0
Friday 5 Feb 2016 16:30

بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے، بی بی گل بلوچ

بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے، بی بی گل بلوچ
اسلام ٹائمز۔ بلوچ ہیومین رائٹس آگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے رواں سال کے جنوری کے مہینے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہونے والی غیر قانونی گرفتاریوں، ہلاکتوں اور فورسز کی کاروائیوں کی اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جاری کارروائیوں کی وجہ سے وہاں پر انسانی حقوق کے حوالے سے صورت حال انتہائی سنگین ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں، سماجی تنظیموں کے لئے پر امن طریقے سے احتجاج کرنے کی تمام راہیں مسدود ہونے کی وجہ سے اظہارِ رائے کی آزادی مکمل ناپید کیا جا چکا ہے۔ مختلف تنظیموں کی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے چند سالوں کے دوران ہزاروں افراد لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ تین ہزار کے قریب لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو چکے ہیں۔ کاروائیوں کے دوران اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہونے والی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔ بلوچستان میں پائے جانے والے خوف و دہشت کے ماحول میں کوئی بھی عام شخص خود کو ان طاقتوں کا آسان ہدف تصور کرتی ہے۔ کیونکہ اب تک ہونے والی تمام بلا احتیاط و بلاتفریق کاروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں نہتے لوگ ہلاک، زخمی، و اغواء کیے جا چکے ہیں۔ جسکی وجہ سے عام لوگ احساس عدم تحفظ وخوف حراس کا شکار ہیں۔ 2016ء کی یکم جنوری سے لیکر 31 جنوری تک ہماری اعداد و شمار کے مطابق 50 سے زائد مختلف کاروائیاں ہوئی ہیں۔ جن کے نتیجے میں 132 افراد گرفتاری کے بعد لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ اس دوران ٹارگٹ کلنگ، آپریشنز اور مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ جنوری میں ہونے والی کاروائی کے دوران خواتین سمیت 6 لوگ زخمی کیے جا چکے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں میں 2013ء اور 2014ء کو پسنی سے اغواء ہونے والے دو نوجوانوں حنیف بلوچ اور یونس بلوچ کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ جبکہ ڈیرہ بگٹی سے تین سیاسی کارکنان کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

بی بی گل بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ مقامی ذرائع کے مطابق ان کارکنوں کو چند مہینوں پہلے مختلف مقامات سے فورسز نے اغواء کیا تھا۔ جنوری کے مہینے کے آخر میں مستونگ میں بلوچ سیاسی لیڈر ڈاکٹر منان بلوچ اپنے پانچ ساتھیوں سمیت فورسز کے ہاتھوں جاں بحق ہو گیا۔ ڈاکٹر منان بلوچ اور انکے ساتھیوں کو مستونگ کے علاقے کلی دتو میں ایک گھر کے اندر فورسز نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ علاوہ ازیں جنوری میں ملنے والی لاشوں میں سے 7 لاشیں ناقابل شناخت حالت میں برآمد ہوئیں۔ ایک مہینے کی مختصر مدت میں 132 سے زائد افراد کی گرفتاری بعد نامعلوم مقامی منتقلی اور اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے واقعات انوکھے واقعات نہیں۔ بلکہ بلوچستان میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ جنوری کے مہینے میں سب سے زیادہ 50 گرفتاریاں کوئٹہ میں کیے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ آواران، جھاؤ، مشکے، گوادر، پسنی، پنجگور، مستونگ، حب چوکی، بیلہ سمیت مختلف علاقوں سے 80 سے زائد افراد بغیر کسی مقدمات کے اپنے گھروں، دکانوں اور دورانِ سفر اغواء کیے جا چکے ہیں۔ انکے علاوہ اسی سال کے پہلے مہینے میں 50 سے زائد مختلف مقامات پر فورسز نے کاروائیاں کیں۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں کئی گھر جلا کر خاکستر کیے گئے۔ جبکہ آواران کے مختلف علاقوں میں متعدد دیہات بلڈوزر کے ذریعے منہدم کر دئیے گئے۔ بی بی گل بلوچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ زمہ دار اداروں کو بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لئے فوراََ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 518320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش