0
Thursday 31 Oct 2013 22:15

مذاکرات اور ڈرون حملے، مولانا اور عمران خان آمنے سامنے

مذاکرات اور ڈرون حملے، مولانا اور عمران خان آمنے سامنے
اسلام ٹائمز۔ تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود بھی حکومت طالبان سے مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی اور اگر ایسا ہی رہے تو ہم خود مذاکرات شروع کر دیں گے۔ طالبان نے مذاکرات اور جنگ بندی کے لئے صرف ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، سب نے حکومت کو مذاکرات کا اختیار دیا ہے لیکن پھر بھی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران اگر ڈرون حملہ ہوا تو نیٹو سپلائی بند کر دی جائے گی۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے دورہ امریکہ کے دوران جب امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات کی تو وہ ان سے اتنے مرعوب تھے کہ انہیں ایک صاحب کا درجہ دیا حالانکہ انہیں ان سے صاف الفاظ میں ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے پہلی سے لکھی ہوئی تقریر پڑھی، تاکہ کوئی غلطی نہ ہو۔
 
جبکہ جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ڈرون حملے انتہائی قابل مذمت ہیں، تاہم تازہ امریکی ڈرون حملے سے طالبان سے مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے۔ عمران خان کے برعکس مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے دورہ امریکہ کے دوران پہلی مرتبہ ڈرون حملوں کے حوالے سے متفقہ عوامی اور حکومتی نکتہ نظر پیش کیا، ضروری نہیں کہ پہلی  ہی ملاقات کے نتیجے میں ڈرون حملے رک جائیں، تاہم عالمی سطح پر ڈرون حملوں  کے حوالے سے پاکستانی موقف کو نئی جہت ملی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی  کہا کہ طالبان کی طرف سے  بار بار یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملے روکے جانے چاہئیں، انہیں امید ہے حالیہ ڈرون حملے سے مذاکرات متاثر نہیں ہوں گے، ہم حکومت کو مذاکرات میں ہر طرح کی معاونت فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں، کیونکہ پوری قوم امن چاہتی ہے۔ لیکن جب چوہدری نثار خان کی طرف سے انہیں مذاکراتی ٹیم کی سربراہی قبول کرنے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اسے رد کر دیا۔

دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز کر دیا گیا ہے، تاہم مذاکرات آئینی حدود میں رہتے ہوئے کئے جائیں گے۔ اسی دوران جب وزیر داخلہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کے ایجنڈے، طریق کار اور مقام کے متعلق اعتماد میں لینے کی بات کر رہے ہیں، وزیرستان میں ڈرون حملے جاری ہیں، جو جاری رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات ممکن ہیں یا نہیں اور اگر مذاکرات شروع ہو بھی جائیں تو کیا ڈرون حملوں کے ساتھ ساتھ امن کا عمل جاری رہ سکے گا یا نہیں؟
خبر کا کوڈ : 316328
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش