0
Saturday 14 Jun 2014 22:46
فرقہ واریت کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے

جبتک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہیں ہو گا مذاکرات کی کامیابی امکان کم نظر آتا ہے، مولانا فضل الرحمان

جبتک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہیں ہو گا مذاکرات کی کامیابی امکان کم نظر آتا ہے، مولانا فضل الرحمان

اسلام ٹائمز۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے جمعیت علماء اسلام مقاصد پاکستان کے حصول کے ذریعہ پوری قوم کی نمائندگی کررہی ہے جبکہ حکمران ان مقاصد سے مسلسل انحراف کر رہے ہیں۔ ملک کو بنے ہوئے 67 سال ہو گئے، اسلامی نظریاتی کونسل کے آئینی ادارے کو 40 سال گذر گئے ہیں لیکن پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام پارلیمانی طرزِ جدوجہد کے ذریعہ پوری قوم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ ہم نے اللہ کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ اس لئے کفر پوری دنیا میں مسلمانوں کے لاشوں پر سے گزر رہا ہے۔ اس کو خدا کے غضب سے تعبیر کیا جائے۔ بلوچستان کے مسئلہ کو قبائلی علاقوں کی طرح طاقت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اندھا دہند طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ خطرناک شکل اختیار کرتے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ بلوچستان کے مسئلہ کو حل کرسکے بلکہ صوبائی حکومت اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئے دن استعفٰی دھمکیوں سے کام لیا جاتا ہے۔ میڈیا کے کسی گروپ کے خلاف کاروائی سے دنیا کو اچھا پیغام نہیں جائیگا۔ تاہم میڈیا کے لئے ایک ضابطہ اخلاق کا ہونا ضروری ہے، کسی عزت نفس کو اچھالنا میڈیا کی آزادی نہیں۔

اس موقع پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے امیر مولانا محمد خان شیرانی، بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع، جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خالد محمود سومرو سمیت دیگر موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ قیام امن کے لئے سیاسی جماعتوں و پارلیمنٹ کی سطح پر چھ سالوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی نمائندہ قوت جماعتیں اس بات متفق رہی ہیں کہ طاقت کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے مگر اس حوالے سے سنجیدہ کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔ قیام امن کے لئے کوئی بھی کوشش فی الحال بارآور نظر نہیں آتی۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کا موڈ نہیں ہو گا مذاکرات کی کامیابی امکان کم نظر آتا ہے۔ مذاکرات ہوئے نہیں، اگر ہوئے بھی تو سنجیدہ نہیں ہوئے۔ عمران خان کے ہم نواؤں کی جانب سے جمہوریت و حکومت کو نقصان پہنچانے بارے میں حکومت سے سوال کیا جانا چاہیئے ہم تو حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو انتخابات میں دھاندلی ایک سال گذرنے کے بعد نظر آئی، عزائم کچھ ہیں اور کہا کچھ اور جا رہا ہے۔ اچھے نعروں کے ساتھ نظام کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کراچی ائیرپورٹ حملہ کس نے کیا، کس طرح کیا، یہ ہم سب کا سوال ہے۔ مہران ائیر بیس، پشاور ائیر بیس کراچی کے بین الاقومی ہوائی اڈہ پر تحفظ و انتظامات کا بھانڈ ا پھوڑ دیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔ معلوم نہیں جلے ہوئے جہازوں کی تعداد کتنی ہے۔ ملازمین چیختے رہے کسی نے داد رسی نہیں کی۔ قومی اثاثے تباہ ہوئے لیکن حکومت دعوی کرتی ہے کہ حملہ کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کے متفقہ آئین کو نقصان پہنچا تو قوم کو متحد رکھنا مشکل ہوگا کیونکہ آئیں پاکستان مختلف اقوام کے درمیان ایک معاہدہ و میثاق ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فرقہ واریت کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔ ملک گروہوں و قومیتوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ اگر ہم مقاصد پاکستان کی تکمیل کرتے ملک کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بناتے تو آج ملک ایک خطرناک موڑ پر نہیں پہنچتا۔ جمعیت علماء اسلام اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پارلیمنٹ کے اندر و باہر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔

خبر کا کوڈ : 392033
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش