0
Sunday 14 Jun 2009 14:16
دفاعی بجٹ میں 15 فیصد اضافہ، بجلی و پانی کے منصوبوں کیلئے 67 ارب روپے مختص

722 ارب روپے خسارہ کا بجٹ پیش،69 ارب روپے کے نئے ٹیکس،تنخواہوں،پنشن میں اضافہ ،گاڑیاں، سیمنٹ،موبائل فون سستے، سگریٹ مہنگے

دوست ممالک سے رقم نہ ملی تو آئی ایم ایف سے 4ارب ڈالر قرض لینگے، مشیر خزانہ
722 ارب روپے خسارہ کا بجٹ پیش،69 ارب روپے کے نئے ٹیکس،تنخواہوں،پنشن میں اضافہ ،گاڑیاں، سیمنٹ،موبائل فون سستے، سگریٹ مہنگے
اسلام آباد : وفاقی حکومت نے 2009-10ء کیلئے 722.5 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں 69 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ بجٹ کا مجموعی حجم 2.482 ارب روپے ہے، کل محصولات کا تخمینہ 21 ارب 74 کروڑ 90 لاکھ روپے ہے،جی ڈی پی کی شرح میں 3.3 فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، 2010-11ء میں یہ ہدف 4 اور 2011-12ء میں 4.5 فیصد ہو گا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں 15 فیصد عبوری ریلیف اور پنشن میں بھی 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جس کا اطلاق یکم جولائی 2009ء سے ہو گا۔ بجٹ کے اعلان کے مطابق سگریٹ مہنگے‘ سیمنٹ اور موبائل فون سستے ہو جائیں گے‘ تجارتی اشیاء پر ٹیکس بڑھا کر 4 فیصد کر دیا گیا ہے‘ بجٹ کا 722 ارب روپے کا خسارہ 269 ارب 40 کروڑ روپے کے بیرونی اور 457 ارب 60 کروڑ روپے کے ملکی قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ ترقیاتی بجٹ کا حجم 6 کھرب 21 ارب اور غیر ترقیاتی بجٹ 16 کھرب 99 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سگریٹ، تجارتی اشیاء پر عائد وِد ہولڈنگ ٹیکس 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد‘ جائیداد پر کیپیٹل ٹیکس 2 فیصد سے بڑھا کر چار فیصد 10 لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر ایک سال کے لئے 5 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ٹیکسٹائل صنعتی شعبہ، زرعی شعبہ پر ٹیکسوں میں کمی کی گئی ہے۔ مرد ملازمین کے لئے ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی کی حد ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کی جا رہی ہے‘ خواتین ملازمین کے لئے یہ شرح 2 لاکھ چالیس ہزار روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ ساٹھ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ حنا ربانی کھر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ کے علاوہ اندرون ملک بھی ان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ہم پہلے ہی 35 ارب ڈالر سے زیادہ کی قیمت چکا چکے ہیں‘ اب ہمیں عسکریت پسندی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بھاری اخراجات کا سامنا ہے۔ نقل مکانی کرنیو الے 25 لاکھ متاثرین کی دوبارہ آباد کاری کے اخراجات پورے کرنے ہیں حکومت اپنی اس ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان کے لئے بجٹ میں 50 ارب روپے رکھے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ہماری مسلح افواج بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہماری مغربی سرحد پر سب سے زیادہ غیر یقینی صورتحال ہے۔ پوری قوم مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ صدر نے مغربی سرحدوں پر تعینات مسلح افواج کے لئے یکم جولائی سے ایک بنیادی تنخواہ کے برابر ان کی ماہانہ تنخواہ میں اضافے کا اعلان کیا ہے جو یکم جنوری 2010ء سے تمام مسلح افواج پر لاگو کر دیا جائے گا۔ ہم نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ہماری معیشت مصنوعی ترقی کی بلند سطح کو قائم نہیں رکھ سکے گی۔ دیر پا ترقی صرف معیشت کے شعبوں زراعت اور صنعت میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مگر بدقسمتی سے ماضی میں اسے نظرانداز کیا گیا۔ اس کے بجائے انتہائی لگژری اشیاء کو درآمد کیا گیا اور انتہائی کھپت کے ذریعے نمو میں اضافہ کیا گیا۔ ان کے لئے مالی وسائل بھی بیرون قرضوں سے فراہم کئے گئے۔ جس سے مالی خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد تک پہنچ گیا۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کنٹرول سے باہر ہو گیا‘ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونا شروع ہو گئے جس سے سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ افراط زر 25 فیصد کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا یہ صورتحال حکومت کے لئے ناقابل برداشت تھی لہٰذا حکومت نے سماجی اور اقتصادی بحالی کا نو نکاتی ایجنڈا تشکیل دیا۔ ہماری کوششوں کے باعث 2008-09ء کے مالیاتی خسارے میں 3.3 فیصد کمی ہو جائے گی۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 8.5 فیصد سے کم ہو کر جی ڈی پی کا 5.3 فیصد رہ گیا۔ افراط زر کی شرح مئی 2009ء کو کم ہو کر 14.4 فیصد رہ گئی جو آئندہ مالی سال مزید کم ہو گی۔ سخت مالیاتی پالیسی اور سرکاری اخراجات کی سخت مینجمنٹ کے باعث نجی شعبہ کی سرمایہ تک رسائی پر منفی اثرات پڑے اور پی ایس ڈی پی کا حجم کم ہو گیا۔ استحکام کا سب سے بڑا اثر اقتصادی نمو پر پڑا جو کم ہو کر 2 فیصد رہ گئی۔ زرعی شعبے کے لئے ہماری پرائسنگ پالیسی کے باعث اس شعبے میں نمو بڑھ کر 4.7 فیصد ہو گئی۔ ہمیں معلوم تھا کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث غریب طبقہ پر منفی اثرات مرتب ہونگے ہم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریب طبقہ کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیئے۔ آئندہ مالی سال اس پروگرام کے لئے 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں تاکہ اس کا دائرہ کار 50 ہزار خاندان تک بڑھایا جا سکے۔ معقول شرح نمو حاصل کرنے کے لئے معاون اقدامات کے طور پر صوبوں سمیت کل اخراجات کا تخمینہ 2897.4 ارب روپے ہے کل محصولات کا تخمینہ 2174.9 ارب روپے 722.5 ارب روپے کا مجموعی مالی خسارہ قومی پیداوار کا 4.9 فیصد ہو گا یہ خسارہ 264.9 ارب روپے کے بیرونی قرضوں اور 457.6 ارب روپے کے ملکی قرضوں سے پورا کیا جائے گا‘ توقع ہے پاکستان کو ٹوکیو ڈونر کانفرنس میں کئے گئے وعدوں سے 178 ارب روپے ملیں گے آئی ڈی پیز پر اخراجات کا تخمینہ 48 ارب روپے ہے بجٹ کے محصولات کا تخمینہ 1377.5 ارب روپے ہے جاری اخراجات کا تخمینہ 1699.19 ارب روپے ہے صوبوں سمیت ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ 421.9 ارب روپے کے نظرثانی شدہ تخمینے کے مقابلے میں 738.1 ارب روپے ہے جو ایک تاریخی اضافہ ہے۔ سرکاری شعبے کے پی ایس ڈی پی کا تخمینہ 626 ارب روپے ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح پاکستان میں بہت کم ہے ختم ہونے والے سال میں ہم اس کے صرف 9 فیصد کے مساوی ٹیکس حاصل کر سکے۔ آئندہ مالی سال ہمیں اس کے تناسب میں 0.6 فیصد بہتری کی توقع ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم ٹیکس کلچر کو نہ اپنایا اور ٹیکس ادا کرنے کی سکت رکھنے والے ہر شہری نے ٹیکس نہ دیا تو پاکستان کبھی اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ بجٹ میں مزید سروسز کو ایکسائز کے دائرہ کار میں لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے‘ کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو بھی جاری رکھا جائے گا۔ 2009-10ء کے دوران جی ڈی پی میں 3.3 فیصد کی شرح سے اضافے کی توقع ہے‘ جو زرعی شعبہ کی 3.8 فیصد صنعتی پیداوار کے شعبہ کی 1.8 فیصد اور خدمات کے شعبے کی 3.9 فیصد شرح نمو کا حصہ ہو گی۔ آئندہ مالی سال میں افراط زر کی شرح کم کر کے 9.5 فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ محصولات کی وصولی میں 15.7 فیصد جبکہ ایف بی آر کے محصولات میں 16.8 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ پاکستان میں غربت کی سطح کو جانچنے کے لئے ابتدائی طور پر 16 اضلاع میں ایک پائلٹ سروے شروع کیا جائے گا وزارت سماجی بہبود کو وزارت سماجی تحفظ میں تبدیل کیا جائے گا۔ پیپلز ورکس پروگرام کے لئے 28 ارب روپے ہائوسنگ، صحت، تعلیم، فنی تعلیم جیسے شعبوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے 10.8 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ غریب افراد کو اپنی بچیوں کی شادی کے لئے امدادی رقم 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 70 ہزار روپے فی بیٹی کر دی گئی ہے، صنعتی کارکنوں کے لئے 9469 ہائوسنگ یونٹ تعمیر کئے جائیں گے۔ نجکاری کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے سرکاری اداروں کے ملازمین کو 20 فیصد حصص منتقل کئے جائیں گے۔ حکومت نے چھوٹے قرضوں تک رسائی رکھنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے بڑھا کر 30 لاکھ کا ہدف مقرر کیا ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کو آئندہ دو برسوں میں بینظیر ٹریکٹر سکیم کے تحت 4 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ فوڈ سکیورٹی پروگرام کے تحت 1012 دیہات میں عملدرآمد کیا جائے گا جس پر آٹھ ارب روپے لاگت آئے گی۔ ڈیری ڈویلپمنٹ کے لئے 3 سو ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ عالمی معاشی بحران توانائی کی قلت کے باعث پاکستان کا صنعتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ اس شعبہ کی ترقی کے لئے وزارت صنعت کے لئے 8.7ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے فنڈ کو دگنا کرتے ہوئے 3140 ملین روپے کیا جا رہا ہے۔ تعمیراتی شعبے کو فعال بنانے کے لئے سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 200 روپے فی ٹن کمی کی جا رہی ہے۔ موبائل فون پر 250 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کسٹمز ڈیوٹی 500 روپے فی سیٹ سے کم کر کے 250 روپے فی سیٹ اور ایکسائز ڈیوٹی میں 21 فیصد سے 19 فیصد کی کمی کی جا رہی ہے‘ سم ایکٹیویشن چارجز کو 500 روپے سے کم کر کے 250 روپے کر دیا گیا ہے۔ برآمدی شعبہ پر زیرو ریٹنگ ڈیوٹی اس سال بھی جاری رہے گی۔ ریفنڈ کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جائے گا‘ اس میں ایف بی آر 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کی صورت میں منافع دے گی۔ کمپنیوں کی صورت میں عطیات پر ٹیکس کی حد 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی جا رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی فراہمی کے حوالے سے صنعتی شعبہ کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ صنعتی شعبہ کو سہولت فراہم کرنے کے لئے بجلی اور گیس کے نرخوں پر کراس سبسڈی کو مرحلہ وار کم کیا جائے گا۔ برآمدی صنعت کی معاونت کے لئے لارج ایکسپورٹ ہائوسز قائم کئے جائیں گے۔ پولٹری، ڈیری، فشنگ پراسیسنگ جیسے شعبوں کو سستے خام مال کی فراہمی پر کئی اشیاء پر کسٹمز ڈیوٹی کم کی جائے گی۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس کے لئے مختص فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 22.8 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ بجلی کے شعبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے حکومت نے خاص طور پر ہولڈنگ کمپنی قائم کی ہے جو 216 ارب روپے کے تمام بینک واجبات کی ذمہ داری سنبھالے گی حکومت نے پیپکو کے لئے بینکوں سے 92 ارب روپے کی ٹی ایف سی صورتوں کا انتظام کیا ہے تاکہ وہ آئی پی پیز اور تیل و گیس کمپنیوں کے واجبات ادا کر سکیں۔ حکومت پیپکو کے ذمہ 61 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی میں مدد دے گی۔ حکومت فاٹا صارفین کے ذمہ پیپکو کے 80 ارب روپے کے تمام بقایاجات کی ذمہ داری اٹھانے اور فاٹا کے بجلی کا موجودہ بل ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فارما سوٹیکلز ادویات اور بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہونیوالی 35 خام اشیا پر امپورٹ ڈیوٹی رعایتی شرح کے ساتھ نافذ کی جا رہی ہے۔ خصوصی افراد کے لئے ویل چیئرز کی درآمد اور فراہمی پر سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ لوگوںکی صحت کے تحفظ کے لئے سگریٹ پر عائد ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عوام کو بیماریوں سے بچانے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کے بڑے منصوبے پر کام جاری ہے اب تک چھ سو فلٹریشن پلانٹس لگائے جا چکے ہیں جبکہ آئندہ مالی سال میں چھ ارب روپے کی لاگت سے مزید 35 سو پلانٹس لگائے جائیں گے۔ حکومت نوجوانوں کے لئے خصوصی پروگرام شروع کر رہی ہے، نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت 30 ہزار پوسٹ گریجویٹ طلبہ کو سکالر شپ دیئے جائیں گے جس کے لئے 3.6 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ملازمین کی بہتری کے لئے یکم جولائی سے حاضر سروس سرکاری ملازمین کو تنخواہ کا 15 فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس دیا جائے گا۔
ریٹائرڈ سرکاری و مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یکم جولائی سے 15 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بزرگ شہریوں کی آمدن ساڑھے سات لاکھ روپے ہونے کی صورت میں ٹیکس پر 50 فیصد رعایت دی جائے گی جو پہلے 5 لاکھ روپے پر تھی۔ پٹرولیم مصنوعات پر عائد ایکسائز ڈیوٹی کو کاربن سرچارج کی صورت میں نافذ کیا جا رہا ہے جس سے موجودہ پٹرولیم ڈویلمپنٹ لیوی ختم ہو جائے گی۔ اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں شفافیت یقینی ہو گی اور فارن ایکسچینج کی بچت ہو گی۔ تجارتی اشیاء کی درآمد پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح دو فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کی جا رہی ہے۔ جس سے حکومت کو 23 ارب روپے کی آمدنی ہو گی۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافے سے اضافی 15 ارب روپے حاصل ہونگے۔ ریونیو میں اضافے کے لئے بنکنگ، امپورٹ، کارگو ہینڈلنگ، سٹاک بروکرز، انشورنس کمپنیز اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات کے لئے وصول کی جانیوالی فیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے۔ جس سے 16 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ جائیداد پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کی جا رہی ہے۔آئی ڈی پیزکی مدد کے لئے سالانہ 10 لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر 5 فیصد کی شرح سے ایک سال کے لئے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے جبکہ کو آپریٹ سیکٹر میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد کے بونسز پر 30 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ سگریٹ پر سیلز ٹیکس جو پہلے 5 فیصد تھا اب وہ 10 فیصد کیا جا رہا ہے‘ سیمنٹ پر 200 روپے فی میٹرک ٹن ایکسائز ڈیوٹی کم کر دی ہے‘ گیس اور بجلی پر سبسڈی بتدریج ختم کی جائے گی۔ بجٹ میں سوائے تمباکو کے کسی بھی صنعت پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کیا گیا بجٹ میں صنعتی شعبہ کو ٹیکس کے حوالے سے خصوصی مراعات دینے کا بھی اعلان کیا گیا جس میں آٹو انڈسٹری پر ایکسائز ڈیوٹی میں پانچ فیصد کمی، سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں 200 روپے فی ٹن کی کمی، ٹیکسٹائل کے شعبہ کی معاونت کیلئے ویسکو سٹیبل فائبر کی درآمد اور فراہمی پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ شامل ہیں۔
اسلام آباد: فنانس بل 2009 ء میں وفاقی حکومت نے نئے ٹیکس اقدامات کے ذریعے 69ارب، چالیس کروڑ روپے کی اضافی آمدنی حاصل کرنے کی تجویز دی ہے، ادویات کے خام مال، زندگی بچانے والی اور کینسر ادویات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی و درآمدات پر ود ہولڈنگ ٹیکس میں دو فیصد اضافہ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات ، سائن بورڈز ،بینکنگ و نان بینکنگ مالیاتی اداروں کی فنڈ خدمات، سٹاک بروکرز اور پورٹ ٹرمینل آپریٹرز کی خدمات پر سولہ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ ایک ہزار سی سی یا اس سے بڑی گاڑی اور ایک کنال یا اس سے بڑا رہائشی پلاٹ رکھنے والے افراد پر انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانا لازم قرار دیا گیا ہے، غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی پر کیپٹل ویلیو ٹیکس دو سے بڑھا کر چار فیصد کر دیا گیا ہے، آئندہ نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) حاصل کرنے والے تمام افراد کیلئے گوشوارے جمع کرانا لازم ہو گا بصورت دیگر کارروائی کی جائے گی۔ فنانس بل 2009 ء میں تجویز کردہ ٹیکس اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے ایف بی آر کے ممبر ڈائریکٹ ٹیکس عرفان ندیم، ممبر سیلز ٹیکس ظفر مجید اور ممبر کسٹم محمود عالم نے بتایا کہ انکم ٹیکس دہندگان کی سہولت کیلئے جو اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ان میں بزرگ شہریوں کیلئے انکم ٹیکس میں پچاس فیصد چھوٹ پانچ لاکھ سالانہ کی بجائے ساڑھے سات لاکھ سالانہ آمدنی پر لاگو ہو گی، سگریٹس اور فارماسیوٹیکل مصنوعات کے ڈسٹری بیوٹرز پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس 3.5سے کم کر کے ایک فیصد کر نے کی تجویز ہے۔ درآمدات پر ود ہولڈنگ ٹیکس پانچ سے کم کر کے دو فیصد کرنے کے غلط استعمال کے باعث دو سے بڑھا کر چار فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس مخصوص کی بجائے تمام گاڑیوں پر وصول کیا جائے گا، سوات متاثرین کی امداد کیلئے دس لاکھ روپے سے زائد آمدن کے حامل افراد پر پانچ فیصد جبکہ کارپوریٹ ایگزیکٹوز کی بونس آمدنی پر تیس فیصد یکبارگی ٹیکس عائد کیا جائے گا، بڑے درآمدی ہائوسز کو دی گئی ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جائے گی، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے تجویز دی گئی ہے کہ جائیداد خریدنے ، کمرشل یا صنعتی گیس اور بجلی کے کنکشنز لینے والے اور بینک اکائونٹس کھلوانے والے افراد کیلئے این ٹی این کی شرط عائد کی جائے‘ تمام این ٹی این کے حامل افراد پر گوشوارے جمع کروانا لازم ہو گا۔ سیلز ٹیکس دہندگان کی سہولت کیلئے وہیل چیئرز اور لائزین سلفیٹ پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز نو سو روپے فی میٹرک ٹن سے کم کر کے سات سو روپے کی جائے گی۔ گاڑیوں پر پانچ فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم، ٹیلی کام کمپنیوں کی خدمات پر ایکسائز ڈیوٹی 21سے کم کر کے 19فیصد ، موبائل فونز کے ایکٹیویشن چارجز پانچ سو سے کم کر کے اڑھائی سو، آلو اور پیاز کی درآمد پر ڈیوٹی میں چھوٹ ختم، جبکہ فی ایس ایم ایس پر بیس پیسے ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 900 روپے فی میٹرک ٹن سے کم کر کے 700 روپے فی میٹرک ٹن کر دی گئی ہے جس سے اس کی قیمت میں کمی آئے گی۔ گاڑیوں پر بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی کی گئی ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 21 فیصد سے کم کر کے 19 فیصد جبکہ موبائل فون کنکشنز کے ایکٹیویشن چارجز 500 روپے سے کم کر کے 250 روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ فی ایس ایم ایس 20 پیسے کا ٹیکس لگایا جائے گا۔ آلو اور پیاز کی درآمد پر ٹیکس کی چھوٹ واپس لینے سے مقامی کاشتکاروں کو فائدہ حاصل ہو گا۔ سگریٹ پر عائد ٹیکس سے ریونیو میں 14 سے 15 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ 10 روپے والی 10 سگریٹ کے پیکٹ پر 4.75 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو گی، 10 سے 19.50 روپے والے پیکٹ پر 4.75 روپے اور 10 روپے سے زائد ہر روپے پر 70 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا جبکہ 19.50 روپے سے زائد قیمت والے سگریٹ پر ہر روپے پر 64 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو گی۔ الیکٹرانک میڈیا کی طرح پرنٹ میڈیا، اشتہاری بورڈز پر 16 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا جو ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے ذریعہ وصول کیا جائے گا، اس مد میں ایک ارب روپے تک کی آمدنی متوقع ہے۔ سٹاک بروکرز پر عائد 0.02 فیصد کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو ختم کر کے سروس چارجز یا کمیشن پر 16 فیصد ٹیکس بطور ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد کیا جائے گا اس سے بھی ایک ارب روپے تک آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ فنانس بل کے مطابق انشورنس خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد اور بینکاری خدمات پر 16 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے جو وی اے ٹی موڈ میں نافذ ہو گی۔ ان دونوں شعبوں سے 7 ارب روپے تک کا ٹیکس حاصل ہونے کی توقع ہے۔ بندرگاہوں اور ٹرمینل آپریٹرز بشمول وہارفیج پر وی اے ٹی موڈ میں 16 فیصد ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جائے گی۔ فنانس بل کے ذریعہ ڈیفالٹ سرچارج کی شرح کو بینکوں کے شرح سود سے زیادہ رکھنے کیلئے کائیبور جمع 3 فیصد کا فارمولا متعارف کرایا جا رہا ہے۔ سگریٹ اور ادویات کے ڈسٹری بیوٹرز کے کم منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ٹیکس دہندگان پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 3.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد تک لائی گئی ہے۔ رضا کارانہ پنشن سکیم کے تحت حاصل ہونے والی آمدنی کا 25 فیصد ٹیکس سے مستثنیٰ ہے جسے بڑھا کر 50 فیصد کیا جائے گا۔ تاخیر سے ریفنڈ جاری کرنے پر ٹیکس دہندگان کو 6 فیصد کی شرح سے زرتلافی ادا کیا جاتا ہے جسے بڑھا کر کائیبور کے برابر کر دیا گیا ہے، کائیبور کی شرح کا تعین ہر سہ ماہی کے پہلے دن کی قدر کے مطابق کیا جائے گا۔ اس وقت تجارتی اور صنعتی صارفین سے ماہانہ بنیادوں پر بجلی کے بلوں کے ساتھ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور اسے حتمی تصور کیا جاتا ہے، ایک ترمیم کے ذریعہ 30 ہزار روپے سے زائد بجلی کے بلوں پر وصول کیا جانے والا ٹیکس ریفنڈ کیا جا سکے گا۔ ان ڈینٹنگ کمیشن پر عائد ایک فیصد انکم ٹیکس کو بڑھا کر 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔ کاروں اور جیپوں کی خریداری پر وصول کئے جانے والے ایڈوانس ٹیکس کا دائرہ کار تمام گاڑیوں تک بڑھایا جائے گا۔ سوات، دیر اور بونیر سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کیلئے فنڈ جمع کرنے کے مقصد سے ان افراد پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن کی آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد ہو جبکہ تجارتی شعبہ میں ایگزیکٹوز کو دیئے جانے والے بونس پر 30 فیصد کی شرح سے آئی ڈی پیز چارجز عائد کئے جانے کی بھی تجویز ہے، آئی ڈی پیز چارجز کا اطلاق صرف 2009-10ء کیلئے ہو گا۔ اس وقت ٹیکس کی مقررہ تاریخ کے بعد ادائیگی پر 12 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافی سرچارج وصول کیا جا رہا ہے جسے کائیبور کے برابر کرنے کی تجویز ہے۔ مسافر گاڑیوں کی فرسودگی کا اطلاق مجموعی لاگت پر ہونے کی وجہ سے لگژری گاڑیوں کی خریداری کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اس لئے فرسودگی کے تعین کیلئے 15 لاکھ روپے کی حد مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ بڑے تجارتی اداروں کی برآمدات اور مصنوعات کی فروخت پر دی گئی ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ فنانس بل 2009-10ء میں رئیل اسٹیٹ شعبہ پر عائد 2 فیصد کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس سے 15 ارب روپے حاصل ہو سکیں گے۔ اس تجویز کے تحت شہری علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت پر 4 فیصد ٹیکس عائد ہو گا، علاوہ ازیں سی وی ٹی کے تحت 500 گز تک کی اراضی کو حاصل چھوٹ بھی ختم کی جائے گی۔ جائیداد کی خرید و فروخت، صنعتی و تجارتی مقاصد کیلئے گیس اور بجلی کے کنکشنز حاصل کرنے اور بینک اکائونٹ کھلوانے کیلئے این ٹی این نمبر فراہم کرنا لازمی قرار دینے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ 1000 ہزار سی سی گاڑیوں کے مالکان، 500 مربع گز پر بنے ہوئے مالکان یا 2000 مربع فٹ کے فلیٹ کے مالکان کیلئے بھی مالیاتی گوشوارے جمع کرانا لازمی ہو گا۔ اس حوالہ سے ٹیکس افسروں کو ٹیکس چوری کے کیسز پر فوری فیصلے کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔ تجارتی شعبہ کی دستاویز بندی کی حوصلہ افزائی کیلئے مینوفیکچررز کو 2.5 فیصد ٹیکس کریڈٹ دی جائے گی اگر وہ اپنی مصنوعات کا 90 فیصد سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کو فروخت کریں۔ فنانس بل 2009-10ء کے تحت کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ریلیف اقدامات، مقامی صنعتوں کے تحفظ، ٹیرف کی شرح
کو بہتر بنانے اور انتظامی اصلاحات کا چار نکاتی ایجنڈا تیار کیا گیا ہے۔ دوا سازی کے خام مال کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے کی بھی تجویز ہے۔ ڈیری اور لائیو سٹاک کی صنعتوں کے فروغ کیلئے بچھڑوں کو دودھ کی جگہ دی جانے والی غذا، چارے میں استعمال ہونے والے غذائی اجزاء پر عائد 20 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ پری فیبریکیٹڈ سٹیل کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد اور فور سٹروک رکشہ کی برآمد کی جانے والی کٹس پر ڈیوٹی 32.5 فیصد سے کم کر کے 20 فیصد کرنے کی تجاویز بھی بل میں شامل ہیں۔ زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے ٹریکٹروں کی درآمد اور کسٹم ٹیرف کے باب 99 میں شامل ریلیف اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ جاری رہے گی۔ مقامی صنعتوں کے تحفظ کیلئے ہائیڈرجن پر آکسائیڈ پر ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد، ڈبل کمپریسر ایئرکنڈیشن پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد ، سٹیل کے ویلڈڈ پائپوں پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ مقامی صنعتوں کے تحفظ کیلئے ایل پی جی اور سی این جی ڈسپینسر اور توانائی کی بچت کرنے والے دروازے اور کھڑکیاں تیار کرنے والوں کو مراعات دینے ٹن پلیٹ تیار کرنے والوں کیلئے سی آر سی بلیک پلیٹ پر کسٹم ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے ٹرانسفارمرز اور کنٹرول پینلز کے خام مال پر ڈیوٹی کم کرنے ‘ سپارک پلگ اور وائر کنڈیشنر کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ برآمد کی جانے والی پلاسٹک سینیٹری مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد اور ایل سی ڈی اور پلازما ٹی وی کی کٹوں پر 5 فیصد ڈیوٹی برقرار رکھنے، ٹفٹڈ قالینوں پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کرنے‘ انجینئرنگ سیکٹر کے خام مال کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ فنانس بل 2009-10ء میں مختلف صنعتی اشیاء اور مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح بہتر بنانے کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ کسٹم ڈیوٹی میں 7 سے 8 ارب روپے کے اضافہ کو یقینی بنانے کیلئے انتظامی اصلاحات بھی تجویز کی گئی ہیں۔
اسلام آباد : وزیر مملکت برائے خزانہ حنا ربانی کھر نے جو ٹیکس تجاویز دیں اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر ایکسائز ڈیوٹی کو کاربن سرچارج کی صورت میں نافذ کیا جا رہا ہے جس سے موجودہ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی ختم ہو جائے گی۔ اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں شفافیت یقینی ہوگی، کھپت کم ہوگی، زرمبادلہ کی بچت ہوگی اور کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی۔ سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے اس پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے تقریباً 15 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ محصولات میں اضافے اور ٹیکس بیس کو وسعت دینے کیلئے وی اے ٹی موڈ میں درج ذیل خدمات کو بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے دائرہ کار میں لانے کی تجویز ہے۔ بنکاری خدمات پر وصول کی جانے والی فیس، درآمدی سامان کے اتارنے چڑھانے کی طرف سے لی جانے والی فیس، سٹاک بروکرز کی فیس، انشورنس کمپنیز کی طرف سے وصول کی جانے والی فیس اور اشتہارات کیلئے الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے وصول کی جانے والی فیس ان اقدامات کے نتیجے میں 16 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ تجارتی اشیاء کی برآمد پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس سے حکومت کو اندازاً 23 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ ٹیکس بیس کو وسعت دینے کی پالیسی کے تحت اور ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کرنے کی اہلیت رکھنے والوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے ہوئے جائیداد پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ حکومت ٹیکسوں کی وصولی کیلئے مؤثر اقدامات کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ٹیکس سے اندازاً 15 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوں گے۔ آئی ڈی پیز کی مدد کیلئے سالانہ 10 لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر 5 فیصد کی شرح سے معمولی ٹیکس ایک سال کیلئے عائد کرنے کی تجویز ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد کے بونسز پر 30 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی سیکشن 113 کے تحت ایک ریذیڈنٹ کمپنی کی آمدنی پر کم سے کم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے بشرطیکہ اس کمپنی نے آرڈیننس کے تحت کاروبار میں خسارہ نہ ظاہر کیا ہو۔ معیشت کی دستاویزی شکل کو فروغ دینے کیلئے تجویز دی گئی ہے کہ بعض شعبوں کو حاصل اندازے کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی کی سہولت واپس لی جائے۔ ان شعبوں کیلئے اب گوشوارے جمع کرانا ضروری ہوگا۔ اندازے کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی کے نظام کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا۔ پرنٹ میڈیا کے اشتہارات‘ ہورڈنگز‘ بل بورڈز پر 16 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔ پہلے یہ ڈیوٹی صرف الیکٹرانک میڈیا کے اشتہارات پر عائد تھی۔ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کو 21 سے کم کرکے 16 فیصد کردیا جائے گا‘ پراپرٹی پر کیپٹل گین ٹیکس لگایا جائے گا۔ زرعی ادویات اور کمپیوٹر سافٹ ویئر کی درآمد پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ بنکوں‘ انشورنس‘ ڈاکٹرز اور کارگو پر بھی سیلز ٹیکس لگے گا۔ ڈیری کی مصنوعات‘ منرل واٹر اور سٹیشنری پر سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔ ہر وہ شخص جس کے پاس 500 مربع گز کے برابر ناقابل انتقال جائیداد ہے یا 2 ہزار مربع فٹ کا فلیٹ ہے ایک ہزار سی سی تک کی کار سے آمدنی کا گوشوارہ داخل کرائے گا۔ زرعی ٹریکٹر پر ڈیوٹی کا استثنیٰ جاری رے گا‘ فور سٹروک رکشا کی درآمد پر ڈیوٹی 32 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کردی گئی ہے۔
دفاعی بجٹ میں 15 فیصد اضافہ،بجلی و پانی کے منصوبوں کیلئے 67 ارب روپے مختص
اسلام آباد : آئندہ مالی سال 2009-10ء کے سرکاری شعبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں پانی و بجلی کے شعبے کے لئے مختلف منصوبوں کے لئے 67 ارب روپے سے زائد مختص کئے گئے۔ دفاعی بجٹ میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 15فیصد سے زائد اضافہ کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پانی و بجلی کے منصوبوں کی تفصیلات کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کیلئے 16 ارب روپے، دیامیربھاشا ڈیم کی تعمیرکیلئے 23 ارب روپے، خانکی بیراج کیلئے ایک ارب 50 کروڑ روپے، بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کیلئے 20 کروڑ روپے، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 15 کروڑ روپے، جناح ہائیڈروپاورپراجیکٹ میانوالی کیلئے ایک ارب 25 کروڑ روپے، گولان گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 85 کروڑ روپے اور صوبہ سرحد میں 20 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کیلئے 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بھاشا دیا میر ڈیم کی تعمیر اور زمین کی خریداری کے لئے 23 ارب روپے مختص کر دئیے گئے جبکہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے 16ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ منگلا اپ ریزنگ اور متاثرین کے لئے 12 ارب رکھے گئے۔ آبی گذر گاہوں کی بہتری کے لئے 10ارب مختص کر دئیے گئے۔ ہر صوبے میں 8چھوٹے اور درمیان ڈیمز کے لئے فنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ آئندہ مالی سال میں دفاع کیلئے 343ارب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں جبکہ وزارت دفاع کا مجموعی بجٹ 3 کھرب 47 ارب سے زائد ہوگا۔ جس میں سے دفاعی پیداوار کیلئے 46کروڑ 38لاکھ اور دفاع ڈویژن کیلئے 84کروڑ روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق دفاعی بجٹ رواں مالی سال کے مقابلے میں پندرہ فیصد زیادہ ہے اور اس میں اضافہ افراط زر کی شرح میں اضافے مشرقی و مغربی سرحدوں کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیاگیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق پچھلے مالی سال دفاعی بجٹ کا حجم 296.07ارب روپے تھا جبکہ آئندہ مالی سال کا حجم 342.9ارب جو 15.3فیصد زائد ہے۔دریں اثناء بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 2009-10ء میں بجٹ خسارہ 724 ارب روپے ہوگا جبکہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 655 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
 دوست ممالک سے رقم نہ ملی تو آئی ایم ایف سے 4ارب ڈالر قرض لینگے، مشیر خزانہ
اسلام آباد:مشیرخزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی اور مارکیٹ میں اعتماد ختم ہونے کی وجہ سے معیشت متاثر ہوئی،فرینڈز آف پاکستان سے امداد نہ ملی تو آئی ایم ایف سے چار ارب ڈالر قرض لیں گے۔ اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے امور خزانہ حناربانی کھرکے ساتھ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہحکومت پر الزام لگایا جارہا ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے میں بہت زیادہ وقت لگایا گیا۔معیشت میں استحکام کے اثرات نظر آرہے ہیں، معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں اور معیشت بہتری کی جانب گامزن ہورہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے اخراجات میں 120ارب روپے کی کمی کی گئی، غیر ضروری مصنوعات کی درآمدات میں کمی کیلئے اقدامات کیے،اس سال شرح نمو 2فیصد تک رہی جسے تین سے چار فیصد تک لایا جائیگا۔مجموعی بجٹ کا مالیاتی خسارہ4.9فیصد ر ہے گاجبکہ بجٹ کا اصل خسارہ 3.4فیصد ہے،دوست ملکوں کی امداد سے بجٹ خسارہ پورا کیا جائے گا۔ مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہمعیشت میں بہت سی خامیا ں ہیں۔معیشت کا حجم 14.82ہزار ارب روپے ہوگیا۔ روپے کی شرح تبادلہ اور سخت مانیٹری پالیسی سے افراط زر کم کیا، جون کے اختتام تک افراط زر13فیصد ہوجائے گی۔ مالیاتی خسارہ 3.3فیصد سے کم ہوا،بجٹ سے سبسڈی کا بوجھ ختم ہوگیا۔زر مبادلہ کے ذخائر 11ارب 30کروڑ ڈالر رہے،معاشی ترقی کا دارومدار صنعتوں پر ہے، ساٹھ فیصد ریوینو مینوفیکچرنگ سے حاصل ہوتا ہے، اس شعبے میں تین فیصد کمی ہوئی جس کے اثرات معیشت پر بھی مرتب ہوئے ،صنعتوں کے استحکام کیلئے روپے کی قدر اور شرح سود کو بہتر بنانا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ اگلے سال کے بجٹ کی بھی منصوبہ بندی شروع کردی گئی ہے۔ جائیداد پر سی وی ٹی چار فیصد کردی گئی جسے بعد میں کیپٹل گین ٹیکس میں تبدیل کردیا جائے گا۔ کیپٹل گین ٹیکس صوبوں کا معاملہ ہے، اس پر این ایف سی ایوارڈ کے بغیر عمل نہیں کیاجاسکتا،انہوں نے بتایا کہ متاثرین مالاکنڈ کیلئے600ملین ڈالر امداد ملنے کا امکان ہے۔ ہمیں جنگ کا سامنا ہے، غربت اور صحت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکا اور جاپان نے دو ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا ہے، غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں،بجٹ میں قرضوں کا ہدف 720ارب روپے رکھا گیا ہے،صوبوں کی گرانٹ 560ارب روپے سے بڑھاکر 655ارب روپے کردی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن سرچارج سے 124ارب روپے حاصل ہونگے۔ جسے ملاکر ٹیکس کا ہدف 10فیصد ہوجائے گا۔
خبر کا کوڈ : 6696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش