5
0
Monday 3 Dec 2012 14:19

گلگت شہر کے امن کو ناعاقبت اندیش انتظامی پالیسیز کی نظر لگ گئی

گلگت شہر کے امن کو ناعاقبت اندیش انتظامی پالیسیز کی نظر لگ گئی
اسلام ٹائمز۔ گلگت میں 2005ء امن و سکون نہیں رہا۔ آئے دن کی قتل و غارت گری، فتنہ و فساد، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت کے نتیجے میں سینکڑوں مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ فرقہ واریت کا نہ رکنے والا سلسلہ چند تکفیری ملاؤں کی کارستانی تھی اور یہ وباء دفاعی اور معاشی اہمیت کے حامل اس خطے کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر براجمان وزراء اور افسران بیانات اور میٹنگوں کے ذریعے اس وباء کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی انتہاء پسند طبقہ بھی اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر ایک خاص مکتبہ فکر کو انتظامی اور قانونی طریقے سے دبانے میں مصروف ہے۔ اگر اپنے مسلک سے تعلق نہ رکھنے والا کوئی انتظامی افسر آجائے تو چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی حرکت میں لایا جاتا ہے اور برطرف کرا کے اپنی من پسند شخصیات کو اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے اور نتیجے میں ایک خاص طبقہ زیر عتاب آجاتا ہے۔

کئی عرصے بعد اس ماہ عاشورا کے موقع پر اہلسنت برادری نے جس عملی بھائی چارگی کا مظاہرہ کیا وہ تاریخی تھا۔ اہلسنت اور اسماعیلی مکتب فکر نے عاشورا کے موقع پر جو کردار ادا کیا اس سے لگ رہا تھا کہ گلگت میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی عنقریب ختم ہونے والی ہے لیکن مسلمانوں کے لباس میں موجود امریکی اور اسرائیلی بھیڑیوں سے شاید یہ برداشت نہ ہوا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح رہیں، اس ہی لئے انہوں نے ایک بار پھر موقع سے فائدہ اٹھا کر حالات کو مزید کشیدہ کردیا۔ عاشورا کے جلوسوں میں اس بار اہلسنت برادری نے بھرپور شرکت کی تھی اور سبیلیں بھی لگا کر عملی اخوت کا مظاہر کیا تھا لیکن اس کے دوسرے ہی روز سنی عالم دین عبیدالرحمنٰ کو شیعہ اکثریتی محلہ میں ٹارگٹ کرنا بھی سازش سے خالی نہیں۔ حالانکہ ذرائع کے مطابق موصوف نے عاشورا کے جلوس میں بہ نفس نفیس شرکت کی تھی اور سبیل بھی ان کے ہی زیر انتظام لگائی گئی تھی۔ جلوس عزاء کے اختتام کے موقع پر آگے تک چل کر گئے۔ یوں وحدت کے اس علم بردار کو راستے سے ہی ہٹا کر شیعہ سنی کو ایک بار پھر باہم دست و گریبان کرنے کی کوشش ہوئی۔

اسی شب رات ایک بجے مجلس وحدت المسلمین پاکستان صوبہ گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی، شیعہ علماء کونسل کے رکن سید حسن شاہ اور انجمن امامیہ گلگت کے صدر فقیر شاہ کو گرفتار کرلیا گیا اور 16 ایم پی او کا جواز بناکر ان کے علاوہ اہلسنت کے عالم دین علامہ عطاء اللہ شہاب کو بھی گرفتار کرلیا۔ رات کے آخری پہر ہی جب عوام میں یہ بات جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی تو وہ سڑکوں پہ نکل آئی اور صدائے احتجاج بلند کیا اور دن بھر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ عوام نے آئی جی پی گلگت بلتستان عثمان ذکریا کو بھی محاصرے میں لے رکھا اور مذاکرات کے بعد عوام پیچھے ہٹ گئی۔ آخری اطلاع آنے تک حکومت نے علمائے کرام کی رہائی کے لیے تین دن کی مہلت مانگی ہے۔

حکومت نے تین دن مہلت مانگی ہے یا بہانہ تلاش کیا ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس سلسلے میں آج کی رات گلگت کی عوام کے لیے بہت اہم ہے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر امن دشمن اور پاکستان دشمن عناصر کوئی غیر معمولی کاروائی بھی کرسکتے ہیں۔ مزید گرفتاریوں کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گلگت انتظامیہ نے ان دنوں جب کہ گلگت میں امن و امان کی لیے راستہ فراہم ہوا تھا یہ اقدام کیوں کیا سمجھ سے بالاتر ہے۔ گلگت شہر کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے وہ عناصر ضرور حرکت میں ہیں جن سے شیعہ، سنی اور اسماعیلی کی باہمی دوستی ہرگز قبول نہیں۔ یہ دہشت گرد ٹولہ ہمیشہ سے اہل تشیع اور اہل سنت برادری کو آپس میں دست و گریباں کرنے میں مصروف عمل ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے عناصر کو گرفتار کرکے تختہ دار پہ لٹکائیں جو دوسرے مکاتب فکر کو کافر سمجھتے ہوں، پاکستان کے خلاف کھلم کھلا بیانات دیتے ہوں اور مذہبی منافرت پھیلاتے ہوں۔
خبر کا کوڈ : 217232
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Aakbat na andaish hota hai, nah k na akbat andaish
Pakistan
ye b drust he mubta aur khbr wale muamle ki trah pele lae ya baad me
Pakistan
گلگت میں 2005ء سےامن و سکون نہیں رہا۔
Pakistan
BILKUL DRUST HE YAHAN KI AMAN KO TABAH KRNE K LIE AIK TABQA ACTIVE HE JO DOSRON KO KAFIR SMJHTA HE. WRNA AAM SHIA SUNNI TO BHOT ACHE HN GILGGIT KY
Pakistan
GILT ME HALAT KHARAB KRNE ME AMERICAN ACTIVE HE AUR ISI B TAMASHI BNI HOVI HE
منتخب
ہماری پیشکش