0
Wednesday 20 Nov 2013 20:14

تکفیری گروہ پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے، مجلس وحدت پنجاب

تکفیری گروہ پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنا چاہتا ہے، مجلس وحدت پنجاب
اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ، عزاداران امام حسین(ع) اور بانیان مجالس کا یہ مشاورتی اجلاس لاہور میں ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹریٹ میں ہوا جس کا مقصد ملک میں جاری شرپسندوں،ملک دشمنوں کی سازشوں سے آگاہی اور اس سازش کو نا کام بنانا تھا۔ اجلاس میں علامہ عبدالخالق اسدی،علامہ ابوذر مہدوی، علامہ وقارالحسنین نقوی،علامہ احمد اقبال رضوی،علامہ حسنین عارف ،علامہ مظہر نقوی، الحاج حیدر علی مرزا،خواجہ بشارت حسین کربلائی،آغا شاہ حسین قزلباش،سردار حر بخاری،سید امیر علی شاہ،سید نو بہار شاہ،سید سجاد حیدر بخاری،سیٹھ بشارت حسین،سمیت لاہور بھر سے عزادارن نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے سید اسد عباس نقوی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پنجاب نے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ یوم عاشورا کو راولپنڈی میں پیش آنیوالے سانحہ کے بعد سے ملک بھر میں ملک دشمن اور اسلام دشمن تکفیری گروہ نے یہ کوشش کی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو دہشت گردی اور فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا جائے اور افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت سمیت میڈیا میں موجود چند زر خرید غلاموں نے بھی ظالموں کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کسی قسم کی کسر نہیں رکھی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔

راولپنڈی میں یوم عاشورا کے روز برآمد ہونیوالے عزاداری سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جلوس عزاء کی تاریخ اڑھائی سو سالہ پرانی ہے جو کہ قیام پاکستان سے قبل اپنے مقررہ راستوں سے گزرتا ہے جس میں نہ صرف شیعہ مسلمان بلکہ شہر کے اہل سنت مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں، گزشتہ دنوں یوم عاشورا پر عزاداری کے جلوس عزاء کے دوران مسجد کے خطیب کی جانب سے لاؤڈ سپیکر پر ایسی شر انگیز اور شرم ناک گفتگو کی گئی جو کہ نا قابل بیان ہے، مسجد کے خطیب نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین (ع) کے بارے میں گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین (ع) کا یزید کیخلاف قیام درست نہیں تھا اور امام حسین علیہ السلام کو یزید کی بیعت کرنی چاہئے تھی اور ساتھ ساتھ مسجد کے خطیب نے عید میلاد النبی (ص) اور عزاداری کے جلوسوں کو خرافات کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد جلوس عزاء میں موجود عزاداران امام حسین علیہ السلام نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسجد کے لاؤڈ سپیکر کو بند کروائے کہ جہاں سے نواسہ پیغمبر اکرم(ع) کیخلاف نازیبا کلمات بیان کئے جا رہے ہیں لیکن انتظامیہ مسجد کے خطیب کے سامنے بے بس رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی کی سازش پہلے سے تیار کی گئی تھی اور مکمل منصوبہ بندی کے تحت پہلے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے نواسہ رسول اکرم(ع) کی شان میں گستاخی کی گئی پھر شیعہ اور سنی مسلمانوں کے جلوسوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پھر مسجد کی چھت سے پتھروں کی بارش شروع کر دی گئی جبکہ پیچھے کی جانب سے مسجد اور مارکیٹ کو بھی اسی ناپاک منصوبہ بندی کے تحت نذر آتش کیا گیا، آخر یہ کون سے عناصر تھے جنہوں نے مسجد اور مارکیٹ کو پیچھے کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا ؟ یقیناًیہ وہی دہشت گرد ٹولہ تھا جسے ایک منصوبہ بندی کے تحت شہر میں ایک ٹوئٹر پیغام کے ذریعے بلایا گیا تھا ، جیسا کہ پاکستان عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید بھی اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ مسجد اور مارکیٹ کو پیچھے کی سمت سے نذر آتش کرنیوالے راولپنڈی کے شہری نہیں بلکہ شہر کے باہر سے آئے ہوئے مخصوص قسم کے دہشت گرد تھے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسجد اور مارکیٹ کو نذر آتش کرنے کے بعد اسی دہشت گرد ٹولے نے علاقے میں موجود مختلف مقامات پر چھ مساجد و امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا جہاں قرآن مجید کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔اس پوری تخریب کاری کی سازش در اصل دو روز پہلے تکمیل پا چکی تھی جو کہ ایک سوشل میڈیا پر چلائے جانیوالے پیغام کے ذریعے کی گئی تھی جو کہ تکفیری دہشت گرد ٹولے کی ٹوئٹر سروس پر پیغام بھیجا گیاتھا اور کہا گیا تھاکہ تمام لوگ پندرہ نومبر کو مسجد پہنچیں تا کہ جلوس عزاء کو روکا جا سکے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوم عاشورا کے روز جب یہاں سے ایک عزاداری کا مرکزی جلوس گزرنا تھا تو مسجد کی انتظامیہ کو لاؤڈ سپیکر کے بے دریغ استعمال کی اجازت آخر کیوں دی گئی؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب جلوس عزاء کے گزرنے کا ٹائم تھا تو اس وقت خطبہ ختم ہو چکا ہونا تھا تاہم ایسا نہیں ہوا اور شر انگیزی اور منافرت پر مبنی خطبہ جاری رہا ؟ یہاں ایک اور بات بھی واضح رہے کہ جب جلوس عزاء مسجد سے کافی فاصلے پر موجود تھا تو جلوس عزاء سے آگے چلنے والے کون لوگ تھے؟ یہ لوگ یقیناًحکومتی اور ریاستی اداروں کے پے رول پر چلنے والے وہی عناصر تھے جن کا مقصد جلوس عزاء میں گڑ بڑ کرنا تھی۔

اسد نقوی نے مزید کہا کہ ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ جب جلوس عزاء میں لوگ باقاعدہ جامہ تلاشی دے کر داخل ہوئے تو پھر ڈندا بردار عناصر بمع آتش گیر مادہ کہاں سے آئے؟ جیسا کہ تاجر برادری نے اپنے مختلف انٹر ویوز میں بتایا ہے کہ ایک سو یا ایک سو پچاس لوگ ایسے تھے جو ڈنڈے ہاتھوں میں لئے اور ان پر کپڑا لپیٹے مارکیٹ کو آگ لگا رہے تھے ، یہ در اصل وہی دہشت گرد تکفیری عناصر تھے جنہیں سوشل میڈیا پر پیغام بھیج کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس مقام پر بلایا گیا تھا، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ جلوس عزاء کے شرکاء نے مسجد پر حملہ کیا تو پھر راستے میں کئی مساجد اور بھی موجود تھیں ان پر حملے کیوں نہیں ہوئے؟اسی طرح مسجد کی چھت سے عین اس وقت پتھروں کی بارش ہونا جب عزاداران امام حسین (ع) نے لبیک یا حسین (ع)کے نعرے لگاتے ہوئے انتظامیہ سے لاؤڈ سپیکر کو بند کرنے کا مطالبہ کیا،انتہائی حیرت انگیز عوامل ہیں تاہم افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت سمیت میڈیا میں موجود چند کالی بھیڑوں اور زر خرید غلاموں نے فقط مسجد کو نذر آتش ہوتے ہوئے دکھا کر ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ کو پھیلانے کی گھناؤنی سازش کی جبکہ اس کے بر عکس شہر بھر میں چھ مساجد اور امام بارگاہوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا لیکن نہ تو کسی حکومتی عہدیدار کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ وہاں جا کر دیکھتا اور نہ ہی زر خرید اینکر شخصیات کو یہ توفیق حاصل ہوئی کہ وہ اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو بیان کریں جبکہ جے آئی ٹی کی جانب سے جاری ہونیو الی رپورٹ میں واضح طور پر بتایا جا چکا ہے کہ سانحہ راولپنڈی کی پوری ذمہ داری مسجد غلام اللہ کے خطیب پر عائد ہوتی ہے کہ جنہوں نے پہلے سے ہی اس سانحہ کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ ملک میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری ، خود کش دھماکے اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری تھا جس میں جی ایچ کیو پر حملے اور مہران بیس سمیت دیگر حساس مقامات اور پولیس کے جوانوں پر حملے ہو رہے تھے اور اس کے انسداد کیلئے حکومت نے وسیع تر مفاہمت کیلئے اے پی سی بلائی تھی تا کہ اتفاق رائے سے دہشت گردی کا مکمل انسداد ہو سکے اور مذاکرات اور مذاکرات کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیا جانا طے پا چکا تھا،مذاکرات کی ناکامی کے بعد آپریشن شروع ہونے جا رہا تھا اسے روکنے کیلئے اور حکومت کی توجہ ایکشن سے ہٹانے کیلئے ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کا منصوبہ بنایا گیا اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی راولپنڈی کا سانحہ ہے اگر چہ حکومت نے اس سلسلے میں ملک بھر میںیکم محرم سے خاطر خواہ اقدامات کئے جس کے نتیجے میں محرم میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن دہشت گردوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور کراچی میں پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد راولپنڈی میں جلوس عزاء کو نشانہ بنایا گیا۔اسی طرح دہشت گرد تکفیری گروہ جو شام میں شکست سے دو چار ہو رہے ہیں انہوں نے پاکستان اور عراق کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنانے کی گھناؤنی سازشیں شروع کر دی ہیں اور پاکستان میں بے گناہ انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب کے وزیر رانا ثنا ء اللہ انتہائی متعصب اور تکفیری دہشت گرد ٹولے کے سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں جو کہ قابل مذمت اور شرمناک فعل ہے، پاکستان کو بنانے کے لئے بانیان پاکستان کی اولادوں نے ماضی میں بھی قربانیاں دیں تھی اور آج تک مملکت پاکستان کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، گذشتہ روز بھی گجرات میں ایک پروفیسر جو کہ ایک تعلیمی ادارے میں ڈائرکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا لیکن پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگی لیکن دوسری جانب انہوں نے ایک تکفیری دہشت گرد ٹولے کی حمایت میں ایک ایسا کمیشن قائم کر نے میں ذرا برابر دیر نہیں لگائی کہ جس کا مفاد صرف اور صرف کالعدم دہشت گرد تکفیری ٹولے کو ملنا ہے، را نا ثناء اللہ ایک انتہائی درجے کے متعصب اور تکفیری دہشت گردوں کے قریبی ساتھی ہیں کہ جنہوں نے ماضی میں بھی تکفیری دہشت گردوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی اور آج تک اسی راستے پر عمل کر رہے ہیں، محر م الحرام سے قبل رانا ثناء اللہ نے علماء و ذاکرین سے مطالبہ کیا کہ ان سے لائسنس لے کر پنجاب میں مجالس عزاء سے خطاب کیا جائے تاہم ان کی بات رد ہونے کی صورت میں رانا ثناء اللہ نے اپنے تعصب کو دکھاتے ہوئے علماء و خطباء پر پنجا ب داخلے میں پابندی عائد کر دی جو کہ ان کی ہٹ دھرمی اور ملت جعفریہ سے تعصب کی واضح مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ JITکی رپورٹ کے پس منظر کے تحت ا س مسجد کو فی الفور سیل کیا جائے جہاں سے منافرت اور شرانگیزی پھیلانے کا واضح ثبوت مل چکا ہے جبکہ شہروں میں موجود مدارس کو شہروں سے باہر ایجوکیشن سٹی بنا کر دئیے جائیں اور جس صوبے کا طالب علم ہو اسے اسی صوبے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ہم شہباز شریف حکومت اور رانا ثناء اللہ کی جانب سے ایک تکفیری گروہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے بنائے جانیو الے تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اعلیٰ اور معتدل ججز کی نگرانی میں کمیشن قائم کیا جائے اور تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ملک کے دیگر علاقو ں میں بھی امام بارگاہو ں کو نذر آتش کئے جانے کے واقعات کا نوٹس لیا جائے اور تمام واقعات کی تحقیقات کی جائیں اور اعلیٰ سطحی کمیشن بغیر کسی تعصب کے تحقیقات کرے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سانحہ راولپنڈی در اصل نواز حکومت ،پنجاب حکومت اور طالبان دہشت گردوں سمیت کالعدم دہشت گرد تکفیری ٹولہ ملوث ہے جس کا مقصد غیر ملکی ایماء پر پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ کو پھیلانا اور دہشت گردوں کی حمایت کرنا ہے۔

اسدنقوی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور مولاناسمیع الحق کا کردار فرقہ وارانہ ہے،یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب کوئٹہ میں اسی اسی جنازے رکھے تھے۔ اس وقت یہ دونوں خاموش تھے مگراب دہشت گردوں کو بچانے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ شام اور دیگر ممالک میں قتل ہونیو الے قتل عام کی تصاویر کو سانحہ پنڈی کے ساتھ منسلک نہ کرے اور پاکستان کے غیور عوام کو بتائے کہ اگر سانحہ پنڈی میں بہت بڑا قتل عام ہوا ہے تو پھر وہ دہشت گردو ں کی لاشیں کہا ں چلی گئیں؟اور ان کا تعلق کن علاقوں سے تھا اور وہ اس روز وہاں پر کیوں آئے تھے؟ہم اعلان کرتے ہیں کہ جمعہ بائیس نومبر کو ملک بھر میں ’’یوم عظمت نواسہ رسول (ع)‘‘ منایا جائے گا ۔ ہر شہر میں احتجا جی مظاہرے کیے جائیں گے اور ملت جعفریہ کو شر پسندی کی آڑ میں دیوار سے لگانے کی سازش اور پنجاب اور وفاق کی متعصبانہ رویے کے خلاف جمعہ کے دن ہی کربلا گامے شاہ کے سامنے لوئر مال پر بھر پور احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 322954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش