0
Monday 13 Jan 2014 23:23

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، صوبائی اراکین وفاق پر برہم

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، صوبائی اراکین وفاق پر برہم

وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے شدید سردی میں گیس و بجلی کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ اس مسئلے پر بہت جلد قابو پالیا جائے گا اور شہریوں کو اس مشکل سے نجات دلا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت صوبے میں جب گیس کا حالیہ بحران آیا تو صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے فوری طور پر رابطہ کیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ وفاقی حکومت نے فوری طور پر اس کا رسپانس دیا اور وفاقی وزیر گیس و پیٹرولیم جام کمال خان پی پی ایل اور سوئی سدرن گیس کے اعلٰی حکام کے ہمراہ کوئٹہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں سردی کا تیس سالہ پرانا ریکارڈ ٹوٹا اور اس وقت ہماری گیس کی ضرورت 150 ایم ایم سی ایف ٹی سے بڑھ کر 180 ایم ایم سی ایف ٹی ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم گیس پائپ لائنوں کو ضرورت کے مطابق بنا کر گیس پریشر بڑھائیں اور اس کے ساتھ زرغون سے دریافت ہونے والی گیس کو بھی کوئٹہ تک لے کر آئیں۔ ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے ہمارے عوام کے مسائل حل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کا بھی بحران پیدا ہوا۔ ٹاور گرائے جانے کے باعث بجلی کی فراہمی میں کمی آ گئی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ خضدار، دادو اور لورالائی، ڈیرہ غازی خان ٹرانسمیشن لائنوں کا کام جلد مکمل ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گذشتہ روز ایم ڈی سوئی گیس سے بھی بات کی ہے کہ کوئٹہ میں واقع نجی کوسٹل پاور کو گیس فراہم کی جائے۔ تاکہ ضرورت کے مطابق بجلی مل سکے۔ ہم عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمام چیزوں کو ٹھیک کریں گے۔ صوبائی وزیر اطلاعات قانون و پارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے ارکان اسمبلی کی جانب سے پوائنٹ آف آرڈر پر گیس اور بجلی بحران سمیت دیگر اٹھائے جانے والے مسائل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 1954ء میں ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے گیس برآمد ہوئی اور پورے ملک کو فراہم کی گئی۔ مگر ہم 1980ء تک گیس کے نام سے بھی واقف نہ تھے۔

عبدالرحیم زیارتوال کا مزید کہنا تھا کہ 1980ء میں پہلی مرتبہ کوئٹہ کو گیس فراہم کی گئی۔ جس کے طویل عرصہ بعد پہلے سبی اور پھر قلات اور زیارت اور پشین کے کچھ علاقوں کو گیس فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ گیس بحران کے حوالے سے تحریک التواء موجود ہے اور میں نے قرارداد بھی جمع کرائی ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ وفاقی حکومت اور سوئی سدرن گیس کے حکام سے بھی بات کی کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ بات دراصل وژن کی ہے۔ سابق دور میں چیزوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ ہماری گیس کی ضرورت 150 ایم ایم سی ایف ٹی اور کھپت 180 ایم ایم سی ایف ٹی ہے۔ اسی طرح ہماری بجلی کی ضروریات 1600 میگاواٹ بجلی موجودہ ٹرانسمیشن لائنوں میں 600 میگاواٹ کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ خضدار، دادو اور لورالائی، ڈیرہ غازی خان ٹرانسمیشن لائنوں کا کام دسمبر میں مکمل ہو گا۔ جو اب اپریل میں مکمل ہوں گے۔ جس پر ہم نے متعلقہ حکام سے پوچھا کہ ٹرانسمیشن لائنیں مکمل ہونے کے بعد انفراسٹرکچر کا کیا ہوگا۔ جس پر ہمیں بتایا گیا کہ اس کیلئے 8 ارب روپے منظور کئے گئے ہیں۔ جس سے انفراسٹرکچر بنایا جائے گا مگر ایک مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد سے بروقت پیسے جاری نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ٹرانسمیشن لائنوں کا کام مکمل نہیں ہو گا۔ تب تک حالات نہیں بدلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اسپیکر کی قیادت میں کیسکو اور گیس حکام کو یہاں بلائے۔ ان سے بات کی جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ گیس اور بجلی کی فراہمی کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیشگوئی ہے کہ سردی کی لہر جنوری کے اختتام تک جاری رہے گی اور اگر اس دوران گیس اور بجلی بحال نہ ہوئی تو عوام کی چیخیں نکل جائیں گی۔ اب بھی ہر سڑک پر عوام کی جانب سے احتجاج ہو رہا ہے۔

اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاسپورٹ آفس میں عوام کو ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے۔ روزانہ نئی شقیں ڈالی جاتی ہیں اور کبھی کہیں تو کبھی کہیں بھیجا جاتا ہے۔ لوگ صبح سے شام تک لائنوں میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ شناختی کارڈ میں غلطی اہلکاروں کی ہوتی ہے اور سزاء لوگوں کو دی جاتی ہے۔ حقیقی لوگوں کو چکر لگانے پڑتے ہیں اور ایک لاکھ بیس ہزار روپے دینے پر تمام دستاویزات گھر پہنچ جاتی ہیں۔ ان کی جانب سے پاسپورٹ اور نادرا کے حوالے سے اٹھائے جانے والے نقطے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دونوں ادارے وفاق کے زیراہتمام ہیں۔ دونوں سے عوام کو شکایات ہیں۔ شناختی کارڈ میں کسی شخص کا نام کسی خاندان میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہ شخص شدید مشکلات کا شکار ہوتا ہے۔ نام درست کرنے کیلئے اسے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ مگر جو اہلکار نام شامل کرتے ہیں، انہیں کوئی سزا نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ رکن اسمبلی نے واضح طور پر یہاں پر کہا کہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے دینے پر شناختی کارڈ، لوکل سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے گیس بحران کا فوری طور پر نوٹس لیا۔ ہم نے شہر میں موجود بیس سے زائد اسٹیل ملوں کی گیس بند کردی جبکہ کوسٹل پاور کو بھی ہم نے گیس کی فراہمی روک دی۔ تاکہ یہ گیس ہمارے لوگوں کو مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ دنوں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بھی اڑائی گئی ہیں۔ ماضی میں جب ایسا ہوتا تھا تو وہاں کے ڈپٹی کمشنر مقامی قبائلی رہنماؤں کو بلاکر ان سے بازپرس اور مجرموں کے بارے میں معلومات کی جاتی تھیں۔ ہم بھی ڈپٹی کمشنروں کو یہ ذمہ داری دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف گیس اور بجلی کی قلت ہے اور دوسری طرف گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات ہیں۔

صوبائی وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی نے انجینئر زمرک خان اچکزئی کے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں کہا کہ اس حوالے سے زمرک خان نے وزیراعلٰی کو درخواست دی ہے۔ ہم اس کی تحقیقات کررہے ہیں اور جو بھی ذمہ دار نکلا اس کو سزا دی جائے گی۔ محترمہ حسن بانو کے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غزالہ گولہ اس اسمبلی کی سابق رکن ہیں ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مجھے علم نہیں تھا۔ اس کی تحقیقات کرائیں گے۔ قبل ازیں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ زیرے نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ کوئٹہ میں گیس اور بجلی کے بحران کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ شدید سرد موسم میں گیس اور بجلی کے بحران نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے کوئٹہ میں درجہ حرارت منفی دس ڈگری سے نیچے ہے اور ایسے میں کوئٹہ کے عوام گیس اور بجلی سے محروم ہیں۔ بجلی کی بیس بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کے باعث شہر میں پانی کا بحران سنگین ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں قلات اور پشین کی بات نہیں کرتا بلکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوئی سدرن گیس حکام کی نااہلی کے باعث صرف ایک ماہ کے دوران ایک درجن سے زیادہ لوگوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ پشتون آباد میں گیس دھماکے سے پورا گھر تباہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اوگرا اور سوئی سدرن گیس سے پوچھا جائے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1954ء سے یہ صوبہ پورے ملک کو گیس فراہم کررہا ہے۔ مگر آج ہم خود اپنے گیس سے محروم ہیں۔ ہم نے موسم گرما میں ہی سوئی سدرن گیس حکام سے ملاقاتیں کرکے ان سے کہا تھا کہ اس مسئلے کوحل کیا جائے۔ مگر انہوں نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔

اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ پہلے ہمارے لوگ چوبیس گھنٹے پھر بیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے تھے۔ مگر اب تو انہیں دو گھنٹے بھی بجلی فراہم نہیں کی جاتی۔ جس کے باعث اربوں روپے کے باغات ختم ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف گیس کی فراہمی کی بھی صورتحال خراب ہے۔ جب ہم شکایت کرتے ہیں تو وفاق کہتا ہے کہ بلوچستان کے لوگ غیر آئینی باتیں کرتے ہیں جبکہ آئین یہ کہتا ہے کہ جس صوبے سے گیس نکلے اور بجلی بنے پہلے اس صوبے کا اس پر حق ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آئین کے تحت اقدامات کئے جائیں۔ اب گڈانی میں پاور پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔ جس کی بجلی ہمیں نہیں پھر پنجاب کو ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان میں بننے والی بجلی اور یہاں سے نکلنے والی گیس بلوچستان کو نہ ملی تو ہم دوسروں کو بھی نہیں دیں گے۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ آج آپ کی تقریر میں قوم پرستی کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا نے کہا کہ اندرون صوبہ بمشکل آدھا گھنٹہ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ جس سے پانی کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ٹاور اڑائے جانے سے قبل پانچ سو میگاواٹ بجلی ملتی تھی۔ مگر اب دو سو میگاواٹ بجلی مل رہی ہے۔ گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑائی جاتی ہیں۔ سکیورٹی کی مد میں لاکھوں روپے ادا کرنے کے باوجود یہ کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ میری اطلاعات کے مطابق اب تک گیس پائپ لائن کی مرمت کیلئے کلیئرنس نہیں دی گئی ہے۔ یہ محکمہ داخلہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جلد کلیئرنس دے۔ جمعیت علماء اسلام کی حسن بانو نے کہا کہ ایک جانب گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے اور دوسری جانب جن گھروں میں ایک ایک چولہا جلتا ہے۔ وہاں سات سات ہزار روپے بل آرہے ہیں۔ دن میں دس دس گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ انہوں نے وزیراعلٰی کی توجہ اس جانب دلائی کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کیلئے جی آر ای ٹیسٹ ختم کیا جائے اور اگر ضروری ہو تو جی آر ای ٹیسٹ میں صرف متعلقہ مضامین کا ٹیسٹ لیا جائے۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس 15 جنوری صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا۔

خبر کا کوڈ : 340774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش