1
0
Friday 31 Jan 2014 20:25
ملک میں آئین کی عملاً بحالی تک حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا

عوام کو ہر روز کے مصائب سے نجات دلانے کیلئے مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں، علامہ ساجد نقوی

واضح کیا جائے کہ مذاکرات آئین کیمطابق ہونگے یا آئین سے ماوراء
عوام کو ہر روز کے مصائب سے نجات دلانے کیلئے مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں، علامہ ساجد نقوی
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ 68 دہشتگردوں کی لسٹ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی میز پر پڑی ہے لیکن اُن کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔ اُن کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ سابقہ حکومت نے موت کی سزا کو معطل کیا اور اس حکومت نے دو چار دن سزا کی بات کرکے پھر وہی رویہ اختیار کر لیا ہے۔ جب تک اس ملک میں آئین عملاً بحال نہیں ہوتا، حقیقی امن قائم نہی ہوسکتا۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ملتان میں علامہ ناصر عباس کے بھائی سے اُن کی تعزیت کرتے ہوئے کیا۔ علامہ ساجد علی نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پچھلی حکومت نے پچھلے سال کوئٹہ کے واقعے میں دو اداروں کو سپیشل ٹاسک دیا تھا، جس کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ اس بار بھی سانحہ مستونگ کے بعد حکومت کی جانب سے بلند و بانگ دعوے کیے گئے لیکن عملاً اس پر کیا کام ہوا، ہمارے علم میں نہیں ہے کہ اس پر کوئی اقدامات بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔ جب تک ملک میں قانون اور آئین مکمل طور پر بحال نہیں ہوگا، اُس وقت تک ملک کی صورتحال سنبھالی نہیں جاسکتی۔

علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا  کہ وزیراعظم نے کل اپنے خطاب میں خود تسلیم کیا کہ اس ملک کے اندر قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور سات مہینوں سے لاشیں گر رہی ہیں اور عوام کا قتل عام ہو رہا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاسکے کہ اس پر کیا اقدامات ہوئے؟ آئین عملاً کیوں معطل رہا؟ اس حکومت کی حکمرانی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاست نے ابھی تک حکومتوں کو پاور منتقل نہیں کی ہے، میں مطالبہ کرتا ہوں ریاست سے کہ وہ حکومتوں کو پاور منتقل کرے۔ تاکہ وہ آئین کی طاقت اور قوت سے مسائل کو روکیں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے طالبان سے مذاکرات کرنے کا نہیں کہا بلکہ اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جو سات ماہ سے ملک میں لاشیں گرا رہے ہیں، جو شدت پسند ہیں اور جو عوام کا قتل عام کر رہے ہیں، جو فوج کو مار رہے ہیں، جو پولیو مہم کے لوگوں کو مار رہے ہیں، اُن لوگوں سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کا حل مذاکرات ہیں تو اس کا دائرہ کار بھی بتایا جائے کہ یہ مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کریں گے یا ماورائے آئین؟ جن لوگوں سے وزیراعظم نے مذاکرات کی بات کی ہے، میں اُن لوگوں سے ہونے والے مذاکرات کو مسترد نہیں کرتا، لیکن ان مذاکرات کے دائرہ کار کو بھی واضح کیا جائے کہ وہ آئین کے مطابق ہوں گے یا آئین سے باہر؟ مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا بھی کوئی دائرہ کار واضح نہیں ہے کہ وہ کتنی موثر ہے؟ اور پھر کیا گارنٹی ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ کون ضمانت دے گا کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں اور پاکستان کی عوام پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں وہ رُکیں، حکومت بے بسی کی صورت میں مذاکرات کر رہی ہے۔ کراچی میں سی آئی ڈی انچارج کی جانب سے ہمسایہ ملک کے خلاف کی جانے والی پریس کانفرنس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایک رینکر پولیس والے کو اس طرح آگے نہیں کرنا چاہیے تھا، یہاں پر وزیر خارجہ کو آکر کہنا چاہیے تھا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ تعلقات خراب کر رہے ہیں، اس موقع پر وزیر خارجہ کو سامنے آنا چاہیے تھا نہ کہ ایک تھرڈ کلاس آفیسر کو۔
خبر کا کوڈ : 347100
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

آغا صاحب کی ملتان کے علاوہ پریس کانفرنسیں ہوتی نہیں یا آپ لوگ شائع نہیں کرتے۔ جواد نقوی صاحب کئی ماہ بعد ایک پروگرام کرتے ہیں اور انکی تصویر کئی دنوں تک فرنٹ پر رہتی ہے، کیا یہ پارٹی بازی تو نہیں۔؟
ہماری پیشکش