0
Thursday 17 Jan 2019 13:31
خلفاء کا احتساب سرعام ہو سکتا ہے تو قاضی کا کیوں نہیں؟، صدر سپریم کورٹ بار

سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس، جسٹس منصور غیرحاضر، چیف جسٹس ثاقب نثار کو خراج تحسین

سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس، جسٹس منصور غیرحاضر، چیف جسٹس ثاقب نثار کو خراج تحسین
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار آج ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں ریفرنس جاری ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وکلا تنظیموں کے نمائندگان موجود ہیں تاہم جسٹس منصورعلی شاہ نے ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فل کورٹ ریفرنس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے بچوں کی طرح ہیں جو آج الگ ہو جائیں گے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی، انہوں نے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی سمیت کئی مشکلات کا سامنا کیا، ان  کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات یاد رکھی جائیں گی.

جسٹس آصٖ سعید کھوسہ نے کہا کہ میں بھی چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں، 3 ہزار ججز 19 لاکھ مقدمات نہیں نمٹا سکتے ہیں، بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل کو دور کرنے کی کوشش کروں گا، ماتحت عدلیہ میں برسوں سے زیرالتواء مقدمات کے جلد تصفیہ کی کوشش کی جائے گی، غیر ضروری التواء کو روکنے کے لئے جدید آلات کا استعمال کیا جائے گا، مقدمات کی تاخیر کے خلاف ڈیم بناؤں گا، عرصہ دراز سے زیر التواء مقدمات کا قرض اتاروں گا۔

اٹارنی جنرل نے ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 20 سال تک بطور جج خدمات سر انجام دیں، فراہمی انصاف میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا، چیف جسٹس کو از خود نوٹسز پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوں نے صحت، تعلیم اور پانی کے معاملات پر شاندار فیصلے دیئے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ کچھ عرصے سے ججز کے لہجے میں ترشی بڑھ جاتی ہے، ججز کے لہجے میں ترشی عدالت اور وکیل کو بنیادی مقصد سے ہٹا دیتی ہے، وکلاء اور ججوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ سائلین کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ وکیل کو حقائق بیان کرنے اور دلائل دینے کا موقع نہیں دیا جاتا، عدلیہ اور بار ایک گاڑی کے پہیے لیکن اب ایک پہیہ صرف اضافی ہے۔ حکومتی اور انتظامی امور میں بے جامداخلت سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، ازخود نوٹس کی کثیر تعداد سے عام مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے۔ ازخود فیصلے پر نظرثانی یا اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔

صدرسپریم کورٹ بار نے کہا کہ ججز کی تقرری کا طریقہ درست نہیں، ججز کو ہٹانے کے طریقہ کار میں بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ خلفاء کا احتساب سرعام ہو سکتا ہے تو قاضی کا کیوں نہیں؟، دوسرے ممالک میں ججز کا محاسبہ پارلیمنٹ کرتی ہے، کئی ججز سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلوں کے بعد چلے گئے جبکہ اسلام آباد اور لاہورہائیکورٹ کے ایک، ایک جج کو الزامات سے مبرا قرار دیا گیا، اس عمل سے سپریم جوڈیشل کونسل کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
خبر کا کوڈ : 772594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش