0
Wednesday 10 Apr 2013 00:38

نوجوان آزادانہ طور پر مگر والدین کی رہنمائی میں شریک حیات کا انتخاب کریں، علامہ جواد ہادی

نوجوان آزادانہ طور پر مگر والدین کی رہنمائی میں شریک حیات کا انتخاب کریں، علامہ جواد ہادی
اسلام ٹائمز۔ ممتاز اہل تشیع مذہبی اسکالر، رکنِ مرکزی شوریٰ نظارت مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور مدرسہ شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے سربراہ علامہ سید محمد جواد ہادی نے کہا ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات کو اسلامی احکامات کی روشنی میں طے کرنا چاہئے جبکہ اسلام میں جبری شادی کا تصور کہیں نہیں پایا جاتا۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام میں ازدواجی زندگی کی ایک خاص فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پر زور بھی دیا گیا ہے۔ اسلام باہمی تعلقات کی تائید کرتا ہے اور شادی کو ہمارے معاشرتی نظام کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ انہوں نے معاشرے میں پائے جانے والے اس تاثر کی نفی کی کہ جس کے تحت جبری شادی یا والدین کی رضامندی سے شادی کرنے کو ہی اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں شادی میں انتخابی طریقہ ہے، اس میں فیصلہ مسلط کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ والدین کی طرف سے لڑکے کو لڑکی پر اور نہ ہی کسی لڑکی کو والدین یا کسی اور کی طرف سے لڑکے پر مسلط کرنے کی اجازت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں جبری شادی کا تصور عام ہے۔ قرض نادہندگی، خاندانی رقابتوں اور مختلف قسم کی جاہلانہ اور غیر اسلامی خاندانی رسومات کے تحت بچوں کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961ء میں شادی کے لئے موزوں عمر کا تعین کئے جانے کے باوجود کم عمری میں شادیاں کر دی جاتی ہیں، جبکہ اسلام ان فرسودہ روایات کی قطعی تائید نہیں کرتا۔ علامہ سید محمد جواد ہادی نے کہا کہ انتخاب کے لئے لڑکا، لڑکی کو اور لڑکی، لڑکے کو دیکھے اور والدین بھی ان کی صحیح رہنمائی کریں اور کسی کو بھی شادی کے لئے مجبور نہ کیا جائے۔ ازدواجی زندگی کے لئے سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی آزادانہ طور پر مگر والدین کی رہنمائی میں شریک حیات کا انتخاب کریں۔
 
اسلام میں شادی کے مزید احکامات کے حوالے سے علامہ سید محمد جواد ہادی کا کہنا ہے کہ انتخاب کے لئے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے کو دیکھنا اور ایک دوسرے کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ لہذا اگر کوئی لڑکا اور لڑکی شادی کرنے کی غرض سے ایک دوسرے کو دیکھیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ علامہ سید جواد ہادی نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بچوں کی بہترین تربیت کے حوالے سے والدین کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے ادا کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کی ذات میں کچھ چیزیں اور کچھ احساسات و جذبات فطری ہیں۔ ان خواہشات اور جذبات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ خواہشات اور جذبات ایسے ہیں جو عمر کے ایک خاص حصے میں عروج پر پہنچ جاتے ہیں، اسلام میں انسان کی اس فطری خواہش کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال میں رکھنے کے لئے کہا گیا ہے، انہیں دبانے کے لئے نہیں کہا گیا۔
 
انہوں نے کہا کہ نوجوانی کا دور اکثر بچوں کیلئے بڑا مشکل اور جذباتی دور ہوتا ہے۔ اس دور میں اکثر بچوں اور بچیوں میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہوتی۔ ان حالات میں صحت اور صفائی کی بنیادی ضروریات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پورا کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ والدین کی جانب سے معلومات کی فراہمی نہ ہونے کے باعث اکثر بچے اور بچیاں دیگر ذرائع تک پہنچتے ہیں، جس میں بسا اوقات بچوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ علامہ سید محمد جواد ہادی کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایسے قوانین بنائیں کہ بچوں کو زبردستی روکا جائے یا ان پر زبردستی کی جائے، یہ اس کا علاج نہیں ہے۔ اسلام نے اس کے جو قانونی طریقے بتائے ہیں، ان کے تحت قانونی راستوں سے اعتدال کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 253013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش