ہیں اور اس کے وکیل اور محافظ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور اس پر غاصبانہ قبضے کا تسلسل بہت بڑا اور ناقبل برداشت ظلم اور عالمی امن و سلامتی کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مغرب والوں اور ان سے وابستہ لوگوں نے جتنی بھی تجاویز پیش کی ہیں، سب غلط اور ناکام ثابت ہوئی ہیں اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ 

ہم نے بہت منصفانہ اور مکمل جمہوری راہ حل پیش کیا ہے کہ تمام فلسطینی خواہ وہاں کے موجودہ باشندے ہوں یا وہ افراد جنہیں دوسرے ملکوں کی جانب جبرا ہجرت کروا دی گئی اور جنہوں نے اب تک اپنی فلسطینی شناخت قائم رکھی ہے، وہ مسلمان ہوں، یہودی ہوں یا عیسائی، سب دقیق نگرانی میں انجام پانے والے اطمینان بخش استصواب رائے میں شرکت کریں اور اس ملک کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کا انتخاب کریں، تمام فلسطینی جو برسوں
سے بے وطنی کا دکھ جھیل رہے ہیں، اپنے وطن لوٹیں اور اس ریفرنڈم اور اس کے بعد آئین کی تدوین اور انتخابات میں حصہ لیں۔ اسی صورت میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
 
یہاں میں امریکی سیاست دانوں کو، جو تاحال ہمیشہ صیہونی حکومت کے محافظ اور پشت پناہ کی حیثیت سے میدان میں حاضر رہے ہیں، ایک خیر خواہانہ نصیحت کرنا چاہوں گا۔ اس حکومت نے اب تک آپ کے لئے بے شمار درد سر کھڑے کئے ہیں، علاقے کی قوموں کے اندر آپ کو نفرت انگیز اور آپ کو ان کی نگاہوں میں غاصب صیہونیوں کا شریک جرم بنا کر پیش کیا ہے۔ ان برسوں کے دوران اس راستے پر چلنے کی وجہ سے امریکی حکومت اور عوام کو جو مادی اور اخلاقی خسارہ اٹھانا پڑا ہے، وہ سرسام آور ہے اور شاید اگر مستقبل میں بھی یہی روش جاری رہی تو آپ کو اور بھی بڑی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
 
آئيے! ریفرنڈم کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز پر غور کیجئے اور شجاعانہ فیصلے کے ذریعے خود کو کبھی نہ حل ہونے والی اس گتھی سے نجات دلائيے! یقیناً علاقے کے عوام اور روئے زمین کے تمام آزاد فکر انسان اس اقدام کا خیر مقدم کریں گے۔
 
مہمانان محترم!
میں ایک بار پھر اپنی ابتدائی گفتگو کی جانب پلٹنا چاہوں گا۔ دنیا کے حالات بہت حساس ہیں اور دنیا بڑے اہم اور تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے۔ امید ہے کہ ایک نیا نظام جنم لے رہا ہے۔ غیر وابستہ تحریک میں عالمی برادری کے دو تہائی سے زیادہ ارکان شامل ہیں، جو مستقبل کے خدوخال طے کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تہران میں اس عظیم اجلاس کا انعقاد خود بھی بہت بامعنی واقعہ ہے، جسے اندازوں اور تخمینوں میں مدنظر رکھنا چاہئے۔ اس تحریک کے ارکان اپنی وسیع صلاحیتوں اور امکانات کے باہمی فروغ کے ذریعے دنیا کو بدامنی، جنگ اور تسلط پسندی سے نجات دلانے کے سلسلے میں یادگار اور تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
 
یہ ہدف آپس میں ہمارے ہمہ جہتی تعاون سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ ہمارے درمیان انتہائی دولت مند ممالک اور گہرا عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کی تعداد کم نہیں ہے۔ اقتصادی اور میڈیا کے میدان میں تعاون اور آگے لے جانے اور بلندیوں پر پہنچانے والے تجربات کے تبادلے کی صورت میں مشکلات کا حل یقینی طور پر ممکن ہوجائے گا۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے عزم و ارادے کو مستحکم کریں، اہداف کے تئیں وفادار رہیں، توسیع پسند طاقتوں کے غیظ و غضب سے نہ ڈریں اور ان کی مسکراہٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں، ارادہ الہی اور قوانین خلقت کو اپنا پشت پناہ سمجھیں۔

دو عشروں قبل کمیونسٹ محاذ کی شکست اور موجودہ دور میں مغرب کی نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کی پالیسیوں کی شکست کو، جس کے آثار یورپی ممالک اور امریکہ کی سڑکوں پر اور ان ممالک کی معیشتوں کو در پیش لاینحل مشکلات کی صورت میں سب کے سامنے ہیں، عبرت کی نظر سے دیکھیں، اور آخری بات یہ کہ شمالی افریقا میں امریکہ پر انحصار کرنیوالے اور صیہونی حکومت کے مددگار آمروں کی سرنگونی اور علاقے کے ملکوں میں پھیلی اسلامی بیداری کو ہمیں بہت بڑا موقعہ سمجھنا چاہئے۔ 

ہم عالمی نظم و نسق میں غیر وابستہ تحریک کے سیاسی کردار کو فروغ دینے کے بارے میں غور کر سکتے ہیں، اس انتظامی سسٹم میں تبدیلی لانے کے لئے ایک تاریخی دستاویز کی تدوین اور اس کے اجراء کے وسائل فراہم کرسکتے ہیں، ہم موثر اقتصادی تعاون کی جانب پیش قدمی کی منصوبہ بندی اور اپنے درمیان ثقافتی رابطوں کے نمونوں کا تعین کرسکتے ہیں۔ ایک فعال اور باہدف سکریٹریئيٹ کی تشکیل ان اہداف کے حصول میں بہت موثر اور مددگار ہوسکتی ہے۔
میں (آپ سب کا) شکر گزار ہوں۔
بشکریہ شیعیت نیوز اردو
خبر کا کوڈ : 191409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Tanzania, United Republic of
Great speech to the world, world need khamanie
great
mashllah great informtion..jazak allaha.....
Pakistan
عظیم لیڈر کا عظیم خطاب،
لیڈر ایسے ہوتے ہیں جو جہان عالم کی بات کرتے ہیں، جو دنیا کو رہنمائی عطا کرتے ہیں۔ اللہ زندگی طویل کرے۔ امین
ہماری پیشکش