اسلام ٹائمز۔ چیف جسٹس جسٹس دوست محمد اور جسٹس اسد اللہ چمکنی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیوں کوبہت وقت دیاتاہم وہ عدالت سے تعاون نہیں کررہی ہیں۔ لوگوں کوسالہا سال غیرقانونی حراستی مراکز میں رکھاجارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتیں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے بیٹھی ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ ان کی مجبوریاں ہیں لیکن انکو بہانہ بناکر قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی جاسکتی اگر پارلیمنٹ قانون تبدیل کرے تو پھر عدالت مداخلت نہیں کریگی انہوں نے کہاکہ لاپتہ ہونیوالے افراد کی مسلسل گمشدگی سے ان کے خاندان والوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین خلاءپیدا ہورہا ہے اگر سیکیورٹی فورسز کے پاس ثبوت ہیں تو انہیں حراستی سنٹر بھیج دے۔
چیف جسٹس دوست محمد خان نے سی سی پی او سے سوال کیا کہ قبائلی علاقے تودورکی بات ، کینٹ ایریا میں غیر قانونی حراستی سنٹر چل رہے ہیں ان کو ختم کرنے کیلئے آپ نے کیا کیاہے؟ سی سی پی او نے جواب دیا کہ انہیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت کیا یہ پولیس کی ذمہ داری نہیں۔