1
0
Friday 5 Oct 2012 20:34

افغانستان میں پاکستان کے توسط سے بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ

افغانستان میں پاکستان کے توسط سے بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ
رپورٹ: عدیل عباس زیدی

افغان سرزمین اپنی تاریخ میں کئی حملہ آور قوتوں کا مقابلہ کر چکی ہے، اور یہاں کے باسی مسلسل جنگ و جدل کا سامنا کرتے آئے ہیں، سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی، تاہم 2001ء میں پیش آنے والے واقعہ (نائن الیون) کے بعد امریکہ نے اسامہ کی تلاش کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کر دیا، اور اس موقع پر اسے اپنے نیٹو اتحادیوں کے علاوہ اقوام متحدہ کا اجازت نامہ بھی حاصل تھا، افغان سرزمین پر ’’دہشتگردی کیخلاف جنگ‘‘ نامی اس امریکی حملہ کو غیر نیٹو اتحادی ’’پاکستان‘‘ کی مکمل حمایت حاصل تھی، اس وقت پاکستان کے ہر قسم کے سیاہ سفید کے مالک جنرل پرویز مشرف تھے، انہوں نے پاکستان سمیت خطہ کے امن کو خطرے میں ڈالتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کی ایک مبینہ دھمکی آمیز ٹیلی فون کال پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنے ملک کے تمام دروازے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے کھول دیئے۔

2001ء میں شروع ہونے والی اس جنگ میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا، 45 ہزار سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 90 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے، معیشت تباہ و برباد ہو گئی، پاکستان افغانستان اور عراق کے بعد دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک بن گیا، غیر ملکی سرمایہ کاروں اور عالمی تجارتی سٹیک ہولڈرز نے پاکستان کا رخ کرنا بند کر دیا، پھر بھی عالمی سطح پر پاکستان دہشتگرد پیدا کرنے والا ملک شمار کیا جانے لگا، جبکہ دوسری جانب افغانستان میں اس سے کہیں زیادہ تباہی ہوئی، حملہ آور قوتوں کو بھی افغان سرزمین پر توقع سے زیادہ مزاحمت اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
 
امریکہ کو افغانستان میں کسی ایک مزاحمتی گروپ کا سامنا نہیں رہا بلکہ طالبان کے علاوہ حزب اسلامی اور ماضی کے بہترین دوست جلال الدین حقانی کے جنگجو بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے درد سر بنے رہے، دوسری جانب افغان فورسز میں موجود باغی اہلکار بھی موقع ملنے پر غیر ملکی فوجیوں کا پتہ صاف کرتے رہے۔ امریکی حکام اکثر ان جنگجوئوں کی پشت پناہی کا الزام پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر عائد کرتے رہتے ہیں۔
 
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ جلد سے جلد افغانستان سے جانا چاہتا ہے بلکہ جانے کی تیاری کر چکا ہے، اور جاتے ہوئے وہ شکست کا طوق اپنے گلے میں ڈالے ہوا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں مشکل کا سامنا ہے اور وہ خواب اب تک پورے نہیں ہوسکے جو امریکہ یہاں آنے سے پہلے دیکھے تھے، افغانستان میں موجود امریکہ کے اہم اتحادی برطانیہ جس کو اس جنگ میں خطہ کی صورتحال سے تاریخی پس منظر میں آگاہی کے باعث امریکی حکام دیگر اتحادیوں کے مقابلہ میں خاصی اہمیت دیتے آئے ہیں، کی جانب سے بھی ماضی قریب میں افغان جنگ کے حوالے سے سخت قسم کے سوالات اٹھائے گئے ہیں، جبکہ افغانستان سے جانے والے غیر ملکی فوجیوں کی نعشوں کی تابوتوں میں اضافہ عوامی سطح پر ان ممالک میں شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کیلئے خود کئی معاشی اور دیگر مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

اس خطہ میں اپنے دشمن اول اور برادر اسلامی ملک ایران، ترقی کی راہ پر گامزن چین، پہلی اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان اور مشرق وسطٰی کو افغانستان میں بیٹھ کر کنٹرول میں لانے کے خواب اور گرم پانیوں اور بلوچستان کے ذخائر پر للچاتی نگاہیں امریکہ کو افغانستان سے اتنی آسانی سے شکست تسلیم کرتے ہوئے جانے نہیں دیں گی، معلوم ہوتا ہے کہ افغان سرزمین سے انخلاء کیلئے امریکہ ماضی کی غلطیاں دہرانے کے موڈ میں نہیں، اور سانحہ ایبٹ آباد امریکہ کے اس خطہ سے نکلنے کیلئے فتح کا جواز فراہم کرنے کا ٹرمپ کارڈ تھا۔
 
بلاشبہ ماضی قریب میں امریکہ اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات ہوئے، لیکن یہ مذاکرات محدود تھے، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے رواں سال انکشاف کیا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات محض قیدیوں کے تبادلے تک محدود ہیں اور بعدازاں اسی خطوط پر ہونے والی دو طرفہ بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی، بعض ذرائع کا خیال ہے کہ ان مذاکرات کو پاکستان کی حمایت تو حاصل تھی، لیکن پاکستان نے امریکہ کو اس مذاکراتی عمل میں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔

یہ بات عیاں ہے کہ روس کیخلاف جنگ میں پاکستان کی ریاست نے کھل کر مجاہدین کی مدد کی، وہ تعلقات آج بھی کسی نہ کسی سطح پر موجود ہیں، انتہائی باوثوق اور قابل اعتماد ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ انہی تعلقات کی بناء پر مستقبل قریب میں افغانستان میں بڑی تبدیلی آنے والی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں طالبان کو پیغام پہنچایا گیا ہے کہ وہ موجود افغان صدر حامد کرزئی کیساتھ ملکر حکومت بنائیں، اس پیغام کو افغان مسئلہ کا حتمی حل تصور کیا جا رہا ہے، اور امریکہ بھی اس پر راضی ہے، جبکہ طالبان کو اپنے روایتی رویہ میں بھی تبدیلی لانے کا کہا گیا ہے، ایسا ممکن ہونے سے امریکہ کو افغانستان سے اپنے اتحادیوں سمیت باعزت طریقہ سے نکل جانے کا موقع ملے گا اور 2014ء میں ہونے والے الیکشن سے قبل حامد کرزئی اور طالبان کے مابین اتحاد قائم ہوچکا ہوگا۔

باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ماہ اگست میں منہاس ایئر بیس کامرہ پر ہونے والے خوفناک حملہ نے پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا، جس کے بعد دہشتگردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پالیسی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور امریکہ سے تعلقات بھی ماضی کے مقابلہ میں کسی حد تک برابری کی بنیاد پر لانے کی کوشش کی جائے گی، واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما سمیت کئی امریکی حکام بارہا کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں فتح پاکستان کے بغیر ممکن نہیں، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں طالبان اور موجودہ افغان حکومت کے مایبن مفاہمت غیر ملکی افواج کا انخلاء شروع ہو جائے گا اور آئندہ سال کے اوائل میں افغان سرزمین پر ایک بڑی تبدیلی کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود طالبان بھی اس صورتحال کے بعد باقاعدہ طور پر افغانستان کا رخ کرلیں گے، جس کی وجہ سے پاکستان میں جاری دہشتگردی میں بتدریج کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی، ’’گڈ‘‘ طالبان کی اصلاح سے جانے جانیوالے طالبان کا افغانستان میں قائم ہونے والی آئندہ حکومت میں اہم کردار ہو سکتا ہے، جبکہ حزب اسلامی (گلبدین حکمت یار گروپ) اور جلال الدین حقانی نیٹ ورک کی پوزیشن ابھی واضح نہیں ہو سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت پاکستان کے قبائلی علاقوں پر جاری امریکی ڈرون حملے بند کروانے کا سہرا اپنے سر لینا چاہتی ہے، تاہم یہ معاملہ ابھی طے ہونے میں وقت لگے گا، جبکہ پیپلزپارٹی کی مدت اقتدار اب کم رہ گئی ہے۔

مستقبل قریب میں خطہ کی متوقع طور پر بدلتی صورتحال میں بظاہر امریکہ کی گرفت یہاں کمزور پڑے گی، تاہم امریکہ کسی نہ کسی طرح اس خطہ میں اپنا اثر و رسوخ لازمی رکھنے کا خواہاں ہے، ایسے میں وہ بھارت کوخطہ کا ’’ٹھیکیدار‘‘ بنانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے، بلاشبہ خطے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا انخلاء پاکستان سمیت پڑوسی ممالک ایران اور چین کیلئے بھی نیک شگون ہے، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کرتا دھرتا حلقوں نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس صورتحال میں امریکہ پر انحصار کم کرنا اور پڑوسی ممالک ایران، چین اور روس سے روابط کو بہتر بنانا بھی شامل ہے، جس کی ایک کڑی پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ میں امریکی برہمی کے باوجود پیش رفت، گلگت بلتستان میں امریکہ کو چین پر نظر رکھنے کیلئے باقاعدہ مداخلت کی اجازت سے انکار اور آرمی چیف جنرل کیانی کا موجودہ دورہ روس ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے حکمران عوامی امنگوں کے مطابق پالیساں ترتیب دیں اور خطہ سے امریکی مداخلت کے خاتمے کیلئے بہادرانہ اقدامات اٹھائے جائیں، علاوہ ازیں افغانستان میں کسی قسم کی مداخلت کی بجائے وہاں کے عوام کو آزادانہ طور پر یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ خود اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کریں، تاہم ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے سٹیک ہولڈرز کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، تمام تر نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر نئے اور پرامن افغانستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے، کیونکہ جنگ کے سائے میں مسلسل رہنا والا افغانستان اب مزید خانہ جنگی شائد برداشت نہ کر پائے۔
خبر کا کوڈ : 200879
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

very nice report ! great work by reporter adeel abbas
ہماری پیشکش