0
Saturday 11 Oct 2014 23:42

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف صوبائی سطح پر کمیشن بنایا جائے، انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا مطالبہ

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف صوبائی سطح پر کمیشن بنایا جائے، انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا مطالبہ
اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے صوبائی سطح پر کمیشن بنایا جائے اور صحافیوں کے قتل سے متعلق قائم کئے جانے والے عدالتی کمیشن کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھایا جائے۔ بلوچستان میں پرتشدد کارروائیاں رکی نہیں، بلکہ حالات پہلے جیسے ہیں۔ بلوچستان سے متعلق وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنے رویئے میں تبدیلی لائے۔ کوئٹہ کے صحافیوں کیخلاف قائم کئے جانے والے انسداد دہشتگردی کے مقدمات کی پیروی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کمیشن رضا کارانہ طور پر کریگا۔ اس موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن اور دیگر نے انسانی حقوق کمیشن کے وفد کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ خدمات کی ادائیگی کے حوالے سے مشکلات سے آگاہ کیا کہ کوئٹہ میں قتل ہونے والے تین صحافیوں "آن لائن" نیوز نیٹ ورک اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری ارشاد احمد مستوئی، رپورٹر عبدالرسول اور اکاؤنٹنٹ محمد یونس سے متعلق اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

صوبے میں قتل ہونیوالے 40 صحافیوں میں سے صرف 11 صحافیوں کے ورثاء کو معاوضہ دیا گیا ہے۔ صحافی مشکل حالات میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں گروہ اور دیگر ادارے اپنے مرضی کی خبروں کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں حتیٰ کہ عدالت کی طرف سے بھی انسداد دہشتگردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ کوئٹہ سے چھپنے والے اخبارات اور میڈیا کے کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی طرح خضدار پریس کلب بھی ڈھائی ماہ سے بند ہے۔ بلوچستان کے تہذیبی ارتقاء کو جبراً روک دیا گیا ہے۔ بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ سمجھ کر لوگوں کیساتھ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اب تو بلوچستان میں داعش کو بھی لایا گیا ہے۔ کوئٹہ سے گوادر کے درمیان انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔ ٹیچر، ڈاکٹر، وکلاء قتل ہو چکے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ کرے۔ بلوچستان میں بڑی طاقتیں ملوث ہیں۔ نیٹو کی گذرگاہ ہے، اس لئے حالات زیادہ خراب ہیں۔ اس موقع پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کا نمائندہ ہر ضلع میں موجود ہونا چاہیئے۔ جو حکومت کو حقائق سے متعلق آگاہی بھی دے۔ یہاں پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔ البتہ بلوچ انتہا پسندی میں کچھ کمی آئی ہے۔ شاید اس کی وجہ اٹھارویں ترمیم کے تحت محدود خودمختاری ہے۔

متاثرہ فضاء میں افغان طاقتیں سکیورٹی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب بیرونی طاقتیں بلوچستان آرہی تھیں تو سکیورٹی ادارے کیا کررہے تھے۔ پنجگور اور دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے سکول بند ہو چکے ہیں۔ دس سال پہلے والا بلوچستان نہیں رہا۔ اقلیتیں محفوظ نہیں اور ذکری فرقہ ٹارگٹ پر ہے۔ کوئٹہ اور سبی میں لڑکیوں نے خوف کو رد کرتے ہوئے تعلیم کو پورا کرنے کا عزم کررکھا ہے۔ جو خوش آئندہ بات ہے۔ ملالہ کا ایوارڈ پورے پاکستان کی بچیوں کیلئے ہے۔ اس موقع پر آئی اے رحمن نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انسانی حقوق کمیشن کے پاس کوئی بندوق یا اختیار نہیں۔ بلوچستان کو دو نمبر صوبہ مانا گیا۔ اس لئے حکومتیں بھی دو نمبر ہیں۔ اخبار نویس دو طاقتوں کے درمیان پسے ہوئے ہیں۔ اب تک بلوچستان کا کیس صحیح معنوں میں دنیا کے سامنے نہیں لایا گیا۔ باتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اصل مقصد گم ہو جاتا ہے۔ بلوچستان میں ریاست اپنا ہی گوشت کھا رہی ہے۔ اس لئے اسے کوئی اپنا نظر نہیں آتا۔ بلوچستان کے صحافیوں کے تحفظات کو من و عن اسلام آباد میں پیش کرینگے۔ تاکہ مسائل کے حل کیلئے کوئی راہ نکل سکے اورصحافیوں کو تحفظ مل سکے۔
خبر کا کوڈ : 414214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش