0
Saturday 9 Aug 2014 12:06
پاکستان کو اسوقت امن کی اشد ضرورت ہے

لانگ مارچ اور آزادی مارچ کی باتیں کرنیوالے آئیں اور پاکستان کو مضبوط کریں، نواز شریف

پی ٹی آئی کے مطالبات پر بغیر ہچکچاہٹ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، کسی کی بھی جائز شکایت سننے کو تیار ہیں
لانگ مارچ اور آزادی مارچ کی باتیں کرنیوالے آئیں اور پاکستان کو مضبوط کریں، نواز شریف

اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں لیکن انقلاب کے نام پر کسی کو ملک میں رخنہ ڈالنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔ اسلام آباد میں قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ گذشتہ برس ہونے والے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو فراخ دلی سے تسلیم کیا اور انھیں صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا، وہ حکومتیں آج بھی قائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو ملک میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے، دوسری جانب ملک کو توانائی بحران کا سامنا ہے اور تیسری جانب پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے کوئی جائر مطالبات ہیں اور وہ حکومت اور آئین کے زمرے میں آتے ہیں تو ان سے بات ہوسکتی ہے، لیکن ان حالات میں طاہر القادری کا انقلاب اور احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے، کسی کو بھی انقلاب کے نام پر ملکی ترقی کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ نواز شریف نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور لیاقت بلوچ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد ہمیں بتایا کہ خان صاحب کا مطالبہ ہے کہ اگر حکومت 10 حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرا لے تو لانگ مارچ ختم کیا جاسکتا ہے، عمران خان کے مطالبے کے حل کے لئے ان کے پاس جانے کو بھی تیار ہوں، لیکن اس وقت ملک کسی بھی لانگ مارچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
 
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پچھلی اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جائیں، کچھ لوگوں نے مذاکرات کی مخالفت بھی کی، لیکن اس کے باوجود حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ مذاکرات کامیاب ہوں، جو زیادہ سودمند ثابت نہ ہوئے۔ دہشت گردوں کی جانب سے کارروائیاں جاری رہیں، جس کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی کو شدید نقصان پہنچا، آئے دن ہمارے جوانوں، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد صورت حال ناگزیر ہوگئی تھی کہ ان کے خلاف آپریشن کیا جائے، آپریشن بھی قومی اتفاق رائے کے ذریعے سے شروع کیا گیا، اگر اس آپریشن کے حوالے سے کسی کو تحفظات ہیں تو آج کی کانفرنس میں انھیں سنا جائے گا۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت امن کی اشد ضرورت ہے، اللہ تعالٰی کا شکر ہے آپریشن ضرب عضب کے بعد حالات کنٹرول میں آ رہے ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل بھی کہہ چکے ہیں کہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے، اگر خدانخواستہ دہشت گرد واپس بھی آتے ہیں تو اس کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن میں شہید ہونے والے جوانوں اور افسران کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہمیں اپنے جوانوں کی قربانیوں پر فخر ہے اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

دیگر ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے بھی آپریشن کے خلاف کوئی بات نہیں سنی گئی، اگر کسی کو آپریشن پر تحفظات ہیں تو سننے کیلیے تیار ہیں، آج کھل کر بات ہوگی۔ عمران خان آئیں اور آکر بیٹھیں۔ سراج الحق خود عمران خان کے پاس گئے اور پھر میرے پاس آئے۔ سراج الحق نے عمران خان کی بات سنی۔ عمران خان نے کہا کہ 10 سیٹوں پر دوبارہ گنتی ہوجائے تو لانگ مارچ ختم کرسکتے ہیں۔ ہم عمران خان سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔ عمران خان ہمارے ساتھ بیٹھیں، کسی بھی ہچکچاہٹ کے بغیر ان کی بات سنیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں جوانوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہوئے۔ گذشتہ جماعتی کانفرنس کے مقاصد بھی یہی تھے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھے، مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہر مکتبہ فکر بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے پریشان تھا۔ دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ دہشت گردوں نے میجر جنرل سمیت دیگر افسران اور جوانوں کو شہید کیا۔ ہمیں ان تمام شہادتوں کی دل سے قدر ہے۔ گذشتہ کانفرنس میں تمام جماعتوں نے مخلص رائے دی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کارروائی کا فیصلہ بھی اتفاق رائے سے کیا۔ آج تمام معاملات پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ناگزیر ہوگیا تھا۔ پاکستان کو اس وقت امن کی ضرورت ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ آرمی چیف نے بتایا کہ اگر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو اس کی شدت کم ہوگی۔ جن کے پیارے دہشت گردی میں شہید ہوئے اس پر ہمیں دکھ ہے۔ ملک کو بے تہاشا مسائل کا سامنا ہے۔ فراخدالی سے ہم نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ وفاقی حکومت نے دیگر جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا۔ ہمیں شہادتوں کا بہت زیادہ احساس ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ شہادت پانے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے اور امن سے ہی ترقی کرسکتے ہیں۔ سال 2013ء کے الیکشن کے بعد نئی شروعات ہوئی ہیں۔ ہم نے کہا جس کا جہاں مینڈیٹ ہے وہ وہاں حکومت بنائے۔ وفاقی حکومت نہ صرف ان کا مینڈیٹ تسلیم کرتی ہے بلکہ صوبائی حکومتوں سے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ تمام حکومت خدمت کریں تو پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آپریشن ضرب عضب اتفاق رائے سے شروع کیا گیا۔ آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوسکتی تھی، ہم نے روک دی۔ وفاقی حکومت نے ہر صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں کوئی عیش و عشرت کے لیے وزیراعظم بننے کے لیے نہیں آتا۔ کسی کی بھی جائز شکایت ہے تو سننے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں سمجھائیں کہ کون سا اور کس طرح سے انقلاب لائیں گے۔؟ اگر صرف فساد کے لیے انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ایسا انقلاب قبول نہیں۔ عمران صاحب آئیں، اپنے مطالبات لے کر بات کریں۔ ہم دوبارہ گنتی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر بات کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے حکومت آگے بڑھے۔ اپوزیشن کو محاذ آرائی کی شکل اختیار نہیں کرنی چاہیے، پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ہم سیاست کرنے نہیں، پاکستان کو مسائل سے باہر نکالنے آئے ہیں۔ حکومت ہر کسی کے مسائل سننے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان میں کون سا انقلاب اور کیسا انقلاب۔؟ پاکستان میں کوئی انقلاب کی بات کرتا ہے تو وہ کسی قیمت پر قابل قبول نہیں۔ آج کوئی ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لانگ مارچ کرنے والوں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں، نئی افغان حکومت کے ساتھ بہترتعلقات چاہتے ہیں۔ چین کے علاوہ ایسا کوئی ہمسایہ نہیں جس کے ساتھ تعلقات قابل فخر ہو۔ میری خواہش ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو مضبوط کریں۔ ایک پارٹی نے ہمیشہ حکومت میں نہیں بیٹھے رہنا۔ ہماری سلامتی کا دارومدار ہے کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کو مضبوط کریں۔ لانگ مارچ اور آزادی مارچ کی باتیں کرنے والے آئیں اور پاکستان کو مضبوط کریں۔ پاکستان مضبوط ہو جائے تو لانگ مارچ بھی کر لیں۔ ایک سال بعد ایسی باتیں کرنے کا وقت نہیں۔ ایک سال بعد آپ کن باتوں پر آگئے ہیں۔ کانفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، غلام احمد بلور، وزیراعلٰی بلوچستان عبدالمالک بلوچ، حاصل بزنجو، وزیر دفاع خواجہ آصف، بی این پی (عوامی) کی سینیٹر کلثوم پروین جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام شریک ہیں۔ اس کے علاوہ خورشید شاہ، رضا ربانی، وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ، افراسیاب خٹک، محمود خان اچکزئی بھی موجود ہیں۔

خبر کا کوڈ : 403831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش