1
0
Tuesday 5 Feb 2013 11:55

مسجد و مرکز اہلسنت اسکردو میں فقیدالمثال سیرت النبی (ص) کانفرنس کا انعقاد

مسجد و مرکز اہلسنت اسکردو میں فقیدالمثال سیرت النبی (ص) کانفرنس کا انعقاد
اسلام ٹائمز۔ بلتستان کی تاریخ میں فقید المثال اور تاریخی تقریب مسجد و مرکز اہلسنت بلتستان میں ’’سیرت النبی(ص) کانفرنس ‘‘کی صورت میں منائی گئی۔ اس تقریب میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور عوام نے شرکت کی۔ یہ پہلا واقعہ تھا جس میں بلتستان میں جماعت اہلسنت کے مرکز میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء و عوام، نوربخشہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء و عوام اور اہلحدیث مکتب فکر کے علماء و عوام نے شریک ہو کر اتنی عظیم اور نوارنی محفل کا انعقاد کیا ہو۔ یقیناً یہ سب حضور پاک، نبی مصطفی، احمد مجتبی، حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک ذات کے طفیل ہے۔

سیرت النبی (ص) کانفرنس دیگر تمام کانفرنسوں اور محالفوں سے مختلف اس حوالے سے تھی اس میں سطحی تقاریر سے ہٹ کر زمینی حقائق پر مبنی باتوں اور جذبات و احساسات کا تبادلہ ہوا۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام نے کانفرنس کی روح کو تروتازہ رکھا اور ماضی کے تلخ و ترش واقعات اور کارکردگیوں پر اظہار ندامت بھی کیا، جس کے نتیجے میں امت رسول (ص) میں دوریاں پیدا ہو گئی ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر اقرار کیا کہ محراب و منبر سے ماضی میں ایسی غلطیاں ہو گئی ہیں جن کا ازالہ شاید توبہ کرنے کے بعد ممکن ہو۔

اس سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے خطیب اہلحدیث مولانا عبدالقادر رحمانی نے کہا کہ حضور اکرم (ص) کی پاک ذات ہمارے لیے مکمل اور جامع نظام ہونے کے ساتھ ساتھ نکتہ اشتراک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تعصب اور جہالت کی بنا پر ایک دوسرے سے بہت دور گئے اور ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے لگے، حالانکہ ہمیں ایک جسم کی مانند ہونا چاہیئے تھا کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم بےچین ہو جائے۔ ہم نے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو محاذ جنگ بنا لیا، جبکہ حضور پاک (ص) کی تعلیمات یہ ہیں کہ طائف کے ہاتھوں لہولہان ہونے کے بعد ان کے حق میں دعا فرمائی۔ آپ (ص) اپنے دشمنوں کو بھی گلے سے لگاتے اور انکی ہدایت فرماتے تھے لیکن افسوس اس نبی(ص) کے ماننے کے دعویدار ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ کسی شیعہ کی موت پر سنی مٹھائی تقسیم کرتا ہے اور کوئی سنی بےگناہ مارا جائے تو شیعہ خوشی مناتے ہیں۔ یہ رونے اور خون کے آنسو بہانے کا مقام ہے۔

آج یہود و نصریٰ کو ہمیں قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کے قتل میں شریک ہیں۔ خطہ بلتستان میں جو امن ہے وہ مثالی نہیں ہے اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے دوسرے خطوں بالخصوص چلاس و کوہستان کے لوگوں کے لیے نمونہ بن جانا چاہیئے۔ ہم انشاءاللہ وحدت کی بھیک مانگنے فخر کے ساتھ کوہستان و چلاس سمیت پاکستان کے دیگر خطوں میں جائیں گے جہاں امت رسول باہم دست و گریباں ہیں۔

شیعہ مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس میں علامہ شیخ محمد جواد حافظی ہے کہا کہ اجتماع امت رسول کی یہ عظیم محفل تائید خداوندی کے بنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالم اسلام کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی مشکل وقت نہیں آیا ہو گا کہ تمام دشمنان رسول (ص) اور دشمنان اسلام، توہین اسلام و توہین حریم رسالت کے لیے متحد جبکہ مسلمانان باہم دست و گریباں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے نتیجے میں یہود و نصریٰ اتنے جری ہو گئے ہیں کہ توہین رسالت (ص) کی جرات کرسکیں۔ آج پاکستان میں ڈرون حملوں میں جتنے مسلمان لقمہ اجل بن رہے ہیں وہ سب مسلمانوں کی نااتفاقی کا نتیجہ ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کا خون پانی سے بھی سستا ہو گیا ہے۔ ہمیں اختلافات کو پس پشت ڈال کر اسلام دشمنوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے کہ فرقے کے جو خول ہمارے ارد گرد ہیں ان کو ختم کریں ہماری مسجدیں ایک دوسرے کے لیے واگزار ہوں۔ ایک دوسرے کے مدارس میں آنا جانا قائم ہو۔ انشاء اللہ یہ جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ کمال تک پہنچے گا۔

نوربخشہ مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے پروفیسر ذاکر حسین نے نہایت خوبصورت انداز میں کہا کہ میرا دل خون کے آنسو رویا جب دشمن نے حریم رسالت (ص) پر حملے کی جرات کی، تاریخ کے روزن سے جھانک کے دیکھا تو وہ صدا جس کے نتیجے میں حضرت حر نے فوج یزید کو خیر باد کہا، وہ آج کی کربلا میں بھی وقت کے حسین (ص) کی زبانی سنائی دے رہی ہے۔ وہ جملہ کیا تھا جس سے حر کی قسمت بدل گئی؟ وہ امام حسین (ص) کا میدان کربلا میں یہ ارشاد تھا کہ ہے کوئی جو حریم رسالت (ص) کی دفاع کریں؟ یہ صدا آج بھی گونج رہی ہے، "کہ کوئی ہے جو حریم رسالت (ص) کی پاسداری کرے۔؟ اور اس میں کیا شک کہ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی


انہوں نے کہا کہ شرار بولہبی کیا ہے، یعنی دہشت گردی، قتل و غارت، انتہا پسندی، ظلم، زیادتی، خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار، جہالت اور تعصب جبکہ چراغ مصطفوی یعنی، امن، بھائی چارگی،صبر و تحمل، علم و حکمت، محبت۔ ان دونوں طاقتوں نے باہم الجھتے رہنا ہے اور یقیناً فتح چراغ مصطفوی کو نصیب ہونا ہے۔ ہمیں چراغ مصطفیٰ (ص) لے کر تمام تر شرار بولہبی کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔

آخر میں خطیب اہلسنت مولانا مفتی غلام سرور نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خطاب کے دوران کہا کہ اسوقت وحدت کے فقدان کی تمام تر ذمہ داری علماء پر ہے۔ غریب عوام کو جس طرف لے جائیں چلے جاتے ہیں اور ہم نے خانہ خدا میں بیٹھ کر اپنا صحیح کردار ادا نہیں کیا ہے۔ ہم علماء کو سابقہ کردار پر اپنے رب سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے عناد اور کم ظرفی کے نتیجے میں اسلام کو نقصان پہنچا ہے۔ اب بھی ہم اپنی پرانی روش پر چلتے رہیں گے تو کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ حضور کا پاک (ص) نام اپنے لبوں پہ لائے۔ ہم تو ان کے امتی اور نام لیوا ہیں جو کافروں کو معاف کرتے تھے افسوس ہم مسلمانوں کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ ہم مسلمانوں کو مسلمان ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جو توحید و رسالت پر ایمان لایا اس پر کفر کے فتوے جائز نہیں۔ کفر کے خود ساختہ فتووں اور خود ساختہ جنت کے پروانوں نے اسلام کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔ ہمیں قلب سلیم پیدا کر کے ایک دوسرے کو برداشت کر کے اسلام کی سربلندی اور یہود و نصاری اور کفار و ہنود کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 237406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Good
ہماری پیشکش