0
Sunday 26 May 2013 13:15
اسرائیل اور تکفیری خطے کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں

شام کیخلاف ہونیوالی سازش کے مقابلے میں ہاتھ باندھے کھڑے نہیں رہ سکتے، سید حسن نصراللہ

شام کیخلاف ہونیوالی سازش کے مقابلے میں ہاتھ باندھے کھڑے نہیں رہ سکتے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ہفتے کے روز جنوبی لبنان کی اسرائیلی غاصب کے ہاتھوں کی آزادی کی تیرہویں سالگرہ پر اس دن کو "روز آزاد سازی" قرار دیا۔
جنوبی لبنان کی آزادی کی 13ویں سالگرہ کی مناسبت سے ہونے والی اپنی اہم تقریر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے شام میں جاری صورتحال اور اس کے لبنان پر اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔
سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ اگر تکفیری گروہ شام پر یا لبنان کے بارڈر کے ساتھ شامی علاقے پر قابض اور مسلط ہوگئے تو یہ صورتحال نہ صرف لبنان کے اہل تشیع یا حزب اللہ کے لئِے خطرناک ہوگی، بلکہ یہ پورے لبنان اور لبنانیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیگی۔ انہوں نے شام میں سرگرم عمل شدت پسند سلفی گروہوں کے حوالے سے لبنان اور فلسطین کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر شام سقوط کرگیا تو بیت المقدس بھی سقوط کر جائے گا، ایسا ہونے کی صورت میں ہمارا علاقہ اور یہاں کے عوام ایک سخت اور سیاہ دور میں مبتلا ہوجائیں گے۔ 

حزب اللہ کے سربراہ نے ایسے حالات میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے جب شامی فوج نے غیر ملکی حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے خلاف ملک کے غرب میں واقع صوبہ حمص کے لبنان اور شام کے بارڈر پر واقع اہم اور اسٹریٹجیک شہر القصیر کو اپنے توپ خانہ کی گولہ باری اور راکٹوں کا نشانہ بنا رکھا ہے، اور اس شہر کے شمال میں واقع الضعبہ کے انتہائی اہم فوجی ایئر پورٹ پر قبصہ حاصل کر لیا ہے۔ اسی طرح شامی فوج نے اپنے حملے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کرتے ہوئے لبنان کے بارڈر پر واقع اس شہر القصیر میں واقع بعث پارٹی کے مرکز کو بھی آزاد کروا لیا ہے، اس حملے کے دوران غیر ملکی حمایت یافتہ دہشتگردوں کو بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ شام اور لبنان کے بارڈر پر واقع اہم اور اسٹریٹجیک شہر القصیر پچھلے کچھ دنوں سے شامی فوج اور حکومت مخالف مسلح باغیوں کے درمیان لڑائی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس لڑائی میں شامی فوج نے غیر ملکی حمایت یافتہ مسلح باغیوں کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کا جنگی ساز و سامان بھی تباہ کر دیا ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنی تقریر کے دوران شام میں جاری لڑائی کو امریکہ کی طرف سے علاقے میں طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں میں تبدیل کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا۔ سید حسن نصراللہ نے لبنان کی شریف اور مجاہد عوام کو شام میں سلفی گروہوں کے خلاف کامیابی اور فتح کا وعدہ دیا اور کہا کہ کامیابیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ اب میں آپ سے وہ بات کہنا چاہ رہا ہوں، جو میں نے جولائی میں کہی تھی، اور ایک بار پھر میں آپ سے کامیابی کا وعدہ کرتا ہوں۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے بعض افراد کی طرف سے حزب اللہ پر فرقہ وارانہ تنظیم ہونے کے الزام کو بھی رد کر دیا۔ 

اپنی تقریر کے ایک دوسرے حصے میں حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شام کے رہنماوں نے ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے اصلاحات کی حمایت کی ہے، لیکن شام میں سرگرم عمل غیر ملکی حمایت یافتہ باغیوں نے شروع سے اس کی مخالفت کی ہے، کیونکہ انہیں امید تھی کہ شامی حکومت سقوط کر جائے گی۔ باغیوں کا خیال تھا کہ چونکہ بہت سے ممالک ان کی حمایت کر رہے ہیں، لہذا یہ کامیاب ہو جائیں گے۔ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس پورے قضیئے کے پیچھے امریکہ ہے اور باقی ممالک امریکہ کے خدمت گزار ہیں اور وہ اس امریکی اور اسرائیلی سازش کی حمایت کر رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ القاعدہ اور تکفیری دہشتگرد بھی اس کھیل میں شامل ہوچکے ہیں اور بہت سے ممالک ان دہشتگردوں کی مالی اور نظامی مدد کر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ایک طرح سے شام کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ شام میں موجود ہزاروں مبارز اور شام کے دوستوں اور حامیوں نے انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچایا، لیکن حزب اللہ کے محدود مبارزین نے ان کو ناراحت کر دیا ہے۔

سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ اس تکفیری فکر نے عراق، پاکستان اور افغانستان میں باقی اقوام کی نسبت اہل تسنن کو زیادہ قتل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تیونس، لیبیا اور وہ ممالک جنہوں نے اس وبا کی پرورش کی اور اسے برآمد کیا، وہ بھی اب سے محفوظ نہیں ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اب ہمیں بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وبا لبنان میں بھی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی فکر جو گفتگو کو قبول نہ کرے، گفتگو نام کی کسی چیز اور مشترکات پر یقین نہ رکھے، انتہائی خطرناک ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس تکفیری فکر کے سائے میں شام، لبنان اور فلسطین کے لئے کس قسم کے مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے۔؟ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کے ابتداء میں ہی یہ تکفیری کہتے تھے کہ شام کی سرنگونی کے بعد لبنان کی طرف بھی آئیں گے۔ انہوں نے امریکہ کو یقین دہانی کروا رکھی تھی، انہوں نے شام کے بحران کے آغاز میں ہی اعزاز کے مقام پر لبنانی زائرین کو اغوا کر لیا تھا۔

سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ شام مزاحمت و مقاومت کا ستون اور پشتیبان ہے، اس لئے مقاومت ہاتھ باندھے کھڑی نہیں رہ سکتی، تاکہ مقاومت کے ستون اور پشتیبان کو تباہ کر دیا جائے۔ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ ہم احمق اور نادان نہیں ہیں، احمق اور نادان وہ ہے کہ خطرات جس کی طرف بڑھ رہے ہوں اور وہ اس کو دیکھتا رہے اور کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہ کرے۔ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ موجودہ سازش کو ہزاروں شہداء کی قربانیوں سے ناکام بنایا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس مبارزے سے الگ ہوجائے تو  وہ ایسا کرلے۔ انہوں نے کہا کہ 1982ء میں بعض لوگ معتقد تھے کہ کوئی بھی خطے میں طاقت کے توازن پر اثر انداز ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، لیکن ہم نے ایسا کر دکھایا۔ سید مقاومت کا کہنا تھا کہ ہم آج بھی لبنان، فلسطین اور شام کا دفاع کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 267583
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش