0
Friday 23 Apr 2010 19:16

عدلیہ سے لڑائی کے باعث مسئلہ کشمیر حل ہوتے ہوتے رہ گیا،خورشید قصوری

عدلیہ سے لڑائی کے باعث مسئلہ کشمیر حل ہوتے ہوتے رہ گیا،خورشید قصوری
 لاہور:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا ہے کہ مشرف دور میں پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے لیکن عدلیہ کے ساتھ ہماری حکومت کی لڑائی کی غلطی سے معاملہ حل ہوتے ہوتے رہ گیا۔دونوں ملکوں میں طے پایا تھا کہ اس پر کوئی فریق فتح کا دعویٰ نہیں کرے گا۔میں پراعتماد ہوں کہ معاملات جس سطح پر پہنچ گئے تھے وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ وہیں فریز ہو گئے۔طے پانے والی تمام انڈر سٹینڈنگ کے حوالے سے نان پیپرز کا ریکارڈ دونوں ملکوں اور دوست ممالک کی حکومتوں کے پاس موجود ہے۔ موجودہ حکومتوں کو مذاکرات وہیں سے دوبارہ شروع کر دینے چاہئیں۔وہ گزشتہ روز ”جنگ گروپ“ اور ”ٹائمز آف انڈیا“ کی طرف سے ”امن کی آشا“ کے سلسلہ میں دو روزہ اسٹرٹیجک سیمینار کے اختتامی سیشن میں گفتگو کر رہے تھے۔ 
اس موقع پر ڈاکٹر مبشر حسن،عارف نظامی،رزاق داؤد،امین ہاشوانی،آئی اے رحمان،شفقت محمود اور بھارتی وفد کے ارکان امیتابھ مٹو،ایڈمرل (ر) نائر،پریم شنکر جھا،ایڈمرل (ر) رام داس اور سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر نے بھی اظہار خیال کیا۔ پروگرام کے میزبان افتخار احمد تھے۔ خورشید محمود قصوری نے اپنے دور میں پاک بھارت مذاکرات کے اہم پہلوؤں سے پردہ اٹھایا۔سیمینار کے بعد جنگ سے گفتگو میں انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہم بہت قریب پہنچ گئے تھے۔اس مرحلے تک پہنچنے میں ہمیں تین سال لگے،پندرہ بیس میٹنگز چھپ کر ہوئیں۔اس دوران پاکستان اور بھارت میں خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔میں نے متعدد بار پاکستان بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں کشمیریوں سے خفیہ ملاقاتیں کیں،کیونکہ ہمارا نقطہ نظر یہ تھا کہ کشمیر کا کوئی بھی حل کشمیریوں کی منشا کے منافی نہیں ہونا چاہئے۔کشمیریوں کا کہنا تھا کہ 1947ء میں ہم خودمختار ریاست تھے،لیکن اب تو وہاں بھارتی فوج ہے ہمیں وہی 1947ء والا سٹیٹس چاہئے۔ان کا یہ مطالبہ جب میں نے بھارت کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کشمیر سے فوج نکال لیں اور دوسری طرف پاکستان کی فوج کشمیر میں رہے۔اس پر طے پایا کہ دونوں ملک اپنی اپنی افواج بتدریج دونوں اطراف کے کشمیر سے نکالیں گے اور آخر میں کشمیر میں بہت معمولی فوج رکھی جائے۔
 انڈیا نے کہا جتنی خودمختاری ہم کشمیر کو دیں گے اسی قدر آپ کو دینا پڑے گی۔یعنی مہاراجہ کی ریاست والا معاہدہ دونوں اطراف ہو گا۔ہم میں ایک ”جوائنٹ میکانزم“ طے پایا اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ معاملات کے حتمی طور پر طے پانے کے بعد کوئی بھی فریق اپنی فتح کا دعویٰ نہیں کرے گا۔کیونکہ دونوں ممالک کو معاہدے کی حتمی منظوری کابینہ اور پارلیمنٹ سے لینا ہو گی،جہاں صرف برابری کی بنیاد پر ہونے والا کوئی معاہدہ ہی عوام قبول کریں گے۔انہوں نے کہا بھارت کا موقف تھا کہ کشمیر میں باؤنڈری رہنے دی جائے جبکہ ہمارا یہ کہنا تھا کہ کشمیریوں کے لئے یہ باؤنڈری غیر اہم اور غیر متعلقہ ہو گی۔دونوں اطراف کے کشمیریوں کو محض شناختی کارڈ کے ذریعے آنے جانے کی اجازت ہو گی۔خورشید محمود قصوری نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے اگست 2006ء میں پاکستان آنا تھا۔ہمارا خیال تھا کہ ان کی آمد پر ہم سرکریک پر معاہدہ سائن کر لیں گے،جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کی فضا میں ایک انقلابی تبدیلی آئے گی۔ہم دنیا کو یہ بتانے کے قابل ہوں گے کہ اقوام متحدہ کے بغیر بھی ہم دونوں ملک مل بیٹھ کر اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔سرکریک معاہدے سے کشمیر پر معاہدے کے لئے سازگار ماحول بنے گا۔
لیکن اسی دوران چیف جسٹس آف پاکستان کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔چیف جسٹس کی برطرفی سے عوام اور میڈیا مشرف حکومت کے خلاف ہو گئے اور اس ایشو میں ہماری حکومت متنازعہ ہو چکی تھی۔کشمیر جیسے تاریخی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے عوام اور میڈیا کی حمایت ضروری تھی،لیکن بدقسمتی سے دونوں ہمارے مخالف ہو چکے تھے۔دوسری طرف بھارت کی چند ریاستوں میں بھی الیکشن ہو رہے تھے،اس صورتحال میں مجھے کہا گیا کہ من موہن سنگھ پاکستان آ رہے ہیں تو اس موقع پر معاہدہ سائن کر لیا جائے،لیکن میں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اس پر ہماری بہت محنت ہوئی ہے۔موجودہ حالات میں اگر ہم نے کوئی چیز سونا بنا کر بھی پیش کی تو اسے پیتل کہا جائے گا۔میں صرف کریڈٹ لینے کے لئے اس محنت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا،اس لئے یہ معاملہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔
انہوں نے کہا موجودہ صدر آصف زرداری نے برسراقتدار آتے ہی طارق عزیز کو ہدایت کی کہ بھارت سے مذاکرات کا معاملہ آگے بڑھایا جائے پھر وزیر خارجہ قریشی نے ریاض احمد خان کو بیک چینل ڈپلومیسی کے لئے مخصوص کر دیا۔یہ دونوں اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ قیادت بھی سابقہ دور میں چلنے والے تمام معاملات سے پوری طرح آگاہ اور اس سے متفق بھی ہے۔ خورشید قصوری نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے سید علی گیلانی کے علاوہ تقریباً تمام کشمیری رہنما مسئلہ کشمیر کے اس حل پر متفق تھے۔سید علی گیلانی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے علاوہ کسی اور حل پر تیار نہ تھے جو کہ ناقابل عمل تھا۔میں نے ایک بار ان سے سات آٹھ گھنٹے ملاقات کی حتیٰ کہ پرویز مشرف بھی ان سے ملے،لیکن وہ اپنے موقف سے نہ ہٹے۔ قبل ازیں سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے خورشید محمود قصوری نے کہا کہ ہماری تہذیب جغرافیہ اور زبان میں یکسانیت ہے۔اس خطے میں امن کی خاطر دونوں ممالک کو ماضی کی تلخیوں کو بھول کر عوام کے خوشحال اور روشن مستقبل کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہئے۔دونوں ممالک میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے تنازعات کے حل میں پیش رفت نہ ہوئی۔اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے عوام کے بہتر مستقبل کے لئے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بھارت پانی اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کو دور کرے۔اس خطے میں امن کے قیام کی خاطر مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے مذاکرات میں تعطل کو دور کرنے کے لئے مثبت اقدام کرے۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرے گا،مگر ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھنے سے امن مذاکرات کا معاملہ دب گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے اور کسی ملک میں دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جی ایچ کیو،سرکاری عمارات،بسوں پر خودکش حملے ہو رہے ہیں۔بھارت کا دہشت گردی کے خاتمے کو مذاکرات سے منسلک کرنا درست نہیں ہے۔دونوں ممالک کو دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ خورشید قصوری نے کہا کہ یورپی ممالک اپنی تلخیاں تنازعات ختم کر کے یورپین یونین بنا سکتے ہیں تو پھر پاکستان اور بھارت اس خطے میں امن و استحکام کے لئے ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک اس خطے میں غربت کے خاتمے،امن و استحکام اور اقتصادی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کریں۔ 
سابق بھارتی سیکرٹری خارجہ سلمان حیدر نے کہا کہ بھارت حقیقی حکمرانوں سے بات کرتا ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے شروع ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ دشمنی ہونا ضروری نہیں ہے۔مذاکرات کے ذریعے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے سے یہ دشمنی دوستی میں بدل سکتی ہے۔انہوں نے کہا اس کے لئے دونوں ممالک کے عوام دل سے دل جوڑ کر امن کی خاطر امن کی آشا کے لئے آگے بڑھیں اور نئی نسل کے روشن مستقبل کے لئے پرانے لوگوں کو مسائل کو حل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔یہی پیغام امن کی آشا کا ہے۔دنیا بدل گئی ہے اب ہمیں بھی مل کر ایک دوسرے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔
 بھارتی وفد کے رکن امتیابھ مٹو نے کہا ممبئی حملوں کے بعد مذاکرات کا جو عمل رکا تھا بھارت اسے بیک چینل کے ذریعے دوبارہ شروع کرنے پر تیار ہے۔اسلام آباد بھی اسے شروع کرے اور ”ون ون فارمولا“ آگے بڑھایا جائے۔ساؤتھ ایشیا میں ویزا نہیں ہونا چاہئے۔لوگ ویزا کے بغیر ایک دوسرے کے ملک پڑھنے لکھنے جائیں۔کشمیر پر استصواب رائے کے حوالے سے ایک طالب علم کے سوال پر امیتابھ مٹو نے کہا کہ اگر ہم ہر جگہ ریفرنڈم کرانا شروع کر دیں تو علاقہ میں دو سو ریاستیں بن جائیں،اس لئے یہ ممکن نہیں۔ 
ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا ویزا کے معاملہ پر ہماری اسٹیبلشمنٹ خوف زدہ ہے۔بھارت نے اٹاری پر ویزا دینے کا اعلان کیا،لیکن ہمارے ہاں اس کی اجازت نہ دی گئی۔انہوں نے کہا یہاں پر خوف رہتا ہے کہ امیتابھ بچن آگئے تو تہلکہ مچ جائے گا۔میں کہتا ہوں تہلکہ مچنے دو۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے پانی کے مسئلہ پر پاکستان کی پالیسی پر ہی نکتہ چینی کی اور کہا کہ بھارت جتنا پانی جمع کرتا ہے وہ معاہدے میں لکھا ہوا ہے۔اب تک بھارت نے جتنے ڈیم بنائے وہ معاہدے سے کم ہیں۔ہمارے ہاں بہت جھوٹ شائع ہوتا ہے۔کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بھارت پانی چوری کر کے کہاں لے کر جاتا ہے۔انہوں نے کہا تاہم پانی کے مسئلہ پر بھارت کے ہاتھ اتنے صاف نہیں۔انہوں نے کہا دریاؤں میں پانی کم ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے دریاؤں سندھ اور جہلم میں بھی کئی بار پانی کم ہوا۔
 ایڈمرل (ر) نائر نے کہا پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح طور پر کہا کہ بھارت پانی چوری نہیں کرتا۔لیکن ان کی یہ بات ٹی وی پر صرف 30 سیکنڈ کے لئے دکھائی گئی۔اس کے بعد اسے غائب کر دیا گیا۔انہوں نے کہا پانی چوری پر ہمارا دامن بالکل صاف ہے۔اگر کوئی شکوہ ہے تو اسے انڈس واٹر کمیشن میں لایا جاسکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو خود اپنے ہاں ڈیم بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کسی بھی بات کا بتنگڑ بنانے سے پہلے ہمیں خوب سوچ سمجھ لینا چاہئے۔انہوں نے کہا دونوں ممالک کو ویزا کے اجراء میں آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں۔
 سینئر بھارتی صحافی پریم شنکر جھا نے کہا بھارت میں کسی بھی سطح پر سوچ نہیں پائی جاتی کہ پاکستان کا گلا گھونٹ کر پانی حاصل کیا جائے۔انہوں نے کہا ہمارے پراجیکٹ بجلی پیدا کرنے کے ہیں جن میں صرف ایک بار جھیل میں پانی بھرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد پانی چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔اس طرح پاکستان کا پانی کم نہیں ہو سکتا۔ 
تجزیہ کار شفقت محمود نے کہا ویزا کی مشکلات دونوں اطراف ہیں۔بھارت نے بھی پاکستان کے راحت فتح علی خان اور دیگر فنکاروں کو ویزا نہیں دیا۔وہاں شیوسینا ہمارے لوگوں کو دھمکیاں دیتی ہے۔ انہوں نے کہا دونوں اطراف کے ٹی وی چینلز سے پابندیاں ختم کرنی چاہئیں۔ہمیں عوامی سطح پر ایک ایسی تحریک چلانے کی ضرورت ہے کہ امن عمل کو سبوتاژ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ ایڈمرل (ر) رام داس نے کہا کہ جنگیں لڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ حالات مزید خراب ہوئے۔اس لئے اب دونوں اطراف یہ سوچ پائی جا رہی ہے کہ مذاکرات اور دوستی ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا بلوچستان اور فاٹا میں بھارتی مداخلت کی باتیں محض الزام ہیں،اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ 
عارف نظامی نے کہا فوجیوں کا اپنا مائنڈ سیٹ (سوچ) ہوتا ہے کہ قومی مفاد کے وہ کسٹوڈین ہیں کہ ہمیں فارن پالیسی کا بھی پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ ملک کیسے چلانا ہے۔انہوں نے کہا پرویز مشرف کبھی بھی بھارت کے ساتھ دوستی سے مخلص نہ تھے۔واجپائی جب پاکستان آئے تو وہ کارگل کر رہے تھے لیکن جب خود برسراقتدار آئے تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذاکرات اور دوستی کی باتیں کیں۔ 
امین ہاشوانی نے کہا دونوں ملکوں میں تجارت کو بڑھانا چاہئے۔ہم اگر چائنہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو بھارت کا بھی مقابلہ کرسکتے ہیں،مارکیٹ کو اوپن کرنا چاہئے۔پاکستان اپنی 65 فیصد ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کرتا ہے اسے بھارت میں اس کی مارکیٹ مل سکتی ہے۔انہوں نے کہا ٹریڈ بڑھانے سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔دونوں ملکوں کے عوام کو سستی اشیاء ملیں گی۔اس مقصد کے لئے آسان تجارتی پالیسی بنائی جائے،ڈیوٹیاں کم کی جائیں،لاجسٹک مسائل حل کئے جائیں۔انہوں نے کہا دونوں ملکوں میں دوری 60 سال کی قیادت کی ناکامی ہے۔ 
افتخار احمد نے کہا یورپ کے ممالک نے ایک دوسرے پر بم گرائے۔اب ان میں ویزا بھی نہیں۔ہمارے ہاں دونوں اطراف کی اسٹیبلشمنٹ اس سے خوف زدہ ہے۔اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چودھری اعتزاز احسن گزشتہ روز جنگ گروپ اور ٹائمز آف انڈیا کے زیر اہتمام ”امن کی آشا“ کے سلسلہ میں منعقدہ سیمینار میں شرکت کے لئے آئے تو حاضرین نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔سیمینار کے اختتام پر مختلف یونیورسٹیز کے طلباء اور سول سوسائٹی کے افراد نے انہیں گھیر لیا ان سے آٹو گراف لیتے اور ان کے ساتھ تصاویر بنواتے رہے اعتزاز احسن تمام وقت حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ 

خبر کا کوڈ : 24299
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش