0
Thursday 15 Nov 2012 16:16

بلوچستان کی صوبائی حکومت کا مستقبل!!!

بلوچستان کی صوبائی حکومت کا مستقبل!!!

بلوچستان بدامنی کیس سے متعلق عبوری حکم نامہ جاری ہوتے ہی صوبائی حکومت کی ساخت خاص کر وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی کرسی خطرے میں پڑگئی۔ ویسے تو بلوچستان کی کشیدہ صورتحال کی زمہ دار صرف صوبائی حکومت ہی نہیں بلکہ اس میں‌ وفاقی حکومت اور خاص کر ریاستی اداروں نے بھی کافی حد تک کردار ادا کیا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے سپریم کورٹ نے اپنی تلوار بلوچستان کی صوبائی حکومت کی گردن پر ڈال دی کیونکہ فیصلے میں‌ کسی نہ کسی کو تو مورد الزام ٹھہرانا تھا لہذا اس معاملے میں بہترین شکار صوبائی حکومت تھی۔ اس دوران وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت کیخلاف سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر عدالت اعظمیٰ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے جس میں فیصلے کو حکومتی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔
 
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیاسی سوالات کا جواب دینا عدالتوں کا کام نہیں ہونا چاہیئے۔ چاہے ان سوالات کا تعلق قانونی نکات سے ہو۔ عدالت نے ان سوالات کا جواب دیکر ضابطہ اخلاق کی شق کی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست میں موقف اخیتار کیا گیا ہے کہ 58 (2) بی ختم ہوچکی ہے، عدالت نے اس اختیار کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ عدالت نے آرٹیکل 112 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں ایمرجنسی لگانے یا وفاق کو اپنے ہاتھ مین لینے کی بات کی۔ جبکہ عدالت کے پاس ایمرجنسی لگانے کا اختیار نہیں۔ ایسا کرنا آرٹیکل 232 کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے بعد بلوچستان میں جو آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا وہ نظرثانی کی درخواست پر فیصلے تک ختم تو نہیں ہوا البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ صوبائی حکومت کو کچھ کام کرنے کا وقت مل گیا ہے۔ اور سیاسی حلقوں میں‌ اس حوالے سے جو چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ صوبائی حکومت کی آئینی حیثیت کیا ہے ان میں بھی عارضی طور پر کمی آگئی ہے۔

بلوچستان میں بدامنی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں سماعت 20 نومبرکو ہوگی۔ اس میں بھی بلوچستان حکومت پیش ہوکر اپنا موقف پیش کرے گی۔ جیسا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ اس حوالے سے 20 نومبر کی سماعت بھی اہم ہے۔  اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا بدامنی کیس کے حوالے سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ بلوچستان میں آئینی بحران کے دوران اسپیکر کی جانب سے گوادر میں اسمبلی کا اجلاس آئینی جائزہ لینے نہ بلانے پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے 9 نومبر کو صوبائی کابینہ کا اجلاس گوادر میں طلب کیا تھا۔ جس میں وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہے۔ اداروں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں، تنکا تنکا اکٹھا کرکے جمہوریت قائم کی گئی ہے۔ محبت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کرکام کررہا ہے۔ 

اطلاعات کے مطابق صوبائی کابینہ کے اجلاس میں بلوچستان کے حالات اور سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کیلئے کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ بلوچستان اور اس کے عوام ہی ہماری پہلی ترجیح ہے۔ وزیراعظم کے دورہ گوادر اور کابینہ کے اجلاس منعقد ہونے سے گوادر کے عوام کے کچھ مسائل تو حل ہوئے اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور گوادر پر توجہ دی جاتی رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ گوادر میں ترقی نہ ہوسکے۔ دوسری جانب گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی اور کابینہ کا اجلاس طلب کرنے سے صوبہ میں آئینی بحران مزید شدت اختیار کرگیا۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ بلوچستان کے مخدوش حالات پر قابو نہ پانے کے باعث بلوچستان حکومت کے خاتمے اور نیا قومی مینڈیٹ حاصل کرنے کا حکم جاری کیا تھا اس پر فوری طور پر عمل ہو جانا چاہئے تھا۔ 

اس کے برعکس حکومتی بزرجمہر اس فیصلے کو بھی این آر او فیصلے کی طرح لٹکانے پر مصر نظر آئے۔ اپنی طرف قانونی موشگافیاں چھوڑتے ہوئے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کرنے لگے۔ وزیر اعلیٰ رئیسانی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلانا چاہتے تھے جس کے آڑے سپیکر اسلم بھوتانی آئے۔ انہوں نے گورنر ذوالفقار مگسی سے اجلاس بلانے کی آئینی وضاحت طلب کی جس کا کوئی جواب نہ آیا۔ اس دوران مگسی بیرون ملک چلے گئے۔ گورنر کے فرائض سپیکر اسلم بھوتانی نے سنبھالے تو قائم مقام سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا۔ حالانکہ قائم مقام گورنر اس اجلاس کو منسوخ کر چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی پارٹی رکنیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی کونسل نے بلوچستان حکومت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کی برطرفی کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔

اسلم رئیسانی کی سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اجلاس طلب کرنے کی ضد سسٹم کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق عمل کرکے حکومت بدامنی کی آگ میں جلتے بلوچستان کو آئینی بحران سے نکال سکتی ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے جمہوریت کےلئے اچھا ہے، نہ اس سے حکمرانوں کے حصے میں کوئی نیک نامی آئے گی۔ حکمران سسٹم کو چلنے دیں اور چلانے کی ذمہ داری لیں۔ 58-2B کا بھی اب کسی کے پاس اختیار نہیں۔ بہتر ہے کہ سپریم کورٹ نہیں، حکومت عام انتخابات کا اعلان کرے، یہی جمہوریت کے ساتھ ساتھ خود ان کے بہترین مفاد میں بھی ہے۔

خبر کا کوڈ : 211844
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش