0
Thursday 2 Feb 2017 12:11

6 ماہ سے بیرون ملک مقیم شہری مردم شماری کا حصہ نہیں ہوں گے

6 ماہ سے بیرون ملک مقیم شہری مردم شماری کا حصہ نہیں ہوں گے
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے ادارہ شماریات نے اوورسیز پاکستانیوں کو مردم شماری میں شمار نہ کرنے اور پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو پاکستانی آبادی کا حصہ قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق حالیہ فیصلہ سناتے ہوئے چیف شماریات آصف باجوہ نے کہا کہ جو پاکستانی چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں، انھیں مردم شماری میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انھیں پاکستانی آبادی کا حصہ تصور کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ اس نئے قانون کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کام کرنے والے 7 لاکھ پاکستانی بھی شمار نہیں کیے جائیں گے، جو بلوچستان، خیبرپختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر سے مزدوری کے سلسلے میں بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔

ادارہ شماریات کے چیف آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ 6 ماہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حالیہ مردم شماری میں شمار نہیں کیا جائے گا، ان میں وہ طالب علم بھی شمار نہیں ہوں گے جو تعلیم کے کیلئے بیرون ملک مقیم ہیں۔ آصف باجوہ نے کہا کہ پاک فوج کی زیر نگرانی مردم شماری 15 مارچ سے ہی شروع ہوگی، پہلے مرحلے میں تین روز تک خانہ شماری (مکانات کا شمار) ہوگی، اگلے دس دن میں مردم شماری کے فارم پُر کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے گھر افراد کی گنتی کے لیے ایک روز مختص کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاستدانوں نے مردم شماری کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سے قبل افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں۔

آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے افغان مہاجرین کے ایک لاکھ جعلی شناختی کارڈز کو بلاک کیا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں تمام افراد کو شمار کیا جائے گا، غیر ملکی بھی مردم شماری کے دوران رجسٹر کیے جائیں گے۔ لیکن مردم شماری کی رپورٹ میں صرف ان افغان شہریوں کو شمار کیا جائے گا جن کے پاس درست پاکستانی آئی ڈی کارڈز ہوں گے جبکہ دیگر کو رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، ادارہ شماریات جعلی شناختی کارڈز کی جانچ کیلئے نادرا کا ڈیٹا استعمال کرے گا۔ ملک میں کسی بھی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کے حوالے سے ادارہ شماریات کے چیف کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص چھ ماہ سے اپنے صوبے سے دوسری صوبے میں رہائش پذیر ہے تو اسے اسی صوبے کی آبادی میں شمار کیا جائے گا جہاں وہ اس وقت موجود ہے۔ منظور شدہ منصوبے کے مطابق مردم شماری پہلے صوبہ بلوچستان میں کی جائے گی اور اسے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مردم شماری کی جائے گی۔

پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے مرادن اور پشاور ڈویژنز، پنجاب کے لاہور، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور سرگودھا ڈویژنز، سندھ کے کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژنز، اور بلوچستان کے کوئٹہ، ذوب، سبی، نصیر آباد، قلات اور مکران ڈویژنز میں مردم شماری ہو گی۔ مردم شماری کے پہلے مرحلے میں اسلام آباد کو بھی شامل کیا جائے گا۔

مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے ہزارہ، مالاکنڈ، کوہاٹ، بنوں اور ڈی آئی خان ڈویژنز، پنجاب کے گوجرانوالہ، راولپنڈی، بہاولپور،ملتان اور ساہیوال ڈویژنز جبکہ سندھ کے لارکانہ، سکھر اور بےنظر آباد ڈویژنز شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ دوسرے مرحلے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی مردم شماری ہوگی۔

آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ فوج نے مردم شماری کے پہلے مرحلے کیلئے 45000 اہلکار فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کے علاوہ اسی تعداد میں لوگوں کو سول انتظامیہ سے بھی حاصل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ملک میں پہلی مردم شماری 1951، دوسری مردم شماری 1961، تیسری مردم شماری 1971 کے بجائے 1972 اور چوتھی مردم شماری 1981 میں ہوئی تھی جبکہ پانچویں مردم شماری جو 1991 میں ہونا تھی فوج کی مدد سے 1998 میں ہوئی تھی۔ آئین کے مطابق حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ہر 10 سال میں مردم شماری کرائے۔ یہ پارلیمنٹ، انتخابی عمل، ٹیکس وصولی اور دیگر شہری مسائل میں نمائندگی کا حساب لگانے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 605775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش