0
Monday 27 May 2013 00:53

شہید سبط جعفر کے قاتل پولیس اہلکار کا قتل کی مزید 9 وارداتوں کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ

شہید سبط جعفر کے قاتل پولیس اہلکار کا قتل کی مزید 9 وارداتوں کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ
رپورٹ: ایم آر عابدی

ممتاز ماہر تعلیم، استاد اور پاکستان کی سرزمین پر شاعری کی زینت شہید پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کے قتل میں گرفتار ہونے والے پولیس اہلکار طارق شفیع انصاری عرف ڈاکٹر نے جے آئی ٹی کے دوران مزید 9 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے، ملزم پہلے بھی جیل جا چکا ہے اور طویل عرصہ جیل میں گزارنے کے باوجود پولیس میں دوبارہ اپنی نوکری پر بحال ہوگیا اور واردات سے قبل بھی وہ پولیس کے محکمہ میکینکل ڈپارٹمنٹ سے تنخواہ وصول کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں ملنے والی تفصیلات کے مطابق ملزم نے جے آئی ٹی کے دوران بتایا ہے کہ لیاقت آباد سائنس کالج کے پرنسپل سید سبط جعفر کو قتل کرنے کیلئے اطہر، شاہد اور ملزم نے آپس میں مشورہ کیا تھا۔ 18 مارچ 2013ء کو ملزم طارق شفیع کی اجازت سے اطہر اور شاہد نے سید سبط جعفر کو لیاقت آباد میں فائرنگ کرکے شہید کر دیا تھا، جس کا مقدمہ نمبر 61/2013 لیاقت آباد تھانے میں درج ہوا۔ ان کے علاوہ ملزم نے قتل کی جن وارداتوں کا اعتراف کیا ہے ان میں زاہد ولد مشتاق جو کہ صدر میں حکمت کرنے والے ایک حکیم کا بیٹا تھا، اسے 5 فروری 2013ء کو اطہر اور شاہد چورن کے ساتھ مل کر قتل کیا تھا جس کا مقدمہ نمبر 40/2013 صدر تھانہ میں درج ہے۔ ملزم نے پیتل والی گلی میں سید قمر رضا نقوی کو قتل کیا تھا اور اس قتل میں اس کے ساتھ سبحان اور اس کا ایک ساتھی شامل تھا، جس کا مقدمہ نمبر 55/2013 رضویہ سوسائٹی تھانے میں درج ہے۔

ملزمان نے سپاہ محمد کے ایک مبینہ کارکن اعجاز حسین جعفری جس نے متعدد افراد کو قتل کیا تھا، کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اسے سبحان کے ساتھ مل کر ہمدرد دواخانہ ناظم آباد میں قتل کر دیا تھا، جس کا مقدمہ نمبر 55/2013 ناظم آباد تھانے میں درج ہے۔ ملزم کا کہنا ہے کہ سبحان نے اطلاع دی تھی کہ ایک لڑکا حسن صفدر نقوی انٹرنیٹ پر صحابہ کرام کیخلاف گستاخی کرتا ہے، جس پر اسے پاپوش نگر میں قتل کر دیا گیا، جس کا مقدمہ نمبر 32/2013 پاپوش نگر تھانے میں درج ہے۔ حافظ قاسم رشید نے انہیں بتایا تھا کہ دو لڑکے نفرت انگیز لٹریچر چھاپ کر تقسیم کرتے ہیں، جس پر میں نے اور حافظ قاسم رشید نے کریم آباد پل پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سید احسن عباس نقوی اور ضیاء مہدی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا، جس کا مقدمہ نمبر 150/2012 گلبرگ تھانے میں درج ہے۔

ملزم نے کہا کہ 16 مارچ 2012ء کو مغرب کا وقت تھا، میرے ساتھ سبحان بھائی تھے اور میں موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور سبحان بھائی کے پاس نائن ایم ایم پستول تھا، ہم علی بستی کی امام بارگاہ کے ذاکر کو قتل کرنے جا رہے تھے، جب ذاکر کی کار بزنس ریکارڈر روڈ پہنچی تو سبحان نے پستول سے فائرنگ کی، ذاکر فائرنگ سے بچنے کیلئے جھک گیا تو ساتھ بیٹھے اس کے بیٹے کو گولیاں لگیں اور ذاکر زخمی ہوگیا، بعد میں معلوم ہوا کہ ذاکر کا بیٹا سید اکمل محسن رضوی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا، اس کا مقدمہ نمبر 131/2012 جمشید کوارٹر تھانے میں درج ہے۔ ڈاکٹر حسن عالم زیدی سے ملزم طارق شفیع انصاری علاج کروا رہا تھا کہ اس دوران کسی مسلکی مسئلے پر دونوں میں تکرار ہوگئی، جس پر ملزم نے ڈاکٹر کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی ہدایت پر شہزاد نامی لڑکے نے جو کہ نیو کراچی کا رہنے والا ہے، 22 جنوری 2013ء کو ڈاکٹر حسن عالم کو ان کے کلینک میں قتل کر دیا، جس کا مقدمہ نمبر 20/2013 نیو کراچی تھانے میں درج ہے۔

ملزم نے جے آئی ٹی کے دوران اپنے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پی آئی بی کے علاقے میں 1968ء میں پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول سندھی ہوٹل لیاقت آباد سے حاصل کی اور اسی دوران ریفریجریشن کورس کیا اور میٹرک 1989ء میں پرائیویٹ پاس کیا اور 1990ء میں محکمہ پولیس میں بحیثیت مکینک گارڈن میں بھرتی ہوا، 1995ء میں بھائی کے انتقال پر نوکری چھوڑ کر بہاولپور شفٹ ہوگیا اور وہیں ماموں کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ ملزم پنجاب میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا، کاروبار نہ چلنے کی وجہ سے 1998ء میں واپس کراچی آگیا اور پولیس میں اپنی نوکری پر دوبارہ بحال ہوگیا۔ پولیس میں تعیناتی کے دوران ملزم کا کہنا ہے کہ اس کی ملاقات وسیم بارودی نامی لڑکے سے ہوئی، جو اس کے ایک شاگرد پیش امام اورنگی ٹاؤن نمبر ساڑھے گیارہ کے پاس آتا تھا۔ ملزم کے بہکاوے پر وہ قتل و غارت گری پر آمادہ ہوا اور اس طرح ایک دن وسیم بارودی اسے ایک لڑکے کو قتل کرنے کیلئے ساتھ لے گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے پاس 30 بور کا پستول تھا اور ہم دونوں پیدل جا رہے تھے، وسیم بارودی نے ایک لڑکے کی نشاندہی کی اور میں نے اس پر گولی چلا دی، 2000ء سے 2001ء میں میری گرفتاری سے قبل 9,10 افراد کو قتل کیا، بعد ازاں اورنگی تھانے میں گرفتار ہوگیا۔

2001ء کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ملزم نے بتایا کہ وہ اور وسیم بارودی پیدل جا رہے تھے کہ اسٹریٹ کرائم کرنے والے لڑکوں نے انہیں گھیر لیا اور وسیم بارودی سے رقم چھیننے کی کوشش کی، مزاحمت پر وسیم کو گولیاں لگیں اور اسی دوران میں نے پستول نکال کر فائرنگ کی، جس سے ایک ڈاکو ہلاک ہوگیا، وسیم کو زخمی حالت میں اسپتال لے جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسی دوران اورنگی پولیس کے اے ایس آئی علی رضا نے ہمیں گرفتار کرلیا۔ گیارہ مقدمات میں گرفتاری ہوئی اور جیل میں ساڑھے 7 سال قید رہا، ضمانت ہونے پر 2008-09 میں جیل سے رہا ہوا، وسیم بارودی مجھ سے سات آٹھ ماہ قبل رہا ہوچکا تھا، میں جیل میں ایس ایس پی کا امیر تھا، لیکن جیل سے آنے کے بعد میں تمام سرگرمیوں سے دور ہوگیا اور پولیس میں اپنی نوکری پر ایک بار پھر بحال ہوگیا، مگر پھر حافظ قاسم رشید کے اصرار پر میں نے دوبارہ ملاقاتیں شروع کیں اور اس طرح آہستہ آہستہ میں ایک بار پھر تنظیم کے ٹارگٹ کلرز کے گروپ کا سربراہ بن گیا۔ ملزم کے عرف ڈاکٹر، بابا جی، بڑے میاں، چاچا، حاجی اور حاجی صاحب تھے۔ ملزم نے اپنے ساتھیوں میں حافظ قاسم رشید اور وسیم بارودی کے علاوہ سبحان بھائی کی بھی نشاندہی کی ہے اور تینوں جیل میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 267763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش