0
Saturday 11 Sep 2010 13:19

گورنر پنجاب کو کالا باغ ڈیم اور وزیر داخلہ کو بلوچستان پر بیانات دینے کی ضرورت نہیں تھی،وزیراعظم

گورنر پنجاب کو کالا باغ ڈیم اور وزیر داخلہ کو بلوچستان پر بیانات دینے کی ضرورت نہیں تھی،وزیراعظم
اسلام آباد:اسلام ٹائمز-وقت نیوز کے مطابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بلوچستان میں سوات اور مالاکنڈ کی طرز پر فوجی آپریشن کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت حقوق بلوچستان پیکج پر سنجیدگی سے عمل درآمد کر رہی ہے،18 ویں ترمیم کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی کابینہ آئندہ دسمبر تک مختصر کر دی جائے گی، سیاست میں دروازے کبھی بند نہیں کئے جاتے،حکومت تمام اہم امور پر تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔
یہ بات انہوں نے گذشتہ روز قومی اخبارات کے ایڈیٹروں کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے موقع پر کہی۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کی تمام تر توجہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو پر مرکوز ہے،اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں فنڈز اکٹھے ہو رہے ہیں،عالمی برادری کی جانب سے سیلاب متاثرین کیلئے ایک ارب ڈالر امداد دینے کے وعدے کئے گئے ہیں،جس میں سے تیس کروڑ ڈالر حکومت پاکستان کو موصول ہو چکے ہیں،انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کیلئے ملنے والی امداد کا ایک ایک پیسہ شفاف طریقے سے متاثرین پر ہی خرچ کیا جائے گا،اس تمام عمل کی نگرانی کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر اوور سائٹ منیجمنٹ کونسل کے قیام کا متفقہ طور پر فیصلہ کرلیا گیا ہے،جیسے ہی صوبوں سے اراکین کے نام موصول ہوں گے اس کی تشکیل کردی جائے گی۔
 انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان اختلافات کو ختم کرنے کیلئے پل بنائے جاتے ہیں۔ سیاست میں کبھی بھی دروازے بند نہیں کئے جاتے،حکومت نے مفاہمتی پالیسی اپنا کر تمام سیاسی قوتوں کو تمام اہم معاملوں پر ساتھ لے کر چلنے کا عزم کر رکھا ہے اور جب بھی کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے،سیلاب متاثرین کیلئے تمام سیاسی جماعتیں میڈیا،فلاحی و قومی ادارے مل کر مدد کریں۔
این این آئی کے مطابق یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ گورنر پنجاب کا کالا باغ ڈیم کے بارے میں بیان غیر ضروری ہے۔وزیر داخلہ رحمن ملک کو بلوچستان پر بیانات دینے کی ضرورت نہیں تھی۔وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا فیصلہ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کریگی۔سپریم کورٹ کے تحفظات جوڈیشل کمیشن پر نہیں،پارلیمانی کمیٹی پر ہیں، غیر ملکی قرضے معاف کرانے کیلئے حکمت عملی طے کی جا رہی ہے،ایک مرتبہ فلڈ ٹیکس کی تجویز کا وزارت خزانہ جائزہ لے گی۔عید کے بعد انتہائی تیزی سے متاثرین میں امدادی رقوم کی تقسیم شروع ہو جائیگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو ہم نے واضح طور پر کہا کہ تھا کہ ہم اس غیر آئینی اقدام کو نہیں مانتے۔پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ ن سے بہت زیادہ جمہوریت کیلئے قربانیاں دی ہیں۔وزیراعظم نے ملک میں دو عیدوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو ہی حتمی فیصلہ مانا جانا چاہئے۔پنجاب اور سندھ میں بند توڑے جانے کے الزامات کی وزرائے اعلیٰ کو عدالتی تحقیقات کرانے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے حکومت پر عالمی اداروں کے عدم اعتماد کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر کام شفاف طریقے سے کر رہے ہیں،دنیا کو ہمارے سسٹم پر مکمل اعتماد ہے۔ 
انہوں نے گورنر پنجاب کی طرف سے کالا باغ ڈیم بنائے جانے کے بارے میں دیئے گئے بیان کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبے زیادہ بااختیار ہیں،کالاباغ ڈیم کے خلاف دو تین صوبوں نے قراردادیں بھی منظور کی ہوئی ہیں۔ہم صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور ایسے حالات میں اس طرح کی باتیں یکجہتی میں دراڑیں ڈالنے کے مترادف ہو گا۔دیامیر بھاشا ڈیم پر ہم نے اتفاق رائے حاصل کر لیا ہے اور میں سمجھتا ہوں جن معاملات پر اتفاق رائے ہو جائے،وہ پہلے شروع ہونے چاہئیں۔بلوچستان میں صرف مسلح تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے اور وہاں جو بھی کارروائی ہو گی،وہ بلوچستان کی حکومت اور وزیراعلی کو اعتماد میں لے کر ہی کی جائیگی۔انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے رحمن ملک کے بارے میں دیئے گئے بیان کے بارے میں کہا کہ چونکہ سمارٹ کارڈ نادرا نے تیار کئے ہیں،اس لئے سب سے پہلے رحمن ملک یہ کارڈ تقسیم کرنا چاہتے تھے،لیکن نواز شریف اور وزیراعلی پنجاب نے کہا کہ وہ خود یہ کارڈ تقسیم کرینگے،جس پر میں نے رحمن ملک کو اس سے روک دیا۔ اس میں ان کی کوئی بدنیتی نہیں تھی۔رحمن ملک کے بلوچستان کے بارے میں بیانات پر ان کے خلاف کارروائی کے حوالے سے سوالات پر وزیراعظم نے کوئی جواب دینے سے احتراز کیا۔انہوں نے کہا کہ اب کسی کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ملے گی،آئندہ آنے والی پارلیمنٹ مخلوط ہو گی،جس میں ہر کسی کو اپنا اپنا حصہ ملے گا، جب مستقبل میں بھی مخلوط حکومت ہی بننی ہے،تو کیوں نہ ابھی سے مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 36819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش