2
Friday 31 Jul 2020 21:00
چودھری پرویزالہیٰ منجھا ہوا سیاستدان ہے، مذہبی مافیا کو اپنے حق میں استعمال کر لیا

تحفظ بنیاد اسلام بل میں اسلام کی کسی بنیاد کا ذکر تک موجود نہیں، علامہ جواد نقوی

بل پاس کرنیوالے بتا سکتے ہیں پیغام پاکستان بیانیئے کو کیوں مسترد کیا گیا ہے؟
تحفظ بنیاد اسلام بل میں اسلام کی کسی بنیاد کا ذکر تک موجود نہیں، علامہ جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں مسجد بیت العتیق جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ اور عالمی حالات کو نظر انداز کرکے پاکستان میں ایک نیا بحران کھڑا کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی ماہانہ یا ہفتہ وار بحران کھڑے کئے جا رہے تھے، لیکن سب سے خطرناک معاملہ پنجاب اسمبلی میں انجام پایا ہے اور وہ فرقہ واریت کو بھڑکانے کی سازش ہے، ملک میں رواداری کی بہتر فضا قائم ہوچکی تھی، جسے ختم کرنے کیلئے ناعاقبت اندیش ارکان پنجاب اسمبلی نے ایک بل پاس  کر لیا ہے، اسے منظوری کیلئے گورنر کو بھیجا اور گورنر نے واپس پنجاب اسمبلی کو بھجوا دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ اس میں ترمیم کرکے قابل قبول بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ظاہری طور پر ایک بل پیش کیا گیا ہے، جس کا نام تحفظ بنیاد اسلام بل، یعنی اسلام کی بنیاد کو مضبوط بنانے کیلئے بل پیش کیا گیا ہے، یہ نام ہی بل بنانے والوں کے عزائم اور نیتوں سے پردہ اٹھاتا ہے اور ان کی صلاحیت، قابلیت اور علمیت کی بھی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل کے مندرجات سب کے سامنے ہیں، ان کو بنیاد اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اس پورے بل میں ایک بھی اسلام کی بنیاد شامل نہیں کی گئی۔ اسلام کی بنیاد سب سے پہلے توحید ہے، دوسری نبوت ہے، تمام انبیاء کی نبوت اور بالخصوص نبی اکرم کی نبوت اور خاتمیت پر ایمان، تیسری بنیاد قرآن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح نبوت کا آگے تسلسل ہے، اسی طرح دین کے واجبات ہیں، جو عبادات ہیں، وہ بنیادیں ہیں، جنہیں قرآن و حدیث نے بنیادِ اسلام قرار دیا ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اسلام کی 5 بنیادیں ہیں، نماز، روزہ، حج، زکواۃ اور ولایت۔ اس بل کا نام بنیاد اسلام رکھا گیا مگر اس میں بنیاد اسلام کا ایک بھی مطلب شامل نہیں، دوسرا بنیاد اسلام کو تحفظ دینا اس وقت ضروری ہوتا ہے، جب اسلام بن رہا ہو یا کوئی بنیاد ڈھاہ رہا ہو، تو اس صورت میں بنیاد کے تحفظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے بل بنانے والے اسلام کی بنیادوں سے بھی آشنا نہیں، پورے بل میں اسلام کے بنیادی مسائل کی جانب معمولی اشارہ بھی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ پنجاب اسمبلی میں اٹھایا گیا ہے، پنجاب اسمبلی مشغلے کے اعتبار سے دلچسپ اسمبلی ہے۔ چند روز قبل ایک خاتون نے داڑھی کے ڈیزائن بنانے کیخلاف بل پیش کیا۔ یہ بل ایک عورت نے پیش کیا۔ جہان داڑھی مونڈی جاتی ہے، اس پر اعتراض نہیں کیا گیا، بس داڑھی کے ڈیزائن پر اعتراض کیا گیا اور ڈیزائنوں کی روک تھام کیلئے مطالبہ کیا گیا، اسی طرح نکاح کے بارے میں بھی بل پیش کیا گیا، پنجاب اسمبلی میں اکثر وہ بل پیش ہوتے ہیں، جو کسی بھنڈ کے ذہن میں بھی نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں قانون سازی نہیں ہوتی، باقی سب کچھ ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جس طرح بڑے بڑے ایک دوسرے کیخلاف بول رہے تھے، وہ بڑی عجیب بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں، عوام جب چنتے ہیں تو ایسے ہی چنتے ہیں۔ منتخب نمائندوں نے عوام کے مسائل کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اسمبلی نے مہنگائی کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا، کورونا کے حوالے سے جو مشکلات آئیں، اس اسمبلی نے کورونا سے معاشی بحران پر کوئی توجہ نہیں دی۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ بنیاد اسلام کا یہ بل علمائے کرام کی مشاورت کے بغیر ہی پاس کر دیا گیا، پھر اس بل کے پاس ہونے پر جشن منایا، پھر قبروں پر جا کر رکھا اور اسے تاریخی کامیابی قرار دیا اور گذشتہ 30 سالہ قتل و غارت کے پیش نظر اسے کامیابی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان حرکات سے واضح ہوگیا کہ اس بل کے مقاصد کیا تھے۔ اس بل کے سقم کیا ہیں، بعض جماعتوں نے پیش کئے ہیں، وہ کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم جماعتوں کے دہشتگردوں اور سرغنوں کو حکومت اپنا مشیر بنا لیتی ہے، پھر حکومت کہتی ہے کہ ہم دہشت گردوں کو جرم چھڑوا کر سیاست میں لانا چاہتے ہیں، یوں انہیں سیاست میں آنے سے بڑا میدان مل جاتا ہے۔ یہاں کالعدم جماعتوں کے لوگوں کو اہم عہدے دے دیئے جاتے ہیں، یہ کالعدم قرار دینا بھی ایک مذاق ہے، وہ نام بدل کر پھر آجاتے ہیں، یوں وہ پہلے سے زیادہ موثر ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں جو مدر دہشت گرد جماعتیں ہیں، ان میں ایم کیو ایم سرفہرست ہے، جس کو ضیاء الحق کے زمانے میں بنایا گیا تھا، انہوں نے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کو بے اثر کرنا تھا، ایم کیو ایم نے دہشت گردی کی اور ایسی کی کہ پوری دنیا کی دہشت گردی ایک طرف ایم کیو ایم کی دہشتگردی ایک طرف، قیادت سے لیکر نیچے کارکن تک سینکڑوں مقدمات ہیں، جب بھی کوئی گرفتار ہوتا ہے تو پوچھتے ہیں کتنے مارے؟ وہ کہتا ہے سو سے زائد، یعنی سینکڑوں کی تعداد میں قتل و غارت کی گئی۔ ایم کیو ایم کے لیڈر نے براہ راست پاکستان کیخلاف نعرے لگوائے، تو میڈیا اسے لائیو دکھاتا تھا، پھر عدالتوں کے ایکشن پر اس کی تقریروں پر پابندی لگا دی گئی۔ پرویز مشرف کے حامی بھی ایم کیو ایم والے ہی تھے، یہ مسلمہ دہشت گرد بھی ثابت ہوچکے ہیں، لیکن حکومت میں بھی بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اور بھی تنظیمیں ہیں، جنہیں عدالتوں اور حکومتوں نے دہشتگرد ڈکلیئر کیا ہے تو یہ حکومتوں میں بیٹھے ہیں، تو یہ دہشتگردی کو ہی پروموٹ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی بھائی ہیں، شیعہ سنی دونوں مسلمان ہیں، شیعہ سنی کے دھوکے میں آکر اسلام کو نقصان نہ پہنچاو، اسلام کی حدوں کو خراب نہ کرو، پاکستان میں سیاسی اور مافیاز کا گٹھ جوڑ ہے، پاکستان میں بہت سے مافیاز ہیں، مافیاز سیاستدانوں کو خریدتے ہیں، سیاستدان مافیاز کو استعمال کرتے ہیں۔ یہاں شوگر مافیا، پٹرول مافیا، ادویات مافیا، یہ سب سیاستدانوں کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ابھی شوگر مافیا کے لوگوں کے نام آئے ہیں، اس میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے افراد بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی دہشت گردوں کا مافیا بھی بہت مضبوط ہے، سیاستدان ان کو استعمال کرتے ہیں اور سیاستدان مختلف قانون بنا کر ان کو سہولت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے جن کو چنا، عدالتوں نے انہیں چور، لٹیرے، غدار، ڈاکو اور نہ جانے کیا کیا القابات ملے ہیں، کیا عوام سوچتے نہیں کہ ہم نے چوروں کو اسمبلیوں میں بھیجا ہے، یہ کیسے عوام کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں، آج پی ٹی آئی والے دوسروں کو چور کہہ رہے ہیں، ان کا اقتدار ختم ہونے دیں، پھر انہیں بھی اسی طرح چور، ڈاکو ہی کہا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقے کی مقبولیت دیکھتے ہوئے سپیکر صاحب نے یہ اقدام کیا ہے کہ انہیں استعمال کیا جائے، تو سپیکر نیب سے بچنے اور وزیراعلیٰ بننے کیلئے ثانوی درجے کے مسائل کو اٹھا کر اسمبلی میں لائے اور بل منظور کروا لیا گیا۔ ہمارے سپیکر تجربہ کار سیاستدان ہیں، فوجی حکمرانون کیساتھ رہے، سیاسی قوتوں کیساتھ بھی رہے ہیں، بے نظیر نے اپنی وصیت میں لکھا ہوا تھا کہ میرے قتل میں یہ لوگ ملوث ہوں گے، پھر وقت نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی جنہیں قاتل لیگ کہتی تھی، انہیں ہی اپنا اتحادی بنا لیا۔ اب چودھری پرویزالہیٰ نے ہیرو بننے کیلئے یہ بل پاس کروا دیا، اس کے بعد چودھریوں کا ڈیرہ آباد ہوگیا، اب علماء بھی آرہے ہیں، مشائخ بھی آ رہے ہیں اور سیاسی مقاصد کیلئے ثانوی درجے کے معاملے کو بل بنا کر پیش کرکے پاکستان میں پریشانی کھڑی کر دی ہے۔ اس بل کی کوئی ضرورت نہیں تھی، آئین پاکستان میں یہ سب کچھ مندرج ہے۔ سب سے بڑی دستاویز اسی حکومت نے پیغام پاکستان کے نام سے منظور کروائی، اس میں 18 سو علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اس پر تمام مسالک کا اجماع و اتفاق ہے۔ پیغام پاکستان میں بھی یہی باتیں۔ پیغام پاکستان کی موجودگی میں اس بل کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ علامہ جواد نقوی نے سوال کیا کہ پنجاب اسمبلی بتا سکتی ہے کہ پیغام پاکستان کو کیوں فراموش کرکے یہ بل پاس کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 877675
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش