اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے طالبان سے مذاکرات کے لیے دفتر کھولنے سے متعلق کیس کی سماعت میں قرار دیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا پارلیمانی اداروں کا اختیار ہے، عدالت ریاستی پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت کے روبرو درخواست گزار کاشف سلیمانی ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ کہ نائن الیون واقع کے بعد پاکستان میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں جبکہ اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس وقت حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے متعلق بات چیت جاری ہے لیکن ابھی تک طالبان کو پاکستان میں مذاکرات کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا پارلیمانی اداروں کا کام ہے عدالت مذاکرات کے عمل میں حکومتی پالیسی سے متعلق مداخلت نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کس قانون کے تحت عدالت حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا حکم دئے۔ عدالت نے کیس کیس کی سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کو پٹیشن کے قابل سماعت ہونے سے متعلق مزید دلائل دینے کے لئے طلب کر لیا۔