0
Friday 26 Dec 2014 11:17
سعودی عرب اوپیک کو شام جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے، سیاسی ماہرین

خام تیل کی قیمتوں میں کمی ایران اور روس کیخلاف سعودی عرب کی کھلی جنگ ہے، فارن پالیسی

خام تیل کی قیمتوں میں کمی ایران اور روس کیخلاف سعودی عرب کی کھلی جنگ ہے، فارن پالیسی
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی میگزین فارن پالیسی نے سعودی عرب کی جانب سے خام تیل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے بارے میں ایک کالم شائع کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے یہ اقدام امریکی کمپنی "شیل" کو نقصان پہنچانے کیلئے انجام دیا ہے لیکن یہ تاثر درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے اس اقدام کا مقصد ایران اور روس کو اقتصادی دھچکہ پہنچانا ہے۔ معروف کالم نگار مائیکل مورین اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ سعودی عرب کی سربراہی میں اوپیک تنظیم کی جانب سے خام تیل کی پیداوار کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ درحقیقت سعودی عرب کی جانب سے اپنے دو علاقائی رقیبوں یعنی روس اور ایران پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اس کی بنیادی وجہ ایران اور روس کی جانب سے شام حکومت کی حمایت ہے، کیونکہ یہ حمایت امریکہ کی جانب سے خام تیل کی منڈی میں رقابت سے کہیں زیادہ سعودی عرب کیلئے پریشان کن ہے۔ 
 
مائیکل مورین نے لکھا کہ امریکی کمپنی شیل خام تیل کی گری ہوئی قیمت کے باوجود اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ لمبے عرصے تک تیل کی قیمت کو کم سطح پر برقرار نہیں رکھا جاسکتا اور آخرکار اوپیک تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ کالم نگار نے مزید لکھا کہ عراق میں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی حکومت سرنگون ہونے کے بعد ایک ایران نواز حکومت کا برسراقتدار آجانا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے بڑی مصیبت سے کم نہیں۔ دوسری طرف شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد ایران اور روس نے شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح یمن میں حوثی جنگجووں کی بڑھتی ہوئی کامیابیاں بھی ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات کے مزید کشیدہ ہونے کا باعث بنی ہیں۔ 
 
معروف امریکی مجلے فارن پالیسی میں شائع ہونے والے اس کالم میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان طے پانے والے کسی ممکنہ معاہدے کی بابت شدید پریشان دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس سے واشنگٹن اور تہران کے تعلقات میں بہتری آنے کا امکان زیادہ ہوجائے گا۔ سعودی عرب کی کوشش ہے کہ وہ عرب دنیا اور سنی اسلامی دنیا میں اپنی قیادتی حیثیت کو محفوظ بنائے۔ مائیکل مورین نے آخر میں یہ نتیجہ نکالا کہ جو چیز سعودی عرب کیلئے خاص اہمیت کی حامل ہے، وہ ایران اور روس کی جیوپولیٹیکل پوزیشن ہے نہ امریکی کمپنی شیل کی جانب سے انجام پانے والی رقابت۔ 
 
دوسری طرف عراق کے بعض معروف سیاسی ماہرین نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے خام تیل کی قیمت کو نیچے لانے جیسا اقدام درحقیقت اوپیک کو شام کی جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ عراقی پارلیمنٹ کی تیل اور انرجی کمیٹی کے رکن رزاق محیبس نے کہا کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت میں کمی کا نقصان سب سے زیادہ عراق کو ہوگا کیونکہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ، جو عراق پوری دنیا کی نمائندگی میں لڑ رہا ہے، خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کا باعث بن گئی ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی اس جنگ میں عراق کی زیادہ مدد نہیں کر رہے، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب جسے معلوم بھی ہے کہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، جان بوجھ کر ایسا اقدام انجام دے رہا ہے۔ 
 
رزاق محیبس نے سعودی عرب کی جانب سے خام تیل کی قیمت کو نیچے لانے پر مبنی اقدام کو "خود غرضانہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو امریکہ کی آشیرباد اور حمایت حاصل ہے اور اس نے خطے میں امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب نے ایران اور روس کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عراق کی سرزمین کا بڑا حصہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے میں ہے، جس کی وجہ سے عراق کو شدید اقتصادی نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ اقتصادی نقصان خاص طور پر 2014ء میں اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے، جس کا منفی اثر 2015ء کے بجٹ پر بھی پڑا ہے۔ لہذا عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں کمی کا سب سے زیادہ نقصان عراق کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اوپیک کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ عراق کی مشکلات اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو مدنظر قرار دیتے ہوئے خام تیل کی قیمت میں اصلاح کریں، کیونکہ عراق کی سکیورٹی پر ہی خطے کی سکیورٹی بھی استوار ہے۔ 
 
دوسری طرف عراق کے معروف سیاسی تجزیہ نگار خالد السراج کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت میں کمی میں بنیادی کردار سعودی عرب کا ہے، جس سے اس کا مقصد بعض اوپیک رکن ممالک پر اقتصادی دباو ڈالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے تیل کی قیمت میں کمی کا فیصلہ تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی ہے کیونکہ عارضی طور پر قیمتوں میں کمی کا خود سعودی عرب کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ خالد السراج نے کہا کہ اس اقدام کا بنیادی مقصد اوپیک کے بعض رکن ممالک پر دباو ڈال کر انہیں سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کے ناجائز مطالبات کو ماننے پر مجبور کرنا ہے، تاکہ ان کے مخالف اسلامی مزاحمتی محاذ کو کمزور کیا جاسکے۔ اسی طرح عراق کے خام تیل کے امور کے ماہر فیصل غازی نے کہا کہ چونکہ اوپیک اپنے رکن ممالک کی جانب سے خام تیل کی پیداوار کو روک نہیں رہی، لہذا عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت گرتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر خام تیل کی طلب میں کمی واقع ہونے کے باوجود سعودی عرب اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار کو کم کرنے پر تیار نہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 428200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش