0
Tuesday 15 Jan 2013 01:28

بلوچستان حکومت میں حصہ داری ختم ہونے کا رنج مولانا فضل الرحمان کے متنازعہ بیان کی وجہ بنا، مبصرین

بلوچستان حکومت میں حصہ داری ختم ہونے کا رنج مولانا فضل الرحمان کے متنازعہ بیان کی وجہ بنا، مبصرین
اسلام ٹائمز۔ سانحہ کوئٹہ پر جہاں تمام محب وطن پاکستانی کسی مسلکی تفریق کے بغیر افسردہ اور متاثرین کے غم میں کسی نہ کسی طرح شریک تھے وہاں معروف سیاستدان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ سے متعلق متنازعہ بیان نے ملک کے سنجیدہ حلقوں بلخصوص ملت تشیع کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی (ف) بلوچستان میں پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کا حصہ تھی، اس حکومت کی برطرفی پر اقتدار ’’مولانا صاحب‘‘ کا رنجیدہ ہونا شائد فطری عمل ہے۔ سوموار کو کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ملک میں تبدیلی کا راستہ الیکشن ہیں یا دھرنے ہم نے۔ پہلے اس کا انتخاب کرنا ہے اور وہ کرچکے ہیں ۔تبدیلی کا راستہ صرف انتخاب ہے۔ جو آئینی اور جمہوری راستہ ہے۔ اگر روز روز رابطے بدلتے رہے تو کبھی ملک میں ترقی ہوگی اور نہ ہی استحکام آئے گا۔ مولانا فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں گورنر راج کے بجائے ان ہاوس تبدیلی کی ہماری تجویز تھی، جو آئینی اور جمہوری بھی تھی۔ مگر حکومت نے گورنر راج کو ناگزیر سمجھا۔ اگر اس طریقے سے ہمدردیوں کی بنیاد پر تبدیلی لائی جاتی رہیں تو معاملہ کہاں تک پہنچے گا۔ 

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر 100 افراد کے قتل کی وجہ سے حکومت تبدیل ہوسکتی ہے تو سندھ اور خیبر پختونخوا میں حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے اس متنازعہ بیان کی مذمت کی گونج ملک بھر میں ہونے بعض احتجاجی دھرنے میں بھی سنائی دی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت نہ تو مرکز میں برسراقتدار ہیں، نہ سندھ، نہ خیبر پختونخوا اور نہ ہی پنجاب میں۔ اس وجہ سے انہوں نے سندھ اور خیبر پختونخوا میں امن کی صورت حال پر ہلکی پھلکی تنقید کی تاہم بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کو تنقید کا نشانہ اسی وجہ سے نہیں بنایا کہ وہ اس حکومت کا حصہ تھے جسے گزشتہ رات برطرف کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے بھی کئی وزراء بلوچستان کی اس 60 سے وزراء پر مشتمل کابینہ کا حصہ تھے جس کے اراکین پر اغواء برائے تاوان، کرپشن سمیت دیگر سنگین الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 231337
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش