0
Sunday 22 Dec 2013 00:10

صوبہ بلوچستان میں اغواء برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار

صوبہ بلوچستان میں اغواء برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار

رپورٹ: این حیدر

پاکستان میں اغوا برائے تاوان ایک منافع بخش دھندہ بن چکا ہے۔ کراچی میں تاجروں کے اغواء یا بھتہ کی وصولی کی بڑھتی ہوئی بھیانک صورتحال سے کراچی شہر کی تجارتی، صنعتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ پشاور سے لاہور تک اس سرگرمی نے منظم طریقہ واردات کی شکل اختیار کر رکھی ہے۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں بھی اس وبا کی صورتحال تشویشناک حد تک پھیل چکی ہے۔ جہاں سے ممتاز تاجر و مالی طور پر خوشحال کمیونٹی کے لاتعداد افراد اب تک تاوان ادا کرکے رہائی پا چکے ہیں۔ متعدد افراد جو تاوان ادا نہیں کر پاتے انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ وکلا، ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد میں اغوا کیے بیٹھے ہیں۔ اکتوبر میں صوبے کی ممتاز قبائلی شخصیت اور عالمی شہرت یافتہ ماہر معالج قلب عبدالمناف ترین کو ان کے کلینک کے باہر سے رات دس بجے اغواء کرلیا گیا تھا۔ ان کی بازیابی کے لیے صوبے کی انتظامیہ اور شعبہ طب سے متعلق افراد، اور صوبے کے تمام ڈاکٹروں نے بھرپور کوششیں کیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکیں۔ انتظامیہ کی بےبسی گو کہ روز اول سے ہی مسلمہ تھی، پھر بھی ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف نے بڑی جانفشانی اور عزم و استقلال کے ساتھ ڈاکٹر مناف ترین کی بازیابی کے لیے جدوجہد پر مبنی احتجاجی دباؤ برقرار رکھا۔ ڈاکٹروں نے سول ہسپتال میں احتجاجی کیمپ قائم کر لیا تھا جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی کا کام احتجاجاً بند ہو گیا تھا۔ دسمبر کی رات بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے شہر اوتھل میں اچانک منظر عام پر آ گئے۔ جہاں سے ضلعی انتظامیہ جو پہلے ہی سے چوکنی تھی ڈاکٹر مناف کو لے کر کراچی چلی گئی۔ انتظامیہ کی چوکسی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ جیسے انہیں پیشگی اطلاع تھی، کہ ڈاکٹر مناف اوتھل سے بازیاب ہونے والے ہیں۔

ڈاکٹر مناف کی بازیابی کے فوری بعد پی ایم اے کے رہنماء جناب ڈاکٹر سلطان ترین نے ذرائع ابلاغ کو مطلع کیا کہ ڈاکٹر مناف اغواءکاروں کو پانچ کروڑ روپے تاوان ادا کرکے رہا ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جناب ڈاکٹر مناف نے تاوان ادا کرنے کی تردید کر دی اور ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز بات بتائی، کہ اغواء کار انہیں کسی جگہ منتقل کر رہے تھے۔ اس دوران ملزموں کی گاڑی خراب ہو گئی اور ڈاکٹر مناف کے بقول وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑی سے نکل کر فرار ہو گئے۔ ملزموں کو ڈاکٹر مناف کے فرار کا اندازہ ہوا تو انہوں نے آس پاس کے پہاڑی ٹیلوں میں چھان پھٹک کی۔ اس دوران ڈاکٹر مناف کسی کھائی میں دبکے بیٹھے رہے اور جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ اغواء کار ناکام لوٹ گئے ہیں۔ وہ کھائی سے نکل کر پیدل چلتے ہوئے قریبی پٹرول پمپ پر پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے مقامی آبادی سے مدد چاہی تو مقامی انتظامیہ فوراً موقع پر پہنچ گئی۔ پولس و سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو اپنی تحویل میں لے کر کراچی منتقل کر دیا۔ اگلے روز ڈاکٹر مناف بذریعہ طیارہ کراچی سے کوئٹہ آ گئے۔ پی ایم اے کی جانب سے بھی ڈاکٹر مناف ترین کے بیان کی تردید کر دی گئی۔ ڈاکٹروں کے حلقے میں ہونے والی رازدارانہ گفتگو میں دلچسپ نکات بیان کیے جا رہے ہیں۔ پھر تاوان ادائیگی، بازیابی کے متعلق ان حلقوں میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ اس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اغواء کار کتنے منظم اور طاقتور ہیں، جنہوں نے ڈاکٹر مناف کو تاوان کی ادائیگی کے اقرار سے منع کر دیا ہے۔

ڈاکٹر عبدالمناف ملزموں کے چنگل سے فرار ہو کر گھر آئے ہیں یا تاوان کی ادائیگی کے بعد؟ اس سے قطع نظر خوش آئند بات یہ ہے کہ ماہر معالج قلب ڈاکٹر مناف زندہ سلامت اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ ان کی بازیابی پر ڈاکٹر برادری میں قدرے اطمینان کا عنصر نمایاں ہوا ہے۔ تاہم گہری تشویش اور خوف کی سرایت شدہ صورتحال میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جب سے بلوچستان میں بدامنی اور لاقانونیت کی صورتحال بدتر ہوئی ہے، مختلف سماجی طبقاتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد ہلاک و اغواء ہو چکے ہیں۔ شعبہ طب سے وابستہ افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اب تک 26 ڈاکٹر تاوان ادا کرکے اغواء کاروں کے چنگل سے رہائی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مختلف نوعیت کے ٹارگٹ کلنگ میں صوبے کے 18 ڈاکٹر شہید ہو چکے ہیں جبکہ حالات کے ہاتھوں تنگ آ کر 100 سے زائد ڈاکٹر صوبہ چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں یا بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں۔ صوبے میں ڈاکٹروں کے اغواء، ٹارگٹ کلنگ اور مہاجرت سے شعبہ طب میں خوفناک انحطاط در آیا ہے۔ بلوچستان میں عوام کو پہلے ہی طبی سہولتوں کے فقدان کا سامنا تھا۔ اعلٰی پائے کے ہسپتال اور علاج معالجہ کے ادارے موجود نہیں تھے۔ چنانچہ صوبے کے بیشتر افراد علاج معالجہ کی مناسب سہولت کے لیے کراچی، لاہور اور پنڈی سے رجوع کیا کرتے تھے۔ سہولیات کے فقدان کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ پورے صوبے میں انجیوگرافی کی سہولت موجود نہیں۔ کوئٹہ میں امراض قلب کے مریضوں کو بہتر علاج معالجہ میں کرنے کے لیے جدید آلات مہیا ہوئے تھے۔ انجیو گرافی جیسی اہم ضرورت پوری ہونے لگی تھی جبکہ سینئر اور ماہر معالجین کے قتل، اغواء اور مہاجرت نے بمشکل دستیاب طبی ضروریات کا سارا سانچہ ہی مسمار کر دیا ہے۔

خوف اور دہشت کی فضاء میں معالجین اپنے پیشہ کے ساتھ کس طرح انصاف کر سکتے ہیں؟ یہ سوال اس بھیانک صورتحال کو نمایاں کرتا ہے۔ جس کا مشاہدہ کوئٹہ، ژوب، لورالائی، چمن، پشین، قلات، خضدار اور مکران میں اس وقت حفاظت خوداختیاری کے لیے اپنائے گئے ڈاکٹروں کے اقدامات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کی اکثریت ہسپتال یا اپنے نجی کلینک آتے جاتے ہوئے اپنے ساتھ کلاشنکوف بردار مسلح محافظ رکھتے ہیں۔ یہ منظر اس ذہنی خوف و کوفت کو ظاہر کرتا ہے جس میں بلوچستان کے ڈاکٹر مبتلا ہیں۔ کیا اس طرح کے تنہا اور عدم تحفظ کے شدید احساس کے ساتھ ڈاکٹر یکسوئی کے ساتھ مریضوں کے علاج پر توجہ مرتکز کر پاتے ہونگے؟ المیہ یہ ہے کہ انتظامی و ریاستی سطح پر ایسے اقدامات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ جن سے صورتحال میں بہتر تبدیلی کی امید پیدا ہو۔ ماضی سے ورثے میں ملی ہوئی اس المناک صورتحال کا تسلسل گہری تشویش پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر ایک طرف صوبے کے ڈاکٹر شدید عدم تحفظ میں جکڑے ہوئے ہیں تو دوسری جانب صوبائی حکومت کی سربراہی بھی ایک ڈاکٹر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، صوبے کے چیف ایگزیکٹو بنے تو صوبے سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات و لسانی قوتیں گروہوں میں بجا طور پر امید پرستی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر ڈاکٹر مناف تاوان ادا کیے بغیر رہائی پانے میں کامیاب ہوئے ہیں، تو پھر پی ایم اے کے حلقوں میں گفتگو کے کیا معنی ہیں؟ بعض حلقے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ تاوان کے لیے ادا کی جانے والی رقم پانچ کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ کہ اغوا کاروں کے ساتھ معاملہ طے کرانے میں صوبے کی نمایاں شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

کیا اغواء برائے تاوان اور ادائیگی کے لیے حکومتی خزانے کے استعمال کے پیدا کردہ نتائج سے رہائی ملنے کا امکان موجود ہو یا یہ کہ مذکورہ صورتحال نے طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جس سے نجات کے لیے ریاستی معاملات و سانچے میں دوررس انقلابی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہو گی کیونکہ زمینی حقائق کے مشاہدے سے یہ بات عیاں ہے کہ موجودہ حالات اس غفلت لاپرواہی اور تعاون کا ناگزیر منطقی نتیجہ ہیں۔ جو 1980ء کے بعد پاکستان میں سرکاری سطح پر اپنائی گئی۔ چنانچہ بیرونی عناصر (مہاجرین) منشیات اور اسلحہ کے ساتھ پورے معاشرے میں پھیلتے گئے۔ اب حقیقت حال یہ ہے کہ مسلح جتھوں کے مقابل ریاستی مشینری بےبسی کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے۔ ریاست کے اندر کئی ریاستیں ابھر آئی ہیں، جن سے نبرد آزمائی مشکل بھی ہے اور پیچیدہ بھی، کیونکہ سماج کے اندر مذکورہ مسلح گروہوں کے متعلق مختلف سطحوں اور حوالوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے، جو ہمہ گیر موثر اور نتیجہ خیز مدافعتی اقدامات کی مزاحمت کر رہی ہے، گومگو اور مخمصے کی کیفیت یکسوئی کے ساتھ، اقدامات میں سدِراہ تھی جس کی ایک قابل توجہ مثال تحفظ پاکستان آرڈیننس کے مسودے پر پارلیمانی جماعتوں کے فکر و عمل میں موجود بعدالمشرقین و اختلاف رائے ہے۔ مذکورہ سیاسی جماعتیں تشدد، دہشت اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے حکومت پر دباؤ بھی ڈالتی ہیں، آئین و قانون کی بالادستی کے نعرے بھی بلند ہوتے ہیں، لیکن نظام عدل میں موجود خامیوں بالخصوص قانون شہادت میں جدت طرازی سے بھی انکار کرتی ہیں۔

خبر کا کوڈ : 332984
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش