0
Saturday 6 Jun 2015 10:55

شیعہ کے بعد اب مستونگ میں پختونوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ارکان سینیٹ

ملکی ایجنسیاں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں
شیعہ کے بعد اب مستونگ میں پختونوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ارکان سینیٹ
اسلام ٹائمز۔ سینٹ میں سانحہ مستونگ کے خلاف مذمتی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی۔ قرار داد نیشنل پارٹی کے حاصل بخش بزنجو نے پیش کی۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ حکومت بلوچستان میں نسلی، لسانی ومذہبی بنیادوں پر معصوم شہریوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے اور واقعہ کی تحقیقات کروا کر اس واقعہ میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ قبل ازیں تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے 29 مئی کو مستونگ میں بے گناہ افراد کے قتل پر بحث کا آغاز ہوا تو سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے بھی واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ دہشتگردوں کیجانب سے مختلف واقعات میں بسوں کو روکا گیا، شیعہ برادری کے لوگوں کو شناخت کرکے مارا گیا۔ پنجاب کے مزدوروں کے ساتھ بھی واقعات پیش آئے، لیکن مستونگ بہت افسوسناک واقعہ ہے۔ اس سازش کے پیچھے بہت بڑی سازش تھی۔ اس واقعہ سے سارے بلوچستان میں آگ لگ سکتی تھی۔ بسوں کو روک کر پشتونوں کو شناخت کرکے مارا گیا۔ اس واقع سے بلوچستان میں پشتونوں اور بلوچوں کے درمیان لڑائی کی کوشش کی گئی ہے۔ اس واقع پر سیاسی جماعتوں اور بلوچستان کی حکومت نے مثبت کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان کو خطرناک دہشت گردی سے بچایا ہے۔ حکومت مستونگ کے واقع میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کرے۔ سینیٹر سردار اعظم خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ 1972ء میں ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی اور خیبرپختونخوا سے الگ کرکے بلوچستان کے ساتھ شامل کر دیا۔ ملک میں اس وقت 32 ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، مگر ہم صرف "را" کا نام لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت بجٹ کا زیادہ حصہ فوج کو دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر کرنل مشہدی نے کہا کہ مستونگ کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر سی پیچو نے کہا کہ سانحہ مستونگ انتہائی افسوسناک ہے۔ لیکن اس واقعے کو لسانی رنگ رنگ دینا ناانصافی ہے۔ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ساتھ پشتون بستے ہیں۔ اس لئے مستونگ واقعہ میں پشتونوں کی ہلاکت افسوسناک ہے۔ بلوچستان میں امن و امان اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر سعید الہ مندوخیل نے کہا کہ مستونگ میں پیش ہونے والے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ ان دہشت گردوں کی واردات ہے جو دو قوموں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ بلوچستان میں پنجابی، سندھی، پشتونوں اور فرقہ ورانہ کارروائیوں کی کوشش کی گئی۔ ایسی قوتوں کے خلاف کھل کر بات کی جائے جو فرقہ وارانہ فسادات کروانا چاہتی ہیں۔ ملک کی ایجنسیاں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لئے تمام اداروں کے ساتھ مل کر دہشتگردوں کو روکنا ہوگا۔ سینیٹر داور اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مستونگ واقعہ کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کو موقع پر جا کر مقتولین کے ساتھ اظہار ہمدردی کی جائے۔ تاکہ اس واقعہ کے متاثرین کے ساتھ ہمدری ہو سکے۔ لیکن سیاستدانوں نے صرف اسمبلیوں میں بیٹھ کر آوازیں اٹھا رہے ہیں۔ باز محمد خان نے کہا کہ بلوچستان میں پشتون صدیوں سے رہ رہے ہیں، لیکن ان کو لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان میں تمام قومیں مل کر رہیں۔ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ بلوچستان میں سندھی پنجابی اور پشتون کو بلوچیوں کے ساتھ لڑانے کے لئے سازش کی جاتی ہے۔ لیکن سیاستدانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیاستدان جب تک سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ میں فرق کو ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس طرح کی باتیں اگر "را" کرتے تو ساز ہے، لیکن سیاستدان کریں تو اس کو کیا نام دیا جائے۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ مستونگ میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آئے ہیں۔ لیکن ان واقعات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اب واقعات ذات، نسل اور مذہب کی جانب مڑ چکے ہیں۔ اتنی پولیس، رینجرز اور ایجنسیاں ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات قابل افسوس ہیں۔ بلوچستان کے سیاسی مذہبی رہنماؤں کو آگے آنا چاہئے، تاکہ اس طرح کے واقعات نہ ہوسکیں۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مستونگ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ لیکن بلوچ اور پشتون آپس میں صدیوں سے اکٹھے رہے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ ایف سی نے کامیاب آپریشن میں مستونگ واقعہ میں ملوث افراد کو مار دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی انکوائری ہونی چاہئے کہ مشتبہ افراد کو بغیر ثبوت کے مار دینا، بلوچستان میں بلوچ پشتون کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایوان رینجرز اس آپریشن کی تحقیقات کرے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بلوچستان میں مستونگ واقعہ غیر ملکی سازش ہے۔ اصل ٹارگٹ اقتصادی راہداری ہے۔ بلوچ پشتون کو لڑا کر بلوچستان میں امن و امان خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس طرح کے واقعہ کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ سینٹ میں لیٹر آف دی ہاؤس راجہ ظفرا لحق نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں مستونگ میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ساتھ ہمدردی ہے۔ واقعہ کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ غیر معمولی ہے یہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کیا درہ ہے۔ جو پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بلوچستان میں پختون پشتون تنازعہ نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف سازش ہے۔ پوری قوم کو اتفاق رائے کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوشش کرنا ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 465153
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش